میری بیٹی مہرین راحیل جیسی ماڈل و اداکارہ ابھی تک نہیں آئی، سیمی راحیل

ماضی میں اداکار ایک دوسرے کو سکھاتے تھے اور نئے لوگ بھی سینئرز سے سیکھنے کے عمل کو اچھا سمجھتے تھے

منگل 14 اکتوبر 2025 10:35

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 اکتوبر2025ء) سینئر اداکارہ سیمی راحیل نے اپنی بیٹی سابق ماڈل و اداکارہ مہرین راحیل کی تعریفیں کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے خیال میں ان کی بیٹی جیسی اداکارہ اور ماڈل پاکستانی شوبز انڈسٹری میں تاحال کوئی نہیں آئی۔سیمی راحیل نے حال ہی میں سما ٹی وی کے مارننگ شو میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر گفتگو کی۔

پروگرام کے دوران بات کرتے ہوئے انہوں نے ماضی اور حال کی شوبز انڈسٹری میں فرق پر بھی بات کی اور کہا کہ ماضی میں لوگ شوبز کو پیسے کمانے کا ذریعہ نہیں سمجھتے تھے۔ان کے مطابق ماضی میں ہر اداکار کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ سب سے اچھا کام کرے لیکن اس اداکار کا کسی سے مقابلہ نہیں ہوتا تھا۔اداکارہ کا کہنا تھا کہ ماضی میں اداکار ایک دوسرے کو سکھاتے تھے اور نئے لوگ بھی سینئرز سے سیکھنے کے عمل کو اچھا سمجھتے تھے۔

(جاری ہے)

سیمی راحیل نے اعتراف کیا کہ انہیں معروف اداکار سہیل احمد اور عابد علی نے بہت کچھ سکھایا، انہوں نے ان سے ہی ڈائلاگ ڈیلیوری سیکھی۔انہوں نے بتایا کہ پاکستان ٹیلی وژن(پی ٹی وی)کے ڈراموں میں ایک سے بڑھ کر ایک اداکار کو کاسٹ کیا جاتا تھا، کوئی کسی سے غیر محفوظ نہیں ہوتا تھا، کسی کا کسی سے مقابلہ نہیں ہوتا تھا، ہر کوئی اچھا کام کرنے کی کوشش کرتا تھا۔

ان کے مطابق ماضی میں ہدایت کار کے لیے شرط ہوتی تھی کہ وہ انہوں نے کم سے کم ایم اے تک تعلیم حاصل کر رکھی ہے جب کہ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کا بھی اتنا ہی تعلیم یافتہ ہونا لازمی ہوتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہوتا۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ انہوں نے اپنی بیٹی مہرین راحیل اور دانیال راحیل کو ہمیشہ سپورٹ کیا، انہوں نے انہیں شوبز میں کام کرنے کے لیے سپورٹ کیا۔

سیمی راحیل کا کہنا تھا کہ بطور والدہ وہ اپنے بچوں پر زیادہ بات نہیں کر سکیں گی، کیوں کہ اگر وہ ان پر بات کریں گی تو وہ یک طرفہ ہو سکتی ہے لیکن وہ جانتی ہیں کہ ان کے بچوں میں کتنا ٹیلنٹ تھا اور ہے۔ان کے مطابق ان کے بیٹے دانیال راحیل نے زیادہ تر فلموں میں کام کیا اور پھر ان کا رجحان لکھنے کی طرف ہے، ان کے مضامین عالمی جریدوں میں شائع ہوتے ہیں اور وہ انہیں بھی اپنے مضامین پڑھنے کے لیے بھیجتے ہیں۔