اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 جولائی 2025ء) دو سال قبل سارہ قنان ہائی اسکول کی ایک اسٹار طالبہ تھیں جو فائنل امتحانات کی تیاری کر رہی تھیں اور ڈاکٹر بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں۔ وہ آج غزہ پٹی میں گرمی میں تپتے ایک خیمے میں رہتی ہیں اور کہتی ہیں کہ وہ اب صرف زندہ رہنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اب 18 سالہ سارہ قنان فلسطینیوں کی اس نسل سے ہیں، جو اکتوبر 2023 میں غزہ کی جنگ شروع ہونے کے بعد سے تعلیم سے محروم ہے۔
سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کے بعد غزہ میں اسرائیلی ملٹری آپریشن کے آغاز پر لاکھوں افراد اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو گئے اور وہاں تعلیم کا سلسلہ بھی منقطع ہو گیا، جبکہ اسکول اور تعلیمی ادارے پناہ گاہوں میں تبدیل ہو گئے جو بے گھر فلسطینیوں کو پناہ فراہم کر رہے ہیں۔(جاری ہے)
مسلح تنازعات میں خواتین اور بچوں کی ہلاکتوں میں چار گنا اضافہ، اقوام متحدہ
گزشتہ چھ ہفتوں میں امدادی مقامات کے قریب 875 افراد ہلاک ہوئے، اقوام متحدہ
اسکولوں کی بندش نے جنگ، بھوک اور نقل مکانی سے دوچار نوجوانوں کے لیے زندگی میں کچھ کرنے کی ان کی امید کو بھی فی الحال ختم کر دیا ہے۔
چھوٹے بچوں کے لیے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ پڑھنے لکھنے اور سادہ ریاضی جیسی بنیادی مہارتوں سے محروم ہو گئے ہیں۔ بڑی کلاسوں کے طالب علموں کے لیے اعلیٰ درجے کے مضامین، گریجویشن امتحانات اور کالج کی تعلیم کا سلسلہ معطل ہو کر رہ گیا ہے۔لاکھوں بچے اور نوجوان تعلیم سے محروم
اقوام متحدہکے ادارہ برائے اطفال یونیسیف کے مطابق جنگ کے آغاز سے اب تک ساڑھے چھ لاکھ سے زائد فلسطینی طالب علموں کو تعلیم تک رسائی حاصل نہیں۔
ان میں تقریباﹰ 40 ہزار ایسے طلبہ شامل ہیں، جو یونیورسٹی میں داخلے کے ایسے امتحانات دینے سے قاصر تھے، جو بڑے پیمانے پر ان کے کیریئر کے امکانات کا تعین کرتے ہیں۔ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ غزہ پٹی میں امتحانات کا انتظام نہیں کیا گیا۔اولا شعبان نے اپریل 2024 میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے یونیورسٹی کیمپس کی تباہی کے بعد اپنی یونیورسٹی کے ذریعے سول انجینئرنگ کی تعلیم آن لائن جاری رکھنے کی کوشش کی۔
خان یونس کے قریب اپنے آبائی شہر میں انٹرنیٹ سگنل تک رسائی کے لیے انہیں طویل فاصلہ پیدل طے کرنا پڑتا اور بالآخر انہوں نے ہار مان لی۔وہ کہتی ہیں، ''انٹرنیٹ کی کم دستیابی، مسلسل نقل مکانی اور مسلسل خوف کے احساس کی وجہ سے میں کام جاری نہیں رکھ سکتی تھی۔ میری زندگی کے دو سال ضائع ہو چکے ہیں۔‘‘
کسی ممکنہ جنگ بندی کے باوجود تعلیمی عمل کی بحالی غیر یقینی
غزہ میں سیزفائر کے لیے اگر مذاکرات ایک نئی جنگ بندی کا باعث بنتے ہیں یا اگر یہ جنگ پوری طرح ختم بھی ہو جاتی ہے، تو بھی یہ واضح نہیں کہ غزہ میں کچھ بھی کب دوبارہ تعمیر کیا جا سکے گا۔
غزہ پٹی کے وسیع تر علاقے مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں اور اقوام متحدہ کے بچوں کے امدادی ادارے کا اندازہ ہے کہ تقریباً 90 فیصد اسکولوں کو دوبارہ کام کرنے سے پہلے بہت زیادہ تعمیر نو کی ضرورت ہو گی۔غزہ پٹی کے بہت سے لوگوں کی طرح قنان کا خاندان بھی کئی بار بے گھر ہو چکا ہے اور اب ایک خیمے میں رہ رہا ہے۔ جب 2024ء کے اوائل میں ایک اسرائیلی فضائی حملے میں ان کا گھر تباہ ہو گیا، تو سارہ نے اپنے تباہ شدہ گھر کے ملبے میں سے اپنی کتابیں تلاش کرنے کی کوشش کی لیکن ''کچھ بھی نہیں بچا تھا۔
‘‘سارہ قنان کے بقول، ''میرا واحد خواب طب کی تعلیم حاصل کرنا تھا۔ میں نے اس کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیا ہے۔ اب میرے تمام خیالات صرف اس بارے میں ہیں کہ میں زندہ کیسے رہوں۔‘‘
قنان کے والد ابراہیم کا، جو ایک مقامی صحافی ہیں، کہنا ہے کہ ان کے خاندان نے سارہ کے طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواب کی تکمیل کے لیے ہر ممکن کوشش کی، مگر جنگ شروع ہونے کے بعد یہ خواب بکھر کر رہ گیا۔
چھ بچوں کے والد ابراہیم کے بقول، ''جنگ نے ہماری زندگی کو الٹ کر رکھ دیا … ہماری امیدیں اور ہمارے خواب ہمارے گھر کے ملبے تلے دفن ہو گئے۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ، مقبول ملک