اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جولائی 2025ء) ایشین ٹرانسپورٹ آبزرویٹری کہلانے والے اس ادارے نے بتایا ہے کہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ملکوں میں شمار ہونے والے پاکستان میں سڑکوں پر پیش آنے والے حادثات میں تقریباﹰ ہر چھ منٹ بعد کسی نہ کسی انسان کی موت کی تصدیق عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار سے بھی ہوتی ہے۔
اس آبزرویٹری کے مطابق پاکستان میں ہر سال ٹریفک حادثات میں ہلاک ہونے والوں میں سے تقریباﹰ 60 فیصد افراد 15 سے 44 برس کی عمر کے ہوتے ہیں۔
ٹریفک حادثات اور بچوں کی ہلاکتیں
اس کے علاوہ پاکستانی سڑکوں پر حادثات میں مرنے والوں میں سے قریب 20 فیصد 14 سال سے کم عمر کے بچے ہوتے ہیں جبکہ باقی ماندہ 20 فیصد ہلاک شدگان 45 برس یا اس سے زائد عمر کے افراد ہوتے ہیں۔
(جاری ہے)
ایشین ٹرانسپورٹ آبزرویٹری کے مطابق پاکستان میں ہر سال جتنے بھی شہری سڑکوں پر ہونے والے حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں، ان میں سے تقریباﹰ ایک چوتھائی تعداد خواتین یا بچیوں کی ہوتی ہے جبکہ مجموعی طور پر 41 فیصد ہلاک شدگان ایسے راہ گیر ہوتے ہیں، جو خود کسی سواری میں سفر نہیں کر رہے ہوتے مگر پھر بھی پیدل چلتے ہوئے حادثات کی زد میں آ جاتے ہیں۔
ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں اور ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیاں
اپنی آبادی میں تیز رفتار اضافے کا سامنا کرنے والے پاکستان میں سڑکوں کی مجموعی حالت اور ان پر چلنے والی ٹریفک کی صورت حال تسلی بخش قرار نہیں دی جاتی۔ پھر بہت سے ڈرائیور ٹریفک قوانین کا احترام بھی نہپں کرتے۔ نتیجہ یہ کہ ہر سال جتنے بھی پاکستانی ٹریفک حادثات میں ہلاک ہو جاتے ہیں، ان میں سے بہت بڑی تعداد موقع پر ہی دم توڑ دیتی ہے۔
نیشنل روڈ سیفٹی اسٹریٹیجی
پاکستان نے اپنے سڑکوں کے نظام کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے 2018 میں ایک نیشنل روڈ سیفٹی اسٹریٹیجی بھی تیار کی تھی۔ یہ حکمت عملی 2030 تک بارہ سال کے عرصے کے لیے تیار کی گئی تھی تاکہ ٹریفک حادثات میں ہونے والی اموات اور زخمیوں کی تعداد دونوں کو واضح طور پر کم کیا جا سکے۔
لیکن یہ اسٹریٹیجی اب تک کتنی مؤثر ثابت ہوئی ہے، اس بارے میں حقائق جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے پاکستانی شاہراہوں کی منتظم نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے بھی رابطہ کیا۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے تعلقات عامہ کے ڈپٹی ڈائریکٹر سبطین رضا لودھی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں کہا، ''پاکستانی شاہراہوں پر سلامتی امور کا نگران ادارہ نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس ہے، جس کے ہزاروں اہلکار پورے ملک میں اپنے فرائض انجام دیتے ہیں۔ نیشنل ہائی وے اتھارٹی یا NHA شاہراہوں کی تعمیر و مرمت سمیت کئی دیگر کام بھی کرتی ہے۔
لیکن 25 کروڑ کی آبادی والے اس ملک میں روڈ نیٹ ورک بہت وسیع ہونے کے باوجود اس پر ٹریفک کا لوڈ بہت زیادہ ہے۔ ‘‘ان کا مزید کہنا تھا، ''نیشنل ہائی وے اینڈ موٹر وے پولیس کے اہلکار ٹریفک قوانین کی خلاف ورزیوں پر چالان کرتے ہیں، جرمانے کرتے ہیں، دیگر قانونی کارروائیاں بھی کی جاتی ہیں، لیکن حالات ابھی تک بہتری کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے۔
‘‘ٹریفک حادثات کیسے روکے جا سکتے ہیں؟
سبطین رضا لودھی نے بتایا، ''یہ کام اتنا آسان بھی نہیں۔ ہمیں وسائل کی کمی، حکومتی مجبوریوں، عوامی آگہی کے فقدان اور آبادی میں دھماکہ خیز اضافے کا سامنا بھی ہے۔ ہم بھی عوام کو زیادہ باشعور بنانے کی کوششیں کرتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے حکومت، میڈیا، تعلیمی اداروں اور خاص طور سے والدین کی اجتماعی کاوشیں بھی درکار ہیں۔
ان سب عوامل کے بغیر جان لیوا ٹریفک حادثات میں کمی ممکن نہیں۔‘‘عوامی آگاہی کے پروگرام
لیکن پاکستان کے مختلف حصوں میں مقامی سطح پر یہ کوششیں کیسے کی جا رہی ہیں؟ اس بارے میں صوبہ پنجاب کے شہر ملتان میں روڈ سیفٹی ایجوکیشن کے انچارج، انسپکٹر سہیل احمد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''ہم کئی طرح کی آگہی مہمیں چلاتے ہیں۔
اسکولوں، کالجوں اور مصروف کاروباری علاقوں میں بھی۔ وہاں عام لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ مثلاﹰ دوران سفر سیٹ بیلٹ باندھنا اور ہیلمٹ پہننا کسی مسافر کی زندگی کییسے بچا سکتا ہے اور مقررہ حد سے زیادہ تیز رفتاری سے ڈرائیونگ کتنی جان لیوا ہو سکتی ہے۔ ہم ہر عمر کے صارفین کو ٹریفک قوانین سے متعلق بریفنگ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور مختلف سماجی گروپوں کی مدد سے بھی یہ کوشش کی جاتی ہے کہ روڈ سیفٹی میں ہر کوئی اپنا کردار ادا کرے۔‘‘ٹریفک حادثات میں کمی کیوں نہیں؟
ڈی ڈبلیو نے انسپکٹر سہیل احمد سے پوچھا کہ اگر اتنی زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیں، تو پھر روڈ ایکسیڈنٹ واضح طور پر کم کیوں نہیں ہو رہے؟
اس پر ان کا کہنا تھا، ''ٹریفک حادثات کئی طرح کے عوامل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ تیز رفتاری، شارٹ کٹ، ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال، دوسروں سے مناسب فاصلہ نہ رکھنا، غیر محتاط ڈرائیونگ، ٹریفک سگنلز کی خلاف ورزی، خطرناک اوور ٹیکنگ، ون وے روڈ کی خلاف ورزی اور پرخطر موسمی حالات۔
پھر ڈرائیور تھکا ہوا ہو یا ذہنی دباؤ کا شکار ہو تو کسی حادثے کا خطرہ ویسے ہی زیادہ ہو جاتا ہے۔ حادثات کی وجوہات بڑی متنوع ہوتی ہیں اور ان کے خلاف مربوط انفرادی اور اجتماعی کوششیں مقابلتاﹰ ناکافی۔ اسی لیے نتائج حسب توقع نہیں نکلتے۔‘‘لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ
اسلام آباد میں گزشتہ بارہ برسوں سے السید ڈرائیونگ اسکول کے نام سے اپنا ادارہ چلانے والی زاہدہ بتول کہتی ہیں کہ باقاعدہ ٹریننگ اور لائسنس کے بغیر ڈرائیونگ بھی حادثات کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا، '' ڈرائیونگ کے لیے لائسنس قانوناﹰ لازمی ہے۔ لیکن بہت سے لوگ کسی ڈرائیونگ اسکول میں جانا اور باقاعدہ ٹریننگ کے بعد ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ اس وجہ سے بھی ایکسیڈنٹ ہوتے ہیں۔ کوئی گاڑی میں سیٹ بیلٹ نہیں باندھتا تو کوئی اسکوٹر یا موٹر سائیکل چلاتے ہوئے ہیلمٹ نہیں پہنتا۔ میرے پاس تو کئی خواتین ایسی بھی آتی ہیں، جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس پہلے سے ہوتا ہے مگر جنہیں ڈرائیونگ بالکل نہیں آتی۔‘‘سن 2004 سے عوام میں روڈ سیفٹی کا شعور بیدار کرنے والے کوشاں ناصر محمود شیخ اسی حوالے سے بنائی گئی ایک تنظیم 'کیئر اینڈ کیئر‘ کے بانی بھی ہیں۔ ان کی تنظیم ٹریفک پولیس، ہائی وے پولیس اور ریسکیو 1122 کے ساتھ مل کر مفاد عامہ کے لیے کام کرتی ہے۔
تین چوتھائی حادثات کا سبب موٹر سائیکل سوار
ناصر شیخ نے مزید بتایا، ''اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں تین چوتھائی تک حادثات کا سبب موٹر سائیکل سوار بنتے ہیں۔ ایک چوتھائی حادثات کی وجہ کاروں اور بڑی مسافر بردار یا مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیور بنتے ہیں۔ اس لیے کہ پاکستان میں ہر سال 1.7 ملین نئی موٹر سائیکلیں سڑکوں پر آتی ہیں۔
ان کے نوجوان اور بہت سے واقعات میں نابالغ ڈرائیور غیر تربیت یافتہ ہوتے ہیں، اور شروع میں تو ان کی بڑی تعداد کے پاس ڈرائیونگ لائسنس بھی نہیں ہوتا۔‘‘ناصر محمود شیخ بتاتے ہیں کہ صوبہ پنجاب میں ریسکیو1122 کی 862 ایمبولینسیں ہیں، جو دن رات مصروف رہتی ہیں۔ انہیں چھوٹے بڑے ٹریفک حادثات کی روزانہ 1100 سے زائد ایمرجنسی کالیں آتی ہیں۔ ان میں سے اوسطاﹰ 12 سے چودہ تک جان لیوا حادثے ہوتے ہیں، جن میں کئی لوگ مر جاتے ہیں اور بہت سے زخمی یا معذور ہو جاتے ہیں۔
ادارت: امتیاز احمد