غزہ جانے والی امدادی فلوٹیلا کی آخری کشتی بھی اسرائیلی قبضے میں، عالمی مذمت، صحافی اور کارکن گرفتار

اسرائیل کا امدادی قافلے پر مکمل کنٹرول، 500 سے زائد رضاکار زیرِ حراست، عالمی رہنماؤں کا شدید ردعمل 4اطالوی رضا کاروں کو ملک بدرکردئیے ،باقی تمام کو بھی جلد ملک بدر کیا جائے گا،اسرائیلی وزارت خارجہ

جمعہ 3 اکتوبر 2025 21:00

دوحہ(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 03 اکتوبر2025ء) غزہ کا محاصرہ توڑنے کی بین الاقوامی کوشش کو ایک بار پھر اسرائیلی جارحیت کا سامنا، جب اسرائیلی فورسز نے جمعہ کی صبح پولینڈ کے پرچم والی "میرینیٹ" نامی کشتی پر بھی زبردستی چڑھائی کر دی، جو "گلوبل صمود فلوٹیلا" کا حصہ تھی۔ اس کشتی پر 6 افراد سوار تھے، اور یہ وہ آخری کشتی تھی جو محصور فلسطینیوں کے لیے امداد لے کر روانہ ہوئی تھی۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق، اسرائیل نے نہ صرف اس کشتی کو روکا بلکہ فلوٹیلا میں شامل پہلے سے گرفتار درجنوں رضاکاروں میں سے چار اطالوی شہریوں کو ملک بدر بھی کر دیا ہے۔ اسرائیلی وزارت خارجہ کے مطابق باقی تمام رضاکاروں کو بھی جلد ملک بدر کیا جائے گا۔یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب اسرائیلی بحری افواج پہلے ہی گلوبل صمود فلوٹیلا کے قافلے میں شامل 42 کشتیوں کو قبضے میں لے چکی ہے، جن پر سوار تقریباً 500 کارکنوں کو گرفتار کیا گیا۔

(جاری ہے)

ان میں نہ صرف عام رضاکار بلکہ ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ، بارسلونا کی سابق میئر آدا کولاو اور یورپی پارلیمنٹ کی رکن ریما حسن جیسی نمایاں شخصیات بھی شامل ہیں۔فریڈم فلوٹیلا سے وابستہ تنظیموں کے مطابق، گرفتار کیے گئے کئی کارکنوں نے اپنی گرفتاری کے ساتھ ہی غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال شروع کر دی ہے تاکہ عالمی ضمیر کو جھنجھوڑا جا سکے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے دعویٰ کیا ہے کہ تمام 461 گرفتار شدگان "محفوظ اور صحت مند" ہیں، تاہم یہ دعویٰ غیر جانبدار ذرائع سے تاحال تصدیق شدہ نہیں۔رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز (RSF) نے اس کارروائی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل نے فلوٹیلا پر موجود 20 سے زائد غیر ملکی صحافیوں کو بھی گرفتار کیا، جسے آزادی? اظہار، آزادی? صحافت اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا گیا۔

RSF کے کرائسس ڈیسک کے سربراہ مارٹن روکس نے کہا کہ صحافیوں کو کام سے روکنا ناقابل قبول اور غیر قانونی ہے، اور اسرائیل اس کی وضاحت کرنے سے قاصر ہے۔اسرائیلی حکومت نے ان کشتیوں پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ "قانونی بحری ناکہ بندی توڑنے کی کوشش" کر رہی تھیں اور کہا کہ ایسی کسی بھی کوشش کو روکنے کے لیے "تمام ضروری اقدامات" کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ اسرائیل 2007 سے غزہ کا مکمل محاصرہ کیے ہوئے ہے، جو اب 18 سال میں داخل ہو چکا ہے۔

اس محاصرے کے نتیجے میں خوراک، دوائیوں، ایندھن اور بنیادی سہولیات کی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے، اور اقوام متحدہ، ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ سمیت کئی ادارے اسے ’اجتماعی سزا‘ اور ’غیر قانونی‘ قرار دے چکے ہیں۔یہ فلوٹیلا مشن تاریخ کا سب سے بڑا امدادی قافلہ قرار دیا جا رہا ہے، جو 40 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے کارکنوں پر مشتمل تھا اور بین الاقوامی پانیوں میں رواں دواں تھا۔

ان کشتیوں پر اسرائیلی حملے نے دنیا بھر میں شدید سیاسی اور عوامی ردعمل کو جنم دیا۔انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن (ITF) کے سیکریٹری جنرل اسٹیفن کاٹن نے کہا کہ "بین الاقوامی پانیوں میں پرامن اور غیر مسلح امدادی کشتیوں پر حملہ کرنا بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ریاستیں یہ طے نہیں کر سکتیں کہ قانون کا احترام کب کریں اور کب نہ کریں۔

"عالمی ردعمل میں سب سے نمایاں مؤقف کولمبیا کے صدر گسٹو پیٹرو کا رہا، جنہوں نے نہ صرف اسرائیلی سفیروں کو ملک سے نکالنے کا اعلان کیا بلکہ آزاد تجارتی معاہدہ بھی منسوخ کر دیا۔ یورپی ممالک جیسے فرانس، جرمنی، برطانیہ، آئرلینڈ، اسپین اور یونان نے بھی اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ گرفتار رضاکاروں اور صحافیوں کے حقوق کا احترام کرے اور انہیں فوری رہا کرے۔اقوام متحدہ کی طرف سے باضابطہ ردعمل تاحال سامنے نہیں آیا، البتہ فلسطین کے لیے اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ فرانسسکا البانیزے نے ان گرفتاریوں کو "غیر قانونی اغوا" قرار دیتے ہوئے اسرائیل کے اقدامات کی مذمت کی ہی