سینیٹ قائمہ کمیٹی کا مجوزہ کرپٹو کرنسی ایکسچینجز پر کڑی شرائط پر تحفظات کا اظہار، گور نر اسٹیٹ بینک طلب

ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین کی کوالیفیکیشن اور تجربے کا معیار مقرر ہونا چاہیے، سیکرٹری خزانہ

بدھ 10 ستمبر 2025 20:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 10 ستمبر2025ء)سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے ملک میں مجوزہ کرپٹو کرنسی ایکسچینجز پر کڑی شرائط عائد کرنے پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان قوانین سے ملک میں ورچوئل کرنسی کا کاروبار کرنا مشکل ہوجائیگا۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی خزانہ کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس اسلام آباد میں ہوا، اجلاس میں ورچوئل اثاثہ جات بل 2025 پر غور کیا گیا۔

سیکرٹری خزانہ امداد اللہ بوسال نے کہا کہ ورچوئل اثاثہ جات ریگولیٹری اتھارٹی کے چیئرمین کی کوالیفیکیشن اور تجربے کا معیار مقرر ہونا چاہیے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ چیئرمین کے لیے ایم اے کی ڈگری ہونا لازمی نہیں ہے، چیئرمین اتھارٹی کے لیے کم از کم بی ایس اور ایم ایس کی ڈگری کی شرط مقرر کی جائے جب کہ سینیٹر انوشہ رحمٰن نے کہا کہ اتھارٹی کے چیئرمین کے لیے ڈیجیٹل فنانس کی ڈگری کی شرط ہونی چاہیے۔

(جاری ہے)

اجلاس کو بتایا گیا کہ ورچوئل اثاثہ جات کی فروخت کے لیے لائسنس کا ہونا ضروری ہوگا، ورچوئل ریگولیٹری اتھارٹی انسداد منی لانڈرنگ کے لیے اداروں کے ساتھ تعاون کرے گی، ریگولیٹری اتھارٹی ورچوئل اثاثہ جات کمپنی کے لائسنس کی ابتدائی درخواست منظوری دے گی۔کہا گیا کہ ابتدائی درخواست کی منظوری کے بعد ایس ای سی پی لائسنس کی منظوری دے گی اس کے بعد ریگولیٹری اتھارٹی فٹ اینڈ پراپر کا سرٹیفیکیٹ جاری کرے گی، ورچوئل اثاثہ جات کے کاروبار کے لیے کمپنی کا ہونا ضروری ہے کوئی انفرادی شخص ورچوئل اثاثہ جات کا کاروبار نہیں کر سکتا۔

بریفنگ میں بتایا گیا کہ ورچوئل اثاثہ جات کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو سختی سے ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہوگی اگر ان اداروں کو ریگولیٹ نہ کیا گیا تو مسائل پیدا ہوں گے۔سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ ان شرائط کی وجہ سے ورچوئل اثاثہ جات کا کاروبار کرنا مشکل ہوگا، اتھارٹی جسے چاہے گی لائسنس دے گی، جسے چاہے گی روک دے گی اتھارٹی سے این او سی لینے کی شرط سے کاروبار نہیں ہوگا۔

سینیٹر انوشہ رحمن نے کہا کہ کمپنیز کو 3،3 درخواستیں دینے کی شرط رکھی جا رہی ہے، ورچوئل اثاثہ جات کمپنیوں کے ڈائریکٹرز کے خلاف اگر کوئی جرم ثابت ہو اور عدالت سے کوئی فیصلہ آیا ہو تو لائسنس جاری نہ کیا جائے۔چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ بل سے صوابدیدی اختیارات ختم کیے جائیں صوابدیدی اختیارات لوگوں کے خلاف استعمال ہوتے ہیں۔سینیٹر انوشہ رحمن نے کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک اپنی تنخواہ خود مقرر کر رہے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ صدر مملکت ، وزیر اعظم یا وزیر خزانہ مقرر نہیں کر رہے۔

انہوںنے کہا کہا کہ گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہ حکومت مقرر نہیں کر رہی، کمیٹی نے آئندہ اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک کو طلب کر لیا، گورنر اور ڈپٹی گورنر اسٹیٹ بینک کی تنخواہوں کا معاملہ ان کیمرا دیکھا جائے گا۔