اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جولائی 2025ء) جب ہم تاریخ میں مذہبی انتہا پسندی کے کردار کا مطالعہ کرتے ہیں تو سب سے پہلے ہمارے سامنے اُس کا یہ پہلو آتا ہے کہ وہ اپنے مذہب کی سیمائی پر یقیین رکھتی ہے اور دوسری تمام سیمائیوں کو رَد کر دیتی ہے۔ اپنی ہی سیمائی کے دائرے میں رہتے ہوئے تعصّب اور نفرت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔
جب دوسری سیمائیوں کو تسلیم نہ کیا جائے تو علیحدگی کی حالت میں معاشرہ ایک جگہ ٹھہر جاتا ہے۔انتہا پسندی معاشرے کے اتحاد کے لیے ضروری سمجھتی ہے کہ اِس میں کوئی نئی فرقے پیدا نہ ہوں کیونکہ اس صورت میں اُس کا اتحاد چیلنج ہوتا ہے۔ اس کا مشاہدہ ہم قدیم تاریخوں میں بھی دیکھتے ہیں۔ مثلاً جب ایران کی ساسانی سلطنت میں زرتشت مذہب ریاست نے اختیار کر لیا تھا تو اُس نے مَزدَق اور مانی کی فرقے وارانہ تحریکوں کو سختی سے کُچل دیا۔
(جاری ہے)
مذہبی انتہا پسندی کو نہ صرف اُس کی سچائی کے لیے بلکہ اُس کے اتحاد کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ مثلاً 313 عیسوی میں جب قُسطنطین نے مسیحی مذہب اختیار کر لیا تو مسیح کے پیروکاروں نے ریاست کی مدد سے پیگن مذہب کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ اُن کے مَندروں کو مُسمار کیا، اُن کے بُتوں کو توڑا۔
اُن کے مذہبی راہنماؤں کو یا تو قتل کیا یا اُنھیں جِلاوطن ہونے پر مجبور کیا۔ پیگن مذہب کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ مسیحیت میں جو نئے فرقے پیدا ہوئے تھے، اُن کا بھی خاتمہ ہوا۔گیارہویں سے تیرہویں صدی عیسوی تک یورپ صلیبی جنگوں میں مصروف رہا جن میں مذہب کے نام پر لوگوں کو مسلمانوں سے لڑوایا گیا تاکہ مسیحی مذہب کی برتری کو قائم کیا جا سکے۔
مسیحی مذہب کے مشہور عالم سینٹ اَگسِٹن کا کہنا تھا کہ اگر مسیحی کسی دوسرے مذہب کے لوگوں پر فتح حاصل کرتے ہیں تو انہیں ان کا قتلِ عام کر دینا چاہیے، یہاں تک کہ بچوں اور نوجوانوں کو بھی نہیں چھوڑنا چاہیے کیونکہ بڑے ہو کر یہ مسیحیت کے خلاف ہو جائیں گے۔
اگرچہ کیتھولِک مذہب نے اتحاد کو برقرار رکھنے کی بہت کوشش کی، نئے مذہبی فرقوں کے خلاف فوجی اقدامات کیے گئے۔
لیکن یہ اتحاد اُس وقت ٹوٹا جب لُوتھر نے 1517 عیسوی میں پوپ کے خلاف آواز اُٹھائی جس کے نتیجے میں یورپ کا مسیحی اتحاد ٹوٹا اور یہ کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ میں تقسیم ہو گیا۔ اب مسیحیت میں ایک کے بجائے دو سچائیاں تھیں، جن کے ماننے والے ایک دوسرے سے مُتصادم ہوئے۔کیتھولِک مذہب کے ماننے والے مُلکوں نے اس بات کی کوشش کی کہ اپنی حدود سے دوسرے مذاہب اور فرقوں کو نکال کر ایک ہی عقیدے کو نافذ کریں۔
چنانچہ 1482ء میں اسپین نے جو کیتھولِک فرقے کا سربراہ ہو گیا تھا، اُس نے اندلس سے یہودیوں اور مسلمانوں کو نکال کر پورے اسپین میں مسیحی عقیدے کو نافذ کیا۔ اس کے علاوہ اُس نے پروٹسٹنٹ ملکوں سے جنگیں بھی کیں۔ جن کی وجہ سے یہ معاشی بحران میں مُبتلا ہوا اور بالاآخر یورپ کا پسماندہ مُلک بن گیا۔کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ کے درمیان تصادُم کی وجہ سے یورپ میں نہ تو مذہبی اتحاد رہا اور نہ اَمن و اَمان۔
1618ء سے 1648ء تک جرمنی اور دوسرے یورپی مُلک 30 سال تک مذہبی جنگیں لڑتے رہے۔ جس کے نتیجے میں یورپ میں کیتھولِک اور پروٹسٹنٹ ریاستیں قائم ہوئیں۔مذہبی تبدیلی کی وجہ سے عام لوگوں کو مصیبتیں اُٹھانا پڑیں۔ مثلاﹰ پروٹسٹنٹ مُلکوں میں کیتھولِک عقیدے کے ماننے والوں کو مذہی آزادی نہیں تھی۔ یہی صورتحال کیتھولِک ریاستوں میں پروٹسٹنٹ اقلیتوں کی تھی۔
فرانس جس میں کیتھولِک ماننے والوں کی اکثریت تھی، وہاں یہ کوشش کی گئی کہ پروٹسٹنٹ فرقے والوں سے رواداری کا سلوک کیا جائے لیکن جب کوئی بھی فرقہ صرف اپنی سچائی پر یقین رکھتا ہے تو وہ دوسرے فرقوں کے لیے رواداری کو تسلیم نہیں کرتا۔ بلکہ یہ رواداری اُس کے عقیدے کو کمزور کرتی ہے اور اُس کے ماننے والوں کو شک و شُبے میں مُبتلا کرتی ہے۔ اس لیے مذہی اقلیتوں کے ساتھ تعصّب کا برتاؤ کیا گیا۔ فرانس میں جہاں پروٹسٹنٹوں کے لیے ایک قانون کے ذریعے اُنھیں مذہبی آزادی دی گئی تھی، اُسے لوئی چہار دہم نے ختم کر دیا۔ جس کی وجہ سے پروٹسٹنٹوں کی ایک بڑی تعداد فرانس چھوڑ کر دوسرے مُلکوں میں چلی گئی۔ جس کی وجہ سے فرانس کی صنعت و حرفت کو نقصان بھی پہنچا۔مذہبی انتہا پسندی کی وجہ سے یورپ ایک طویل عرصے تک سیاسی انتشار میں رہا جس نے اُس کی ترقی کے راستوں کو روکے رکھا۔
یہ ذہنیت آہستہ آہستہ اُس وقت ختم ہوئی جب یورپ میں قومی ریاست کی تشکیل ہوئی جس کی بنیاد مذہب پر نہیں تھی، اور قوم میں ہر مذہب اور عقیدے کے ماننے والوں کی شمولیت تھی۔ قوم کے نظریے میں ایک ہی سچائی کے تصور کو توڑا اور اَب اتحاد قوم کے نام پر ہوا اور قومی ریاست کا کوئی مذہب نہیں رہا۔ یہ ایک طویل سفر تھا جو یورپ نے اختیار کیا، اور جب مذہبی تعصّبات ختم ہوئے تو اُس کے معاشرے نے علوم و فنون، سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی۔