سپریم کورٹ ،ْپی کے ایل آئی کا انتظام سنبھالنے کیلئے سمری پر 2 ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم

جمعہ 14 دسمبر 2018 19:26

سپریم کورٹ ،ْپی کے ایل آئی کا انتظام سنبھالنے کیلئے سمری پر 2 ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 14 دسمبر2018ء) سپریم کورٹ آف پاکستان نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ (پی کے ایل آئی) کا انتظام سنبھالنے کیلئے قانون سازی کی سمری پر صوبائی کابینہ کو 2 ہفتے میں فیصلہ کرنے کا حکم دیتے ہوئے پی کے ایل آئی انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور اس کے علاوہ ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضا مندی لینے کی ہدایت کی ہے ۔

جمعہ کو چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹی ٹیوٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 22 ارب روپے خرچ کردئیے، ساری رقم ایک ٹرسٹ کو دے دی گئی، 2 مرتبہ ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ یہ قانون تبدیل کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ ٹرسٹ کو رہنا چاہیے یا نہیں۔

(جاری ہے)

اس موقع پر چیف جسٹس نے پی کے ایل آئی کے انچارج ڈاکٹر سعید اختر سے مکالمہ کیا کہ 3 سال سے آپ 20 لاکھ تنخواہ لے رہے ہیں جس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں نے پی کے ایل آئی سے کوئی تنخواہ نہیں لی ،ْہم نے گردوں کی 21 پیوندکاریاں کی ہیں جبکہ کینسر کے علاج بھی کیے گئے ہیں۔

اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بنیادی طور پر یہ جگر کی پیوندکاری تھی، گردوں کے آپریشن تو دوسری جگہ بھی ہورے ہیں، یہاں آپریشن تھیٹر فعال نہیں۔چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید اختر سے کہا کہ آپ شہباز شریف کے بڑے قریب تھے ،ْاگر آپ کہیں، تو آپ کو بتادوں گا کہ کیسے آپ شہباز شریف سے ملے تھے، ہمیں یہ سمجھائیں کہ پی کے ایل آئی کے لیے ٹرسٹ کی ضرورت کیا ہے، ٹرسٹ تو ایک خاص تعلق کی وجہ سے سابق وزیر اعلی نے بنایا تھا، کیا ٹرسٹ نے کبھی اپنا مالی حصہ ڈالا ہی اس پر بورڈ رکن نے جواب دیا کہ ٹرسٹ نے 16 کروڑ 50 لاکھ روپے فنڈز کا حصہ ڈالا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جون میں جگر کی ایک پیوندکاری بھی نہیں ہوسکی، جتنے پیسے پی کے ایل آئی پر خرچ کیے گئے اتنے پیسوں میں تو 5 ہسپتال بن جاتے، یہ کیس براہ راست نیب یا اینٹی کرپشن کو دینا چاہیے۔

دوران سماعت چیف جسٹس نے پنجاب حکومت پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پنجاب کی جانب سے کوئی کام نہیں ہورہا، ہم ایک کام کہتے ہیں، صوبائی حکومت سے وہ بھی نہیں ہوتا، صوبائی حکومت سست روی کا شکار ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب میں صحت عامہ کے سارے کام رکے ہوئے ہیں، ابھی تک ہیلتھ کیئر بورڈ ہی نہیں بنا، بات کرو تو سرخیاں لگ جاتی ہیں۔اس موقع پر عدالت نے پی کے ایل آئی کا کنٹرول سنبھالنے کیلئے قانون سازی کی سمری پر صوبائی کابینہ کو 2 ہفتے میں فیصلہ کرنے، انتظامی کمیٹی میں سرجن جنرل آف پاکستان کو بھی شامل کرنے اور ایک ہفتے میں پاک فوج اور سرجن جنرل کی رضامندی لینے کا حکم دیدیا۔بعد ازاں عدالت نے مذکورہ کیس کی سماعت 2 ہفتوں کے لیے ملتوی کر دی۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں