’ججز کے پاس جادوئی طاقت نہیں‘ جسٹس سردار اعجاز نے بھی چیف جسٹس سرفرازڈوگر کے اقدامات پر سوالات اٹھا دیئے

حیرت ہے کہ میرے برادر جج صاحبان نے کس طرح اس تصور کو قبول کر لیا ہے کہ عدلیہ محض انتظامیہ کے آگے جھکنے والی ایک اکائی بن جائے؛ اسلام آباد ہائیکورٹ فل کورٹ میٹنگ سے قبل سامنے آئے خط کا متن

Sajid Ali ساجد علی بدھ 3 ستمبر 2025 11:15

’ججز کے پاس جادوئی طاقت نہیں‘ جسٹس سردار اعجاز نے بھی چیف جسٹس سرفرازڈوگر ..
اسلام آباد ( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 03 ستمبر 2025ء ) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کے بعد جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے بھی چیف جسٹس سرفرازڈوگر کے اقدامات پر سوالات اٹھا دیئے۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کی طرف سے فل کورٹ میٹنگ سے قبل جسٹس سردار اعجاز اسحاق کا لکھا گیا خط سامنے آیا ہے جس میں انہوں نے لکھا کہ کل مجھے فل کورٹ میٹنگ کے لیے نوٹ موصول ہوا، ججز کے پاس جادوئی طاقت نہیں ہے کہ ڈیڑھ دن پہلے ملنے والے تفصیلی رولز پڑھ لیں لیکن محاورے کے مطابق "دیر آید درست آید"، میں اس قدم کا خیر مقدم کرتا ہوں تاہم یہ ضرور واضح کرنا چاہوں گا کہ فل کورٹ میٹنگ ادارہ جاتی روایت کے طور پر ہر اس وقت ہونی چاہیئے جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے کام پر کوئی اہم فیصلہ اثر انداز ہو نہ کہ محض اس وقت جب موجودہ چیف جسٹس کی خواہش ہو، جب اسلام آباد ہائیکورٹ رولز کا گزٹ نوٹیفکیشن ہو چکا تو اب فل کورٹ اجلاس اس ایجنڈے پر بلانا محض فارمیلٹی ہے۔

(جاری ہے)

جسٹس سردار اعجاز اسحاق نے چیف جسٹس ڈوگر کو خط میں لکھا کہ مجھے حیرت ہے کہ برادر جج صاحبان نے کس طرح اس تصور کو قبول کرلیا کہ عدلیہ محض انتظامیہ کے آگے جھکنے والی ایک اکائی بن جائے، چاہے اس کے نتیجے میں انصاف کی پامالی ہو، یہ رویہ پہلے ہی بعض معاملات میں ناانصافی کا سبب بن چکا ہے اور میری نظر میں اس کے نتیجے میں قرآنِ پاک کی بے شمار آیات اور ہمارے پیغمبر اکرم ﷺ کی سنت کی مسلسل خلاف ورزی ہوتی ہے، جن میں انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے، اسی طرح آئین کے تحت جج کا حلف بھی یہی تقاضا کرتا ہے کہ وہ بغیر کسی خوف، جانبداری یا بدنیتی کے انصاف کرے۔

علاوہ ازیں اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کے 4 صفحات پر مشتمل خط کی کاپی بھی سامنے آئی ہے، انہوں نے خط کے مندرجات میں لکھا کہ کیا آج اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز سمجھتے ہیں کہ وہ اپنی آئینی ذمہ داری پوری کر رہے ہیں؟ کیا ججز یقین کرتے ہیں کہ شہری اپنے بنیادی حقوق کا انہیں محافظ سمجھتے ہیں؟ کیا اسلام آباد ہائیکورٹ نے ضلعی عدلیہ کو آزاد ادارہ بنانے کی کوشش کی؟ آپ نے ججز کے بیرون ملک جانے کے لیے این او سی لینا لازمی قرار دیا گویا ججز کو ای سی ایل پر ڈالا گیا، ادارے بنانے میں دہائیاں لگتی ہیں تباہ کرنے میں کچھ وقت نہیں لگتا۔

خط میں کہا گیا کہ روسٹر کی تیاری، کیسز فکس کرنے میں شفافیت کی کمی ہے، ہم روزانہ اپنے فیصلوں میں افسران کو کہتے ہیں کہ آپ بادشاہ نہیں نہ ہی اختیارات بغیر حدود و قیود ہیں، کیسز فکس کرتے وقت سینئر ججز کو نظر انداز کرکے ٹرانسفر اور ایڈیشنل ججز کو کیسز بھیجے جارہے ہیں، انتظامی اختیارات استعمال کرتے ہوئے کیا ججز اور چیف جسٹس کو یاد نہیں رکھنا چاہیئے وہ کنگ نہیں پبلک آفیشلز ہیں؟ آپ کا آفس کچھ کیسز میں کاز لسٹ بھی جاری کرنے سے انکاری ہے، جس سے عدلیہ کی آزادی متاثر ہو رہی ہے، روسٹر جاری کرکے میرے سمیت سنگل بینچز سے محروم کرنا بھی ہم نے دیکھا ہے، سینئر ججز کو انتظامی کمیٹی سے رولز کی خلاف ورزی میں الگ کیا گیا ایڈیشنل اور ٹرانسفر ججز کو شامل کیا گیا۔