اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اکتوبر 2025ء) پاکستان میں اس وقت دو لاکھ سات ہزار رجسٹرڈ نجی اسکول موجود ہیں جن میں ساڑھے پندرہ لاکھ اساتذہ پڑھا رہے ہیں اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تقریباً دو کروڑ 70 لاکھ بچے ان اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں۔ اس کے برعکس، سرکاری اسکولوں کی تعداد ایک لاکھ 31 ہزار ہے۔
کون سا تعلیمی نظام اچھا، نجی یا سرکاری؟
کیا حکومت تعلیم کے شعبے کو بھی کنٹرول کرنا چاہتی ہے؟
اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ ملک میں اس وقت دو کروڑ 50 لاکھ بچے اسکول سے باہر ہیں۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر ماہرین کے مطابق ملک کو کم از کم دو لاکھ نئے سرکاری اسکولوں کی ضرورت ہے، لیکن یہ خلا اب تک پُر نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے پرائیویٹ سکول ہی لوگوں کے پاس واحد راستہ ہیں۔(جاری ہے)
شعبہ تعلیم کے ماہرین سمجھتے ہیں کہ تعلیم حکومت کی ترجیح میں شامل ہی نہیں ہے اور یہ کہ حکومت نے یہ شعبہ نجی تعلیمی اداروں کے سپرد کر دیا ہے۔
مسئلہ یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ نجی تعلیمی ادارے اپنی من مانی فیس وصول کرتے ہیں جو ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد ادا کرنے کے قابل نہیں۔'نجی اسکولوں کی معاشرے کے ساتھ دوہری زیادتی‘
دلچسپ پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات درمیانے درجے کے نجی اسکول نہ صرف بہتر نتائج دے رہے ہیں بلکہ اساتذہ کو ایلیٹ اسکولوں کے مقابلے میں بہتر تنخواہیں بھی فراہم کر رہے ہیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ مسئلہ صرف فیس یا تنخواہوں کا نہیں بلکہ تعلیمی نظام کی غیر مؤثر نگرانی ہے۔ قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ارم ظفر ایک پرائیویٹ اسکول ٹیچر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ پہلے ایک ایلیٹ اسکول میں پڑھاتی تھیں جہاں بچوں سے 20 ہزار ماہانہ فیس لی جاتی تھی لیکن ان کی اپنی تنخواہ صرف 30 ہزار تھی۔
اب وہ ایک نسبتاً کم مہنگے اسکول میں ہیں جہاں ان کا مشاہرہ 50 ہزار ہے، جبکہ معیار تعلیم بھی گزشتہ اسکول سے بہتر ہے۔ ان کے مطابق نجی اسکول معاشرے کے ساتھ دو طرح کی ناانصافی کرتے ہیں: عوام کی استطاعت سے زیادہ فیس لے کر اور اساتذہ کو کم اجرت دے کر، اسی وجہ سے ان کے اثاثے اور برانچیں بڑھتی جا رہی ہیں۔نجی شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے حلقے بہرحال اس بات سے مکمل اتفاق نہیں رکھتے اور کہتے ہیں کہ چند بہت زیادہ مہنگے اسکولوں کی وجہ سے معاشرے میں ایسا تاثر پروان چڑھ رہا ہے۔
صدر آل پاکستان پرائیویٹ اسکولز فیڈریشن کاشف مرزا کا کہنا ہے کہ نجی اسکولوں کے بڑھنے کی وجہ تو حکومتی رویہ ہے جو تعلیم پر توجہ دینے کو تیار نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ایک لاکھ سے بھی کم سرکاری سکول فعال ہیں اور ان میں دو کروڑ 10 لاکھ سے دو کروڑ 22 لاکھ بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ فعال سرکاری اسکولوں میں سے بھی نصف ادارے دراصل پبلک - پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چل رہے ہیں۔
کاشف مرزا کا کہنا تھا کہ حکومتی ڈیٹا کے مطابق سرکاری اسکولوں میں فی طالب علم ماہانہ لاگت نو ہزار 160 روپے ہے۔ اس کے مقابلے میں نجی اسکولوں کی اکثریت یعنی 85 فیصد میں فیس تین ہزار روپے سے بھی کم ہے۔ تیرہ فیصد نجی اسکول تین ہزار سے دس ہزار روپے فیس لیتے ہیں جبکہ صرف دو فیصد اسکول ایسے ہیں جہاں فیس دس ہزار سے پچاس ہزار روپے کے درمیان ہے۔
تعلیمی حلقوں کا ماننا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی بحران کی جڑیں سیاسی اور سماجی ڈھانچے میں پیوست نظر آتی ہیں۔ آمرانہ ادوار میں کبھی کبھار تعلیم پر توجہ دی گئی، مگر جمہوری حکومتوں نے اسے ہمیشہ نظر انداز کیا۔ اشرافیہ نے اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے معاشرے کو مختلف تعلیمی طبقات میں بانٹ دیا ہے۔ کیمبرج نظام اور دیگر غیر ملکی تعلیمی نظام ایلیٹ کے بچوں کو ہر سظح پر برتری فراہم کرتے ہیں۔
کاشف مرزا کے مطابق، ''موجودہ نظام اپنی بنیاد میں ناکام ہے اور اسے ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ ایک قومی نصاب کے بجائے پورے ملک میں ایک تعلیمی نظام ہونا چاہیے تاکہ طبقاتی تقسیم ختم ہو سکے۔ اگر حکومت سرکاری اسکولوں پر سرمایہ کاری نہیں کر سکتی تو نجی اسکولوں کو پابند کرے کہ وہ غریب بچوں کو داخلہ دیں۔ حکومت کے پاس ان بچوں کا ڈیٹا موجود ہے، اور چونکہ سرکاری اسکولوں میں فی طالب علم نو ہزار سے زائد خرچ ہو رہا ہے، اسی رقم کے برابر یا کم پر بھی مستحق بچوں کو نجی اسکولوں میں بھیجا جا سکتا ہے تاکہ تعلیم کی رسائی بڑھے اور وسائل ضائع نہ ہوں۔
‘‘تعلیم کے شعبے کے لیے حکومت غیر سنجیدہ؟
بعض ماہرین یہ بھی تجویز دیتے ہیں کہ اگر تمام سرکاری افسران اور وزرا اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں بھیجنے کے پابند ہو جائیں تو نظام کی کیفیت خود بخود بہتر ہو جائے گی۔ لیکن حکمران طبقہ خود نجی اداروں میں تعلیم دلواتا ہے، اسی لیے سرکاری نظام پر ان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
ڈاکٹر عطاء الرحمٰن جو چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن اور وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی بھی رہ چکے ہیں کہتے ہیں کہ مشرف کے دور میں انہوں نے یہ تجویز دی تھی کہ سرکاری ملازمین اور سیاسی قائدین کو اپنے بچے سرکاری سکولوں میں پڑھانے پر پابند کیا جائے اور پرویز مشرف نے اس سے اتفاق بھی کیا تھا لیکن اس کے بعد یہ قانون بہرحال نہیں بن سکا: ''اب بھی حکومت اگر تعلیم کے لیے سنجیدہ ہے تو ایسا کچھ کرنا پڑے گا تا کہ فیصلہ ساز اس نظام پر توجہ دینے پر مجبر ہوں۔
‘‘ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر حقیقی اصلاحات نہ کی گئیں تو نہ صرف اسکول بلکہ یونیورسٹیاں اور کالج بھی زوال کا شکار رہیں گے۔ تعلیم پر بجٹ کئی برسوں سے منجمد ہے، اور ملک ''نان - نالج اکانومی‘‘ کے راستے پر گامزن ہے۔
کچھ حلقوں میں یہ تاثر بھی پایا جاتا ہے کہ ایلیٹ نجی اسکولوں کے مالکان پالیسی سازی پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت خود ہی تعلیم کے لیے سنجیدہ نہیں، اور یہی لاپروائی پورے نظام کو برباد کر رہی ہے۔