برطانیہ: احتجاجی تنظیم ’فلسطین ایکشن‘ کو دہشتگرد قرار دینے پر ترک کو تشویش

یو این جمعہ 25 جولائی 2025 22:30

برطانیہ: احتجاجی تنظیم ’فلسطین ایکشن‘ کو دہشتگرد قرار دینے پر ترک ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 جولائی 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے برطانوی حکومت کی جانب سے احتجاجی گروہ 'فلسطین ایکشن' کو انسداد دہشت گردی قانون کے تحت کالعدم قرار دینے کے فیصلے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے ملک بھر میں بنیادی آزادیوں پر قدغن عائد ہونے کا خدشہ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو ایسے اقدامات پر لاگو نہیں کیا جا سکتا جو بنیادی طور پر دہشت گردی کی زمرے میں نہیں آتے۔

برطانیہ میں انسداد دہشت گردی کے قوانین وسیع تر افعال کا احاطہ کرتے ہیں جن میں املاک کو سنگین نقصان پہنچانا بھی شامل ہے۔

Tweet URL

لیکن عالمی معیارات کے مطابق، عوام میں خوف پھیلانے یا حکومت کو کسی مخصوص اقدام پر مجبور کرنے کے لیے لوگوں کی جان لینے، انہیں شدید جسمانی نقصان پہنچانے یا انہیں یرغمال بنائے جانے جیسے جرائم کو ہی دہشت گردانہ کارروائی قرار دیا جانا چاہیے۔

(جاری ہے)

ان کا کہنا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے دہشت گردی کی تعریف کو ان واضح حدود سے آگے بڑھانا اس جرم کی سنگینی اور اثرات سے ناجائز طور پر کام لینے کے مترادف ہے اور اس طرح انسداد دہشت گردی کے قوانین کو ایسے اقدامات پر لاگو کیا جا رہا ہے جو قانون کے تحت پہلے ہی جرم متصور ہوتے ہیں۔

غیرمتناسب اور غیرضروری اقدام

برطانیہ کی حکومت نے رواں سال جون میں 'فلسطین ایکشن' کے چند ارکان کے ایک فوجی ہوائی اڈے میں زبردستی داخل ہونے اور مبینہ طور پر دو جنگی طیاروں پر سپرے پینٹ کرنے سمیت دیگر املاک کو نقصان پہنچانے کے واقعات کے بعد اس گروہ کو دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت کالعدم قرار دے دیا تھا۔

اس پابندی کے تحت 'فلسطین ایکشن' کی رکنیت اختیار کرنا، گروہ کو مدد فراہم کرنا یا ایسا لباس پہننا جرم ہو گا جس سے یہ معقول شبہ ابھرتا ہو کہ وہ فرد اس تنظیم کا رکن یا اس کا مددگار ہے۔ ایسا طرزعمل قابل سزا جرم ہو گا اور جو فرد اس کا مرتکب پایا گیا اسے جرمانے سے لے کر 14 سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔

ہائی کمشنر نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ غیرمتناسب اور غیرضروری معلوم ہوتا ہے۔

اس سے فلسطین ایکشن کی سرگرمیوں میں شامل ہونے اور ان کی حمایت کرنے والے بہت سے لوگوں کے حقوق محدود ہو جائیں گے جو کسی مجرمانہ سرگرمی میں ملوث ہونے کے بجائے اظہار، پرامن اجتماع اور میل جول کی آزادی کے حق سے کام لینا چاہتے ہیں۔ اس طرح یہ اقدام ان حقوق پر ناجائز قدغن کے مترادف اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی قانون کے تحت برطانیہ کی ذمہ داریوں سے متضاد ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے اظہار رائے اور دیگر آزادیوں کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا ہے اور اس طرح بہت سے لوگوں کی جانب سے ان حقوق کے قانونی استعمال پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

فیصلہ واپس لینے کا مطالبہ

5 جولائی کو یہ پابندی موثر ہونے کے بعد برطانیہ کے انسداد دہشت گردی ایکٹ 2000 کے تحت 200 لوگوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے جن میں سے بیشتر پرامن احتجاج میں شریک تھے۔

ہائی کمشنر نے برطانیہ کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطین ایکشن پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ واپس لے اور اس کے تحت احتجاج کرنے والوں کے خلاف تفتیش اور دیگر کارروائی کو روک دیا جائے۔

انہوں نے حکومت سے انسداد دہشت گردی سے متعلق قوانین پر نظرثانی کا مطالبہ بھی کیا ہے جن میں دہشت گردی کی تعریف بھی شامل ہے اور ایسے تمام قوانین کو انسانی حقوق کے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق بنانے پر زور دیا ہے۔