سپریم کورٹ کے میٹنگ منٹس پبلک کرنے کا معاملہ، 2سینئر ججز نے چیف جسٹس کو خط لکھ دیا

بدھ 20 اگست 2025 21:30

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 20 اگست2025ء)سپریم کورٹ کے میٹنگ منٹس پبلک کرنے کے معاملے پر سینئر جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو ایک اور خط تحریر کردیا ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ بطور کمیٹی ممبران ہم نے 26ویں ترمیم پر فل کورٹ کا فیصلہ کیا تھا لیکن کمیٹی کے فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کیس مقرر نہیں کیا گیا۔

31اکتوبر 2024کو بطور کمیٹی ہم نے فل کورٹ کا فیصلہ کیا جبکہ 4نومبر کو کیس نہ لگنے پر دوبارہ خط لکھا گیا۔منٹس کے حوالے سے دونوں ججز نے شکوہ کیا کہ ہمارے فیصلے پر چیف جسٹس کے لکھے گئے دونوں نوٹس ہمیں فراہم نہیں کیے گئے بلکہ چیف جسٹس نے اپنا نوٹ جوڈیشل کمیشن کی میٹنگ میں پڑھا حالانکہ جوڈیشل کمیشن اس معاملے پر مجاز فورم نہیں تھا۔

(جاری ہے)

خط میں کہا گیا کہ منٹس میں درج ہے کہ بینچ تشکیل کا معاملہ آئینی بینچ اور آئینی کمیٹی کو بھیجا گیا جبکہ اس وقت ایسا کوئی فورم موجود ہی نہیں تھا۔

ججز نے سوال اٹھایا کہ اجلاس کی کارروائی کو اب پبلک کیوں کیا گیا کارروائی پبلک کرنے کی وضاحت شائد ستمبر میں آئینی بینچ کے دوبارہ فعال ہونے کے بعد سامنے آئے گی۔خط میں انکشاف کیا گیا کہ 31اکتوبر کو جسٹس منصور اور جسٹس منیب نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی جس میں سپریم کورٹ اور چیف جسٹس پر اٹھنے والے سوالات اور عوامی اعتماد کی بحالی پر بات کی گئی۔

ملاقات میں فل کورٹ ہی حل قرار پایا لیکن چیف جسٹس فل کورٹ بنانے پر ہچکچاہٹ کا شکار رہے۔ چیف جسٹس نے ایک گھنٹے بعد دوبارہ ملاقات کی تجویز دی اور پھر جسٹس منیب کے چیمبر میں آئے۔ اس دوران انہوں نے بتایا کہ وہ تمام ججز سے انفرادی طور پر رائے لیں گے۔خط میں کہا گیا کہ چیف جسٹس کا انفرادی طور پر رائے لینا قانون اور عدالتی پریکٹس کے منافی تھا اور اس طرح لی گئی رائے کی کوئی حیثیت نہیں۔

ججز کے مطابق قانونی طور پر کمیٹی اجلاس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا، اس لئے اکثریت کی بنیاد پر 4نومبر کو فل کورٹ بنانے کا فیصلہ دیا گیا اور رجسٹرار کو ہدایات بھی جاری کی گئیں، تاہم اس پر بھی عمل نہ ہوسکا۔خط میں کہا گیا کہ فل کورٹ کے قیام کیلئے جوڈیشل اور انتظامی سطح پر ہر ممکن کوشش کی گئی لیکن ادارہ جاتی ردِعمل سامنے نہ آیا۔ججز نے موقف اپنایا کہ 26ویں ترمیم پر فل کورٹ بنانا لازم تھا اور کوئی اسے ختم نہیں کرسکتا، جبکہ چیف جسٹس کے نوٹس نے اکثریتی فیصلے کی بے توقیری کی وجہ بیان کی۔