پارلیمان مضبوط ہو تو معاملات وہاں پر حل کیا سکتا ہے ‘لیکن سیاستدان ایسے معاملات کو عدالتوں میں لاکر خود پارلیمان کو کمزور کرنے کی کاوشوں میں حصہ ڈال رہے ہیں.سپریم کورٹ

اگر اڈریننس کے ذریعے ہی قانون سازی کرنی ہے تو بہتر ہے کہ پارلیمنٹ کو بند کردیں ‘تمام سوالات کے جواب درخواست گزار عمران خان سے لیں گے.جسٹس قاضی فیض عیسی اور جسٹس اطہر من اللہ کے ریمارکس

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعرات 16 مئی 2024 16:23

پارلیمان مضبوط ہو تو معاملات وہاں پر حل کیا سکتا ہے ‘لیکن سیاستدان ایسے معاملات کو عدالتوں میں لاکر خود پارلیمان کو کمزور کرنے کی کاوشوں میں حصہ ڈال رہے ہیں.سپریم کورٹ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔16مئی۔2024 ) سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے نیب ترامیم سے متعلق انٹر کورٹ اپیلوں کی سماعت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پارلیمان مضبوط ہو تو اس طرح کے معاملات وہیں پر حل کیے جاسکتے ہیں لیکن سیاستدان ایسے معاملات کو عدالتوں میں لاکر خود پارلیمان کو کمزور کرنے کی کاوشوں میں حصہ ڈال رہے ہیں.

(جاری ہے)

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے انٹرکورٹ اپیلوں کی سماعت کی وفاقی حکومت سمیت دیگر فریقین نے یہ انٹرکورٹ اپلیں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف دائر کی ہیں جس میں سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے دائر کی گئی اپیل کو منظور کرتے ہوئے نیب ارڈیننس میں کی جانے والی ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا سپریم کورٹ کا عمران خان کی درخواست کے حق میں یہ فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے آیا تھا.

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے انٹر کورٹ اپیل کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب آرڈیننس میں ترامیم پارلیمان میں متنازع ہوا جسے پارلیمنٹ میں ہی حل کیا جانا چاہیے تھا انہوں نے کہا کہ درخواست گزار یعنی عمران خان جب وزیر اعظم تھے وہ اس آرڈیننس میں ترامیم کرسکتے تھے لیکن انہوں نے اس ضمن میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے اس قانون کو چلاتے رہے.

انہوں نے کہا کہ پارلیمان میں ہونے والی اس قانون سازی کو ایک سازش کے تحت سپریم کورٹ میں لایا گیا انہوں نے کہا کہ درخواست گزار نے ایک مرتبہ بھی اس قانون میں ترمیم کرنے کی کوشش بھی نہیں کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں سنجیدہ ہی نہیں تھے. چیف جسٹس نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اگر اڈریننس کے ذریعے ہی قانون سازی کرنی ہے تو بہتر ہے کہ پارلیمنٹ کو بند کردیں مخدوم علی خان کا کہنا تھا کہ جب یہ بل پارلیمان سے منظور ہوا تھا تو اس وقت درخواست گزار کی جماعت یعنی پاکستان تحریک انصاف کے پارلیمان میں 182 ارکان موجود تھے لیکن انہوں نے اس معاملے میں کی جانے والی قانون سازی میں حصہ نہیں لیا انہوں نے کہا کہ جب پی ٹی آئی نے اس معاملے میں کی جانے والی قانون سازی میں حصہ ہی نہیں لیا تو اس جماعت کا بانی کیسے اس قانون سازی کو چیلنج کرسکتا ہے جس پر جسٹس قاضی فیض عیسی کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں تمام سوالات کے جواب درخواست گزار یعنی عمران خان سے لیں گے عدالت نے ان انٹرکورٹ اپیلوں کی سماعت غیر معینہ مدتتک کے لیے ملتوی کردی.

قبل ازیںسابق وزیراعظم عمران خان کو سپریم کورٹ میں نیب ترمیمی بل کیس کی کارروائی کے دوران بذریعہ ویڈیو لنک پیش کر دیا گیا ہے نیب ترامیم کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کے دوران عمران خان اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئے. تحریک انصاف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس“ پر ایک تصویر بھی شیئر کی ہے جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو دیکھا جا سکتا ہے اس کیس کی گذشتہ سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے حکومت کو احکامات جاری کیے تھے کہ وہ آئندہ سماعت کے دوران تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کو اس کیس کی کارروائی میں شامل ہونے اور اپنے دلائل دینے کے لیے درکار ضروری انتظامات کریں.

سپریم کورٹ نے یہ ہدایت بھی جاری کی تھی کہ عمران خان کی بذریعہ ویڈیو لنک پیشی کے انتظامات کو یقینی بنایا جائے یاد رہے کہ نیب کے قانون میں 27 ترامیم سے متعلق ایک بِل گذشتہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے مئی 2022 میں منظور کیا گیا تھا تاہم صدر عارف علوی نے اس بِل پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا جس کے بعد پی ڈی ایم کی حکومت نے جون 2022 قومی اسمبلی اور سینیٹ کا مشترکہ اجلاس بلا کر اس مسودہ قانون کی منظوری حاصل کر لی تھی.

اس قانون سازی کے تحت بہت سے معاملات کو نیب کے دائرہ اختیار سے نکال دیا گیا تھا اور یہ بھی کہا گیا تھا کہ ان ترامیم کو قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے آغاز سے نافذ العمل سمجھا جائے گا سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب کے قوانین میں ان ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا اور اپنی درخواست میں وفاق اور نیب کو فریق بنایا تھا اور اس میں کہا گیا تھا کہ نیب کے قانون کے سیکشن 2،4،5، 6،25، 26 14،15، 21، 23 میں کی جانے والی ترامیم آئین پاکستان کے آرٹیکل 9، 14، 19اے 24, 25 کے برعکس ہیں تحریک انصاف اور دیگر درخواست گزاروں کی استدعا پر سپریم کورٹ نے ان ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا اس فیصلے کے خلاف وفاق اور صوبائی حکومتوں نے انٹرا کورٹ اپیلیں فائل کر رکھی ہیں.

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں