اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 05 اکتوبر 2025ء) تاریخ ہمیشہ سے قومی مفادات کے تحت لکھی جاتی رہی ہے۔ اس تاریخ میں انہی واقعات کا ذکر ہوتا ہے جن کا تعلق ان کے منصوبوں اور خواہشات سے ہوتا ہے۔ افریقہ کی تاریخ جب یورپی سیاحوں، عیسائی مشنریز اور تاجروں کے نقطہ نظر سے لکھی گئی تو اس کا مقصد یورپی کلونیل ازم کو مواد فراہم کرنا تھا۔
اس میں افریقیوں کو تہذیبی طور پر کمتر اور ذہنی طور پر پسماندہ بتایا گیا ہے۔ ایک ایسی قوم جس کی نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ کوئی کلچر۔ اس نقطہ نظر کی مخالفت کرتے ہوئے Martin Bernal نے "Black Athena" لکھی جو 1987 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ افریقی تہذیب کی ابتداء ایتھوپیا سے شروع کرتا ہے۔ جو ایک بڑی ایمپائر تھی۔ یہاں سے یہ مصر گئی۔ مصر سے یہ جزیرہ کرییٹ تک پہنچی وہاں سے یونانیوں نے اسے اختیار کیا۔(جاری ہے)
افریقی تہذیب کا مرکز ایتھوپیا تھا جس میں "Eritrea" اور Mali شامل تھے۔ مصر کے ایک بڑے حصے میں افریقی آباد تھے۔
زیرین مصر کا صدر مقام "Thebes" تھا۔ جس پر افریقیوں کی حکومت تھی۔ مصر پر سوڈان کے صوبے NUBIA نے حملہ کر کے اس پر قبضہ کر لیا تھا اور اس خاندان کے فرعون افریقی تھے۔ اور مصنف کے مطابق اہرام مصر کی تعمیر میں بھی ان کا بڑا کردار تھا۔ افریقہ میں اس وقت ایک بڑی تبدیلی آئی جب مغربی افریقہ میں سہارا کے مقام پر آب و ہوا تبدیل ہوئی۔ اس سے پہلے یہ علاقہ بھی انتہا سرسبز اور نہروں کی وجہ سے خوبصورت علاقہ تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ آب و ہوا نے سہارا کو ریگستان میں تبدیل کر دیا۔ جس کی وجہ سے یہاں کے رہائشی منتقل ہو کر افریقہ کے مختلف حصوں میں آباد ہو گئے۔ یہ آبادیاں قبائلی بنیادوں پر تھی جہاں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں۔ اس لیے افریقہ کی تہذیب میں یکجہتی نہیں رہی۔ قبائل کی باہمی جنگوں نے بھی قومی اتحاد کو پیدا نہیں ہونے دیا۔ قبائل میں سرداروں کی حکومت رہی اور جو چھوٹی ریاستیں تھیں ان کے حکمراں بھی سیاسی طور پر طاقتور تھے۔مصنف افریقی تہذیب کی تباہی میں غیر ملکی حملوں کا ذکر کرتا ہے جن میں موثر حملہ آور عرب تھے۔ جن علاقوں پر ان کا قبضہ ہوا وہاں انہوں نے عربی زبان کو نافذ کیا جس کی وجہ سے مقامی زبانوں کا خاتمہ ہوا۔ دوسرے عربوں کی وجہ سے افریقہ میں اسلام پھیلا جس کی وجہ سے عرب اور افریقی مسلمان ایک ہو گئے۔ عربوں نے مدرسے قائم کیے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی۔
ان کا تعلیمی معیار بے انتہا معیاری تھا۔مالی کے شہر ٹمبکٹو(Timbuktu) میں نادر کتابوں کا کتب خانہ تھا۔ مالی میں سونے کے ذخائر بھی تھے جس کی وجہ سے معاشی طور پر یہ ایک خوشحال ملک تھا۔ جب اس کا حکمراں حج پر جاتا تھا تو مکہ مدینے میں قیمتی عطیات دیتا تھا۔
مصنف کے نقطہ نظر سے افریقہ میں عربوں کی موجودگی اور ان کے کلچر کا فروغ اور ان کے مذہب نے افریقی تہذیب کی تباہی میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری تباہی اس وقت آئی جب عیسائی مشنریز یہاں آئے۔ انہوں نے نہ صرف لوگوں کا مذہب بدلہ بلکہ یورپی زبانوں کی تعلیم کے ذریعے مقامی زبانوں اور انکے رسم و رواج کو ختم کیا۔ عیسائی ہونے والے فرقے خود کو دوسروں سے اعلیٰ سمجھتے تھے اور اپنی ہی تہذیب کو حقارت سے دیکھتے تھے۔ افریقی تہذیب پر تیسری تباہی اس وقت آئی جب یورپی تاجر افریقہ کے ساحلی علاقوں میں آئے اور یہاں سے انہوں نے عربوں، قبائلی سرداروں اور ریاستی حکمرانوں کی مدد سے غلامی کا کاروبار شروع کیا۔ یہ غلام یا تو جنگی قیدی ہوتے تھے یا انہیں اغواء کر کے لایا جاتا تھا اور انہیں یورپیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جاتا تھا۔ قبائلی سرداروں اور حکمرانوں کے لیے یہ ایک نفع بخش کاروبار تھا۔ یورپی تاجر ان غلاموں کو لے کر انگلینڈ، لاطینی امریکہ، شمالی امریکہ اور کیریبین جزائر میں فروخت کرتے تھے۔ جب بڑی تعداد میں افریقہ سے غلاموں کو لے جایا گیا تو اس کی آبادی میں کمی آئی۔ افراد اپنے خاندان سے جدا ہو گئے اور نہ ان کی اپنی زبان رہی اور نہ اپنی کوئی شناخت۔ غیر ملکوں میں جا کر وہ اجنبی ہو گئے۔ اپنی جلد کی رنگت کی وجہ سے سفید فام لوگوں نے انہیں تہذیب سے گرا ہوا، حقیر اور کمتر سمجھا۔ سفید فام ملکوں میں وہ اپنی تہذیب سے محروم ہو کر اچھوت ہو گئے۔ تباہی کی چوتھی شکل اس وقت سامنے آئی جب یورپی اقوام نے یہاں اپنی کالونیز بنائیں اور مغربی تہذیب کو ان پر مسلط کیا۔ مصنف اپنی کتاب کے آخر میں افسوس کا اظہار کرتا ہے کہ افریقی تہذیب کو اس طرح تباہ کیا گیا ہے کہ اس کے نشانات بھی باقی نہیں رہے ہیں۔ افریقی اپنی زبان اور کلچر پر فخر کرنے کی بجائے خود کو یورپی بنا کر ان کی نقل کرتے ہیں۔ اب افریقی اپنی زبان، تہذیب اور شناخت سے محروم ہو کر کبھی عرب بننے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی یورپی کلچر کو اپناتے ہیں۔ افریقہ کی تہذیب تباہی کے بعد کی صورتحال میں دوبارہ سے کبھی اپنی اصلی شکل کے ساتھ تشکیل نہیں ہو پائے گی۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
ادارت: کشور مصطفیٰ