اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 31 جولائی2025ء) سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن نے سائبر دھوکہ دہی کے خلاف سخت کارروائی، منظم ڈیجیٹل جرائم کے مؤثر استغاثہ کے لئے مضبوط قانونی ڈھانچوں کے قیام ، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت میں مسلسل سرمایہ کاری اور فنڈنگ کی منصفانہ اور مساوی تقسیم کویقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔
سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کا اجلاس جمعرات کو پارلیمنٹ ہاؤس میں سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان کی صدارت میں منعقد ہوا۔ کمیٹی نے اہم امور پر گہرائی سے تبادلہ خیال کیا، جن میں "ریگولیشن آف آرٹیفیشل انٹیلی جنس بل، 2024"، اے آئی کی صلاحیت میں اضافہ، ٹیلی کام سروسز کے معیار، غیر قانونی کال سینٹرز پر چھاپوں، اور پاکستان کی چپ ڈیزائن اور لینگویج ماڈلنگ میں پیش رفت شامل تھی۔
(جاری ہے)
کمیٹی نے سینیٹر ڈاکٹر افنان اللہ خان کی طرف سے پیش کردہ مجوزہ اے آئی قانون کا جائزہ لیا، جس کا مقصد ملک میں اے آئی ٹیکنالوجیز کی ذمہ دارانہ ترقی اور استعمال کے لیے قانونی اور اخلاقی ڈھانچہ قائم کرنا ہے۔ ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کی طرف عالمی رجحان کے پیش نظر، کمیٹی نے اے آئی ریگولیشن کی فوری ضرورت پر زور دیا۔ وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن (ایم او آئی ٹی ٹی) کے سیکرٹری نے اراکین کو بتایا کہ نئے قائم کردہ ایمرجنگ ٹیکنالوجی ونگ کو چار اہم شعبوں—آرٹیفیشل انٹیلی جنس، سیمی کنڈکٹرز، سائبر سکیورٹی، اور کوانٹم ٹیکنالوجیزمیں جدت کو تیز کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔
سینیٹر سیف اللہ سرور خان نیازی کے سوال پر سیکرٹری نے جواب دیا کہ مالی سال 2024-25 کے لیے پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) کے تحت 16 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔ پاکستان کے پہلے مقامی لارج لینگویج ماڈل (ایل ایل ایم) کے حوالے سے وزارت کے جاز اور نسٹ یونیورسٹی کے ساتھ تعاون پر تفصیلی بحث ہوئی۔ سیکرٹری آئی ٹی نے واضح کیا کہ جاز اور نسٹ کو وزارت نے باضابطہ طور پر منتخب نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود ابتداء کی اور یہ منصوبہ خود مختار طور پر فنانس کر رہے ہیں۔
سینیٹر افنان اللہ خان کے مزید استفسار کے جواب میں سیکرٹری نے تصدیق کی کہ اس میں کوئی سرکاری فنڈز شامل نہیں ہیں۔کمیٹی ارکان نے تجویز دی کہ اس حوالے سے عوامی طور پر اشتہار دیا جائے تاکہ وسیع تر شرکت ممکن ہو، جس پر سیکرٹری نے اتفاق کیا اور کہا کہ اب ملک بھر کی یونیورسٹیوں کو دلچسپی ظاہر کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ بریفنگ کے دوران، جاز کے نمائندوں نے مقامی زبانوں کو درپیش خطرات پر زور دیا اور بتایا کہ ایل ایل ایم کا مقصد ملکی لسانی وراثت کو بحال کرنا ہے، حالانکہ انہوں نے ڈیٹا اکٹھا کرنے کو ایک بڑی رکاوٹ قرار دیا۔
سیکرٹری نے سیمی کنڈکٹر کی ترقی پر بھی کمیٹی کو بتایا کہ فی الحال 12 کمپنیاں چپ ڈیزائن میں مصروف ہیں، اور 7,000 بیچلر سطح کے طلبہ کو عملی ٹیکنالوجی مہارتوں کی تربیت دی جا رہی ہے، جس سے پاکستان اس شعبے میں رہنما بننے کی پوزیشن میں ہے۔ نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (این سی سی آئی اے) کے ڈائریکٹر نے ملک بھر میں غیر قانونی کال سینٹرز کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن پر تفصیلی بریفنگ دی۔
ملک بھر میں 54 کال سینٹرز پر چھاپے مارے گئے، جس کے نتیجے میں 254 افراد گرفتار ہوئے، جن میں اسلام آباد میں سب سے زیادہ آپریشنز ہوئے۔ یہ کال سینٹرز عام طور پر 300 سے 400 افراد کو ملازمت دیتے تھے اور لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے پیچیدہ طریقے استعمال کرتے تھے، جن میں جعلی سوشل میڈیا پروفائلز بنانا،اکثر خواتین کے طور پرشامل تھا تاکہ متاثرین کو مالیاتی دھوکہ دہی میں پھنسایا جائے۔
متاثرین کو جعلی آمدنی کے اسکرین شاٹس اور زیادہ منافع کے وعدوں سے راغب کیا جاتا تھا۔ اعتماد قائم ہونے کے بعد، انہیں ٹیلیگرام چینلز پر منتقل کیا جاتا تھا، جہاں بڑے پیمانے پر دھوکہ دہی کی جاتی تھی۔ ڈائریکٹر نے بتایا کہ ان دھوکہ دہی سے حاصل ہونے والے فنڈز اکثر کرپٹو کرنسی میں تبدیل کر کے بیرون ملک منتقل کیے جاتے تھے، جس سے نفاذ اور ریکوری انتہائی مشکل ہو جاتی تھی۔
کمیٹی اراکین نے تمام پبلک پرائیویٹ شراکت داریوں، خاص طور پر قومی اے آئی ماڈلز کی ترقی میں شفافیت کو یقینی بنانے کی اہمیت پر زور دیا۔ کمیٹی نے یہ تجویز دی کہ تمام اہل یونیورسٹیوں اور نجی شعبے کے اداروں کو ایسی منصوبوں میں برابر کے مواقع دیئے جائیں۔ کمیٹی نے سائبر دھوکہ دہی کے خلاف سخت کارروائی پر بھی زور دیا اور منظم ڈیجیٹل جرائم کے مؤثر استغاثہ کے لیے مضبوط قانونی ڈھانچوں کے قیام کا مطالبہ کیا۔
اراکین نے ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز اور ڈیجیٹل مہارتوں کی تربیت میں مسلسل سرمایہ کاری کی ضرورت پر زور دیا، جبکہ اے آئی سے متعلق فنڈنگ کی منصفانہ اور مساوی تقسیم کو یقینی بنانے کی بات کی۔ چیئرپرسن سینیٹر پلوشہ محمد زئی خان نے کمیٹی کے مؤثر نگرانی، بہتر ڈیجیٹل سیکیورٹی، اور پاکستان میں جامع اور مستقبل پر مبنی ٹیکنالوجی پرمبنی ترقی کے عزم کا اعادہ کیا۔