بھارت میں سیلیبریٹیز اپنے'پرسنالٹی رائٹس‘ کو محفوظ کیوں کروا رہے ہیں؟

DW ڈی ڈبلیو اتوار 5 اکتوبر 2025 13:00

بھارت میں سیلیبریٹیز اپنے'پرسنالٹی رائٹس‘ کو محفوظ کیوں کروا رہے ہیں؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اکتوبر 2025ء) حالیہ دنوں میں کئی فنکاروں نے اپنے پرسنالٹی رائٹس کو محفوظ کروانے کے لیے عدالت کا سہارا لیا ہے۔ تازہ معاملہ جنوبی بھارتی اداکار ناگاارجن کا ہے۔ انہوں نے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ ان کے پرسنالٹی رائٹس کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ اس پر عدالت نے کہا کہ وہ ایسے مواد کو ہٹانے کے احکامات جاری کرے گی جو ان کے پرسنالٹی رائٹس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔

اس سے قبل فلم ساز کرن جوہر، اداکارہ ایشوریا رائے بچن، اداکار ابھیشیک بچن، انیل کپور، جیکی شیروف، سدگرو، رجت شرما اور ارجیت سنگھ جیسے کئی بڑے نام بھی عدالت جا کر اپنے پرسنالٹی رائٹس محفوظ کروا چکے ہیں۔

فلم ساز کمپنی 'دھرما پروڈکشنز‘ کی چیف لیگل آفیسر راکھی باجپائی نے ’ہندوستان ٹائمز‘ سے کہا کہ تجارتی فائدے اور توہین آمیز مواد بنانے کے لیے سیلیبریٹیز کے ناموں اور تصاویر کے غلط استعمال میں اضافہ ہوا ہے، اسی لیے یہ وقت کی ضرورت ہے۔

(جاری ہے)

پرسنالٹی رائٹس کیا ہوتے ہیں؟

پرسنالٹی رائٹس کو (شخصیت کے حقوق) کہا جاتا ہے۔ یہ قانونی حقوق ہیں جو ایک فرد کی ذاتی شناخت اور اس کے نام، تصویر، آواز یا دیگر پہچان کے پہلوؤں کے استعمال کو کنٹرول کرنے کا حق دیتے ہیں۔ یہ حقوق بنیادی طور پر یہ یقینی بناتے ہیں کہ کوئی بھی شخص یا ادارہ بغیر اجازت آپ کی شناخت یا شخصیت کا تجارتی یا عوامی استعمال نہ کرے۔

اسے ایشوریا رائے کی مثال سے سمجھا جا سکتا ہے جن کے پرسنالٹی رائٹس حال ہی میں عدالت نے محفوظ کیے ہیں۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ان کے نام یا شناخت کا استعمال ٹی شرٹ، مگ، پوسٹر یا کسی بھی ڈیجیٹل مواد بنانے میں نہیں کیا جا سکے گا۔ مزید یہ کہ ان کی ساکھ کو خراب کرنے کی غرض سے بھی ان کے نام، چہرے یا تصاویر کا استعمال نہیں ہو گا۔

اداکار انیل کپور کے کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ ان کے بولنے کے انداز، تاثرات اور ان کے مشہور جملے "جھکاس" کا غیر مجاز استعمال اے آئی کے ذریعے بھی نہیں کیا جا سکے گا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کی شناخت کا غلط استعمال نہیں ہو سکتا۔ جیکی شیروف کے کیس میں عدالت نے کہا تھا کہ ان کے نام کے ساتھ ساتھ ان کے لقب، آواز اور ان کے مشہور لفظ "بھڈّو" کا بھی غیر مجاز استعمال نہیں ہوگا۔

ان حقوق کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟

ماہرین کے مطابق سیلیبریٹیز کو بنیادی طور پر دو وجوہات سے اپنے پرسنالٹی رائٹس محفوظ کروانے کی ضرورت پڑتی ہے۔

ان کے نام، شناخت، آواز یا تصاویر کا تجارتی غلط استعمال کیا جاتا ہے۔

اے آئی ٹولز کی مدد سے ان کے توہین آمیز ڈیپ فیک یا دیگر فحش مواد بنایا جاتا ہے۔ یہ مسئلہ زیادہ تر خواتین سیلیبریٹیز کے سامنے آتا ہے۔

’دی ہندو‘ کی رپورٹ کے مطابق، ایشوریا رائے نے اپنی عرضی میں کہا تھا کہ کئی ویب سائٹس اور نامعلوم لوگ اے آئی کے ذریعے ان کا چہرہ لگا کر فحش اور عریاں مواد بنا رہے ہیں اور شیئر کر رہے ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا تھا،’’جب کسی مشہور شخص کی شناخت کو اس کی مرضی کے بغیر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے نہ صرف اسے تجارتی نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ اس کے باعزت زندگی گزارنے کے حق کو بھی متاثر کرتا ہے۔

‘‘

ارجیت سنگھ کے معاملے میں ایک کمپنی نے اے آئی ٹولز کی مدد سے ان کی آواز کی جعلی ریکارڈنگ تیار کی تھی۔ جیکی شیروف کے کیس میں اے آئی کے ذریعہ ان کے نام اور تصاویر کا ای کامرس پلیٹ فارمز پر غلط استعمال کیا جا رہا تھا۔ ٹی وی صحافی رجت شرما کے معاملے میں ان کے چہرے اور آواز کا استعمال کرکے ڈیپ فیک ویڈیوز بنائے جا رہے تھے اور پروڈکٹس کی تشہیر کی جا رہی تھی۔

ایسی مشکلات سے بچنے کے لیے ہی سیلیبریٹیز عدالت جا کر اپنے پرسنالٹی رائٹس محفوظ کروا رہے ہیں۔

پرسنالٹی رائٹس کے لیے قانون کیا ہے؟

قانونی ویب سائٹ 'بار اینڈ بینچ‘ کے مطابق، بھارتی قانون میں شخصیت کے حقوق کے لیے الگ سے کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ ٹریڈ مارک ایکٹ 1999 میں بھی ان حقوق کا ذکر نہیں ہے۔ تاہم، عدالتوں نے کئی معاملات میں ان حقوق کو قانونی تسلیم کیا ہے۔

لیکن پھر بھی واضح قانونی ڈھانچہ نہ ہونے کے سبب ان حقوق کی حفاظت میں مشکلات پیش آتی ہیں۔

بار اینڈ بینچ کے مطابق، شخصیت کے حقوق محفوظ کروانے کے لیے لوگوں کو ٹریڈ مارک قوانین، کاپی رائٹ قوانین اور آئینی اصولوں جیسے آرٹیکل 21 کے تحت رازداری کے حق کا حوالہ دینا پڑتا ہے، تب جا کر معاملہ بنتا ہے۔ اس وجہ سے عدالتوں کے فیصلوں میں بھی تضاد نظر آتا ہے اور انہیں نافذ کرنے میں بھی دشواریاں آتی ہیں۔

ایسے میں اب یہ مطالبہ بھی زور پکڑ رہا ہے کہ شخصیت کے حقوق کے لیے ایک خصوصی قانونی ڈھانچہ بنایا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کے لیے ایسا نظام ہونا چاہیے جو غیر مجاز استحصال سے تحفظ کی ضمانت دے اور ساتھ ہی اظہارِ رائے کی آزادی اور عوامی اقتصادی مفادات کے درمیان توازن قائم رکھے۔

ادارت: صلاح الدین زین