اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اکتوبر 2025ء) بھارت نے 2023 کے بعد سے چار لاکھ بچوں کی شادیاں روک کر ایک اہم سنگ میل عبور کر لیا ہے۔ یہ بچوں کی شادی کی روک تھام کے قانون کے نفاذ کے بعد سب سے زیادہ تعداد ہے۔ تین سالوں میں بچوں کی شادیاں 69 فیصد کم ہو گئی ہیں۔
یہ انکشاف 'جسٹس رائٹس فار چلڈرن‘ (جے آر سی) کی جانب سے جاری ایک رپورٹ میں کیا گیا ہے، جس کا اجراء اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پروگرام کے دوران ہوا۔
’’ٹِپنگ پوائنٹ ٹو زیرو: ایویڈنس ٹوورڈز اے چائلڈ میرج فری انڈیا‘‘ کے عنوان سے اس رپورٹ کے مطابق بھارت میں لڑکیوں کی کم عمری کی شادیوں میں انہتر فیصد اور لڑکوں میں بیاسی فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بھارت میں ایک سماجی انقلاب برپا ہو چکا ہے۔
(جاری ہے)
اسے جے آر سی کے تحقیقی شعبے 'سی لیب‘ نے تیار کیا، جو بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے ’انڈیا چائلڈ پروٹیکشن‘ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔
جے آر سی بھارت کا سب سے بڑا نیٹ ورک ہے جو ۲۵۰ سے زائد شہری سماجی تنظیموں پر مشتمل ہے۔سال 2023 میں، اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے کہا تھا کہ بچوں کی شادیوں کو روکنے کی جو فی الوقت رفتار ہے اس سے یہ برائی ختم ہونے میں 300 سال لگ جائیں گے۔ دنیا کی ایک تہائی بچوں کی شادیاں بھارت میں ہوتی ہیں۔
بھارت کی متعدد میڈیا اداروں نے اس رپورٹ کے اقتباسات شائع کیے ہیں۔
اس کے مطابق سال 2023-24 میں تقریباً 73,501 بچوں کی شادیاں سول سوسائٹی، پنچایتوں، اور قانونی اقدامات کے ذریعے روکی گئیں۔ ان میں سے تقریباً 59,364 شادیاں پنچایتوں کی مدد سے اور تقریباً 14,137 شادیاں قانونی کارروائی کے ذریعے روکی گئیں۔رپورٹ میں کیا ہے؟
نیشنل کمیشن فار پروٹیکشن آف چلڈ رائٹس کی رپورٹ کے مطابق، بھارت کی 27 ریاستوں اور 7 یونین ٹیریٹریز میں 11.5 لاکھ سے زائد بچے ایسے ہیں جو بچوں کی شادی کے شدید خطرے میں ہیں۔
ان میں اتر پردیش سب سے آگے ہے۔بھارت میں جرائم کے اعداد و شمار رکھنے والے حکومتی ادارے یشنل کرائم ریکارڈز بیورو کے ڈیٹا کے مطابق، 2022 میں"پروبہیشن آف چلڈ میرج ایکٹ" کے تحت 3,563 بچوں کی شادی کے مقدمات عدالتوں میں درج ہوئے، مگر صرف 181 مقدمات میں قانونی کارروائی مکمل ہوئی۔
جے آر سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آسام لڑکیوں کی شادیوں میں 84 فیصد کمی کے ساتھ سب سے آگے ہے، اس کے بعد مہاراشٹر اور بہار (70 فیصد ہر ایک)، راجستھان (66 فیصد) اور کرناٹک (55 فیصد) ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گرفتاریوں اور ایف آئی آرز نے بچوں کی شادی کے خلاف سب سے زیادہ اثر ڈالا، اور اس نمایاں کمی کو گزشتہ تین سالوں میں بھارتی حکومت، ریاستی حکومتوں، اور سول سوسائٹی تنظیموں کے مربوط اقدامات کا نتیجہ قرار دیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا، یہ نتائج ملک میں ایک شاندار تبدیلی کی نشاندہی کرتے ہیں۔ حال ہی میں 2019–21 میں ہر منٹ تین بچے شادی کے بندھن میں بندھ رہے تھے، مگر ایک دن میں صرف تین مقدمات رپورٹ ہوئے۔
آج، بچوں کی شادی کے قوانین کے بارے میں آگاہی تقریباً ہر جگہ ہے، اور اس تبدیلی کے بارے میں چند سال پہلے سوچنا بھی مشکل تھا۔‘‘یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ 63 فیصد افراد اب بچوں کی شادی کی رپورٹ کرنے میں "بہت مطمئن‘‘ ہیں، جبکہ مزید 33 فیصد کہتے ہیں کہ وہ ’’کچھ حد تک مطمئن‘‘ ہیں۔
تعلیم میں بھی بہتری
تعلیم کے لحاظ سے، رپورٹ میں بتایا گیا کہ 31 فیصد گاؤں میں 6-18 سال کی عمر کی تمام لڑکیاں اسکول جاتی ہیں، لیکن بہار میں یہ شرح 9 فیصد اور مہاراشٹر میں 51فیصد رہی، جو بہت بڑا فرق ہے۔
تعلیم میں رکاوٹوں کے طور پر غربت (88 فیصد)، بنیادی ڈھانچے کی کمی (47 فیصد)، حفاظت (42 فیصد)، اور نقل و حمل کی کمی ( 24 فیصد) بتائی گئی۔ بچوں کی شادی کے وجوہات میں غربت (91 فیصد)، نابالغ لڑکیوں کی حفاظت (44 فیصد)، اور روایات و رواج شامل ہیں۔یہ رپورٹ پانچ ریاستوں کے 757 گاؤں کے فیلڈ ڈیٹا پر مبنی ہے، جو بھارت کے مختلف سماجی اور ثقافتی حالات کی نمائندگی کے لیے زون وائز منتخب کیے گئے، اور ملٹی اسٹیج اسٹریٹیفائیڈ رینڈم سیمپلنگ اپنائی گئی۔
’جسٹ رائٹس فار چلڈرن‘ کے بانی بھون رِبھُو نے رپورٹ کے اجراء کے موقع پر کہا، ’’بھارت بچوں کی شادی ختم کرنے کے دہانے پر ہے، یہ صرف ایک پائیدار ترقیاتی ہدف کے حصول سے آگے جا کر دنیا کو یہ ثابت کرنے کے مترادف ہے کہ اس کا خاتمہ ممکن اور ناگزیر ہے۔‘‘
(بحوالہ: جے آر سی رپورٹ)
ادارت: صلاح الدین زین