غزہ میں خوراک کا مسئلہ خطرناک سطح کو چھو رہا ہے ، عالمی ادارہ صحت

پیر 28 جولائی 2025 17:15

غزہ میں خوراک کا مسئلہ خطرناک سطح کو چھو رہا ہے ، عالمی ادارہ صحت
نیویارک(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 28 جولائی2025ء)عالمی ادارہ صحت نے ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ غزہ میں خوراک کی فراہمی کو جان بوجھ کر روکنے کا معاملہ جس قدر طول پکڑ رہا ہے جنگ زدہ اور بیگھر لوگ انتہائی طور پر خوراک سے محروم ہوتے جارہے ہیں۔ اب یہ مسئلہ جان لیوا مسئلہ بن چکا ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید سنگین ہو نے جارہا ہے۔

جس سے جانی نقصان کی شرح بڑھ سکتی ہے۔عالمی ادارہ صحت نے خبر دار کیا کہ غذائی قلت کا شکار ہو کر بیمار ہونے اور ہلاک ہوجانے والے فلسطینیوں کے اعداد و شمار خطرناک ہیں۔ سال 2025 کے دوران اب تک 74 افراد کی صرف اسی غذائی قلت کے باعث موت واقع ہو گئی ہے۔ جن میں سے 63 فلسطینی رواں ماہ جولائی میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ جس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ مسئلے کی سنگینی کی سطح کس قدر بڑھ رہی ہے۔

(جاری ہے)

عالمی ادارہ صحت نے ان اعداد و شمار کی بنیاد پر بین الاقوامی برادری کو انتباہ کیا اور کہا بھوک سے مرنے والے فلسطینی بچوں کی شرح بھی انتہائی خطرناک ہے۔ کہ ان 74 میں سے ہلاک شدہ بچوں کی تعداد 24 سے زائد ہے۔ کہ ان بچوں کو پوری خوراک مل سکی نہ غذا جو ان کی ضرورت تھی ان تک پہنچنے دی گئی۔اقوام متحدہ کے اس ادارے کے مطابق ان بھوک اور پیاس سے مرجانے والے ان 24 فلسطینی بچوں میں صرف وہی ہیں جن کی عمریں پانچ سال سے کم تھیں اور وہ بھوک کا مقابلہ نہ کر سکنے پر زندگی ہار گئے۔

عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ان بھوک زدہ فلسطینیوں میں سے زیادہ تر کی ہلاکت کسی ہسپتال تک پہنچنے سے بھی پہلے ہو چکی تھی۔عالمی ادرہ صحت نے کہا یہ انتہائی جان لیوا صورت حال روکی جا سکتی ہے لیکن اس کی ایک ہی صورت ہے کہ غزہ کے لوگوں کو خوراک پہنچنے دی جائے اور جبری ناکہ بندی مکمل ختم کی جائے۔ اگر جان بوجھ کر انسانوں کو مارنے کے لیے خوراک کی فراہمی اسی طرح روکی جاتی رہی تو غذائی قلت مزید خطرناک ہو جائے گی۔

کیونکہ اس وقت غزہ میں ہر پانچ بچوں میں سے ایک بچہ غذائی قلت کا انتہائی شکار ہے۔بچوں کی موت کے منہ میں بھوک اور قحط سے جانے کی صورت حال کی شدت کا ذکر کرتے ہوئے کہا غزہ میں چھ ماہ سے پانچ برس تک کے بچوں کی ہلاکتوں میں ماہ جون اور جولائی کے دوران تین گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ جس کا نتیجہ واضح ہے۔ مگر اسے زبان پر لاتے ہوئے بھی تکلیف سے گزرنا پڑتا ہے۔

عالمی ادارہ صحت نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی کہا یہ اعداد و شمار اس سے بھی کہیں زیادہ ہونے کا اندیشہ ہے۔جیسا کہ خان یونس کے علاقے میں غذائی قلت کا شکار ہونے والے بچوں کی تعداد ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں دوگنا بڑھ گئی ہے۔ اسرائیل نے تکنیکی نوعیت کا فوجی کارروائیوں میں تعطل ہوا ہے ۔ اس دوران انسانی بنیادوں پر کام کرنے والے اداروں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنا کام کر سکتی ہیں اور خوراک غزہ میں لا سکیں گی۔

مگر عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے یہ اسرائیلی اقدام کافی نہیں۔غزہ میں اس وقت خوراک، ادویات اور دیگر بنیادی نوعیت کی اشیا کے ایک مسلسل اور بھرپور سیلاب کی ضرورت ہے۔ تاکہ ایک جانب لوگوں کو کھانا پینا میسر ہو اور دوسری جانب عوارض کا شکار ہو چکے ہزاروں افراد کو علاج کی درست سہولت مل سکے۔ اہل غزہ کو مسلسل خوراک چاہیے۔بھوک میں مختصر وقفوں سے کام نہ چلے گا۔ نیز انہیں متنوع غذا کی اشد ضرورت ہے اور یہ خوراک ایک سیلاب کی صورت جاری رہنی چاہیے جسے دوبارہ روکنے کی حکمت عملی موجود نہ رہے۔