Kanjoos Ki Billi - Article No. 964

کنجوس کی بلی - تحریر نمبر 964
بلی کے دونوں بچے بھوکے تھے اور میاؤں ، میاؤں کرکے ماں کو بہت پریشان کر رہے تھے ۔ بلی خود بھی بہت بھوکی تھی ۔ وہ جس گھر میں رہتی تھی، اس گھر کی مالکن اور مالک بہت کفایت شعار تھے ۔
بدھ 19 اکتوبر 2016
بلی کے دونوں بچے بھوکے تھے اور میاؤں ، میاؤں کرکے ماں کو بہت پریشان کر رہے تھے ۔ بلی خود بھی بہت بھوکی تھی ۔ وہ جس گھر میں رہتی تھی، اس گھر کی مالکن اور مالک بہت کفایت شعار تھے ۔ حد سے زیادہ کفایت شعار یعنی کنجوس ، مکھی چوس تھے۔ وہ بلی کو کھانے کو کچھ بھی نہیں دیتے تھے ۔ بلی بے چاری پڑوس کے گھروں میں جاکر چوری کرکے لاتی یاکوڑے دان سے بچا کھچا پھینکاہواکھانا لاکر پیٹ بھرتی اور بچوں کو کھلاتی تھی ۔
بلی کے بچے ابھی بہت چھوٹے تھے ۔ وہ بچوں کے بڑے ہونے کاانتظار کررہی تھی، تاکہ وہ ان کولے کر کہیں دوسری جگہ چلی جائے، جہاں اس کو کھانے کے لیے مل جایاکرے۔
بلی جس گھر میں رہتی تھی اس گھروالوں کے بارے میں مشہورتھا کہ وہ مثالی کنجوس ہیں۔
(جاری ہے)
ان کے گھر کوئی مہمان بھی نہیں آتا تھا۔ شیخ سعدی نے کسی حکایت میں لکھا ہے کہ بعض لوگ ایسے کنجوس ہوتے ہیں کہ وہ بھوکے کوکھانا کھلانا تو درکنارپانی بھی نہیں پلاتے۔
اگر ان کے گھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی بھوکی بلی آجائے تو وہ اس کو دوبونددودھ بھی نہ دیں اور اگر اصحاب کہف کابھوکا کتا بھی ان کے دروازے پر بھوکا آجائے تو وہ اس کو روٹی کا یک نوالہ بھی نہ ڈالیں۔ اسی لیے قارون دولت مند ہونے کے باوجود اپنی کنجوس کے لیے قیامت تک بدنامی کے ساتھ یاکیاجائے گا، جب کہ حاتم طائی اپنی سخاوت کے لیے یاد کیاجائے گا۔علامہ اقبال کا یہ شعر اس قسم کے لوگوں پرصادق آتا ہے کہ
گوپروازہے دونوں کی ایک فضا پر
کرگس کاجہاں اور ہے، شاہین کاجہاں اور
بھوکی بلی نے بھوکے بچوں کو تسلی دی اور کہا کہ ذرا صبر کروصبح ہوگئی ہے۔ اللہ میاں سب کو رزق دیتا ہے، ہم کو بھی ضرور دے گا۔
ایک بچے نے کہا: اماں ، اماں ! میں گوشت کھاؤں گا ۔
دوسرے نے بھی کہاں: ہاں میں بھی آج گوشت کھاؤں گا ۔
بلی نے کہا: میں جاتی ہوں دیکھتی ہوں کہ گھر میں کیاپک رہاہے ۔ بلی مکان کی چھت پر بنی کوٹھری سے نکلی اور بچوں کو ہدایت کی کہ وہ باہر نہ نکلیں اور نہ شور مچائیں۔ اگر مالکن کو پتاچل گیا تو وہ تم کو پکڑ کردور پھنکوا دیں گے ۔ بچے سہم گئے اور چپ چاپ کونے میں دُبک گئے ۔
صبح کے نوبجے تھے، سردی کازمانہ تھا۔ سورج نکل آیاتھا ، لیکن مالکن لحاف اوڑھے بستر میں پڑی تھی ۔ اس کا شوہر گوشت اور ترکاری لے کر واپس آگیا تھا۔ اس کاخیال تھا کہ اس کی بیوی نے اٹھ کر اب تک ناشتہ تیارکرلیا ہوگا۔ بیوی کو بستر میں پڑا دیکھ کر وہ آگ بگولہ ہوگیا ۔ اس نے غصے سے کہا: تم اب تک بستر پر پڑی ہو، مجھے لگ لگی ہے، ناشتہ کون بنائے گا۔
میرے سر میں بہت درد ہورہا ہے، میں روز ناشتہ بناتی ہوں، آج تم خود بنالو۔بیوی نے لحاف میں سے جواب دیا۔
اور میں یہ گوشت اور لوکی لایاہوں ، یہ بھی پکالوں گا ۔
میرا سر درد سے پھٹا جارہا ہے، میں اٹھ نہیں سکتی اور تم کو گوشت لوکی کی فکر ہے۔ پھینک دو گوشت کو۔ ہوٹل سے کھانالے کا کھالینا۔ میری فکر مت کرنا۔ بیوی نے چِلا کر کہا۔
شوہر کاپیٹ خالی تھا، وہ بھوکا تھا۔ بھوک میں انسان کادماغ گرم ہوجاتا ہے۔ شوہر نے تھیلے سے گوشت کی تھیلی نکال کرغصے میں آنگن میں پھینک دی اور گھر سے باہر نکل گیا۔
بلی یہ سب دیکھ اور سن رہی تھی ، وہ گوشت کی تھیلی منھ میں دباکر بھاگ نکلی۔ ماں اور بچوں نے بہت دن بعد گوشت کھایا اور اللہ میاں کاشکر ادا کیااور دعا کی کہ مالکن اور مالک یونہی لڑتے رہیں ۔
Browse More Moral Stories

عادت یا فطرت (آخری حصہ)
Adat Ya Fitrat - Akhri Hissa

تبد یلی
Tabdeeli

عظیم قائد کی اصول پسندی
Azeem Quaid Ki Asool Pasandi

کر درگزر۔۔تحریر:طیبہ ثناء
Kar Darguzar

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا
Doobte Ko Tinke Ka Sahara

اسکول میں پہلا دن
School Ka Pehla Din
Urdu Jokes
ایک چھوٹی لڑکی
aik choti larki
ایک صاحب
Aik sahib
بے وقوف انسان
Bewakoof Insan
بیٹا ماں سے
Beta maa se
کان کٹا
Kaan Kata
چائے پارٹی
chay party
Urdu Paheliyan
شوں شوں کرتی نار اک نکلی
sho sho karti naar ek nikli
روشنی یا اندھیرا لاتا ہے
roshni ya andhera lata hy
یا وہ آتا ہے یا وہ جاتا ہے
ya wo aata hai ya wo jata hai
دیکھی اک نازک سے بیٹی
dekha ek nazuk si beti
تن کی لمبی سر کی چھوٹی
tun ki lambi sar ki choti
گرجی ہو کر لال بھبوکا
garji ho kar lal bhaboka