محبِ وطن پاکستانیوں سے حکمرانوں کی الرجی بڑھتی جا رہی ہے

اگرجج صاحبان کی اہلیت میں دوہری شہریت ہونا شامل نہیں تو پریس کانفرنس کرنے والے پارلیمنٹیرین قانون سازی کریں ، قانون سازی کرنا عدلیہ کا کام تو نہیں۔ سابق وفاقی وزیر فواد چودھری کا ٹویٹ

Sanaullah Nagra ثنااللہ ناگرہ جمعرات 16 مئی 2024 19:47

محبِ وطن پاکستانیوں سے حکمرانوں کی الرجی بڑھتی جا رہی ہے
اسلام آباد ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 16 مئی 2024ء) سابق وزیر فواد چودھری نے کہا ہے کہ محب وطن پاکستانیوں سے حکمرانوں کی الرجی بڑھتی جا رہی ہے، دہری شہریت پر قانون سازی کرنا عدلیہ کا کام تو نہیں۔ انہوں نے ایکس اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اگر جج صاحبان کی اھلیت میں دوہری شہریت ہونا شامل نہیں ہے تو پریس کانفرنس کرنے والے پارلیمنٹیرین قانون سازی کریں ، قانون سازی کرنا عدلیہ کا کام تو نہیں۔

ExPat پاکستانیوں سے حکمرانوں کی الرجی بڑھتی جا رہی ہے۔ فواد چودھری نے ایک اور ٹویٹ میں کہا کہ پاکستان کی قومی اسمبلی میں عدلیہ کے خلاف مہم پر کوئی بات ہوئی، عمران خان کے ساتھ Discrimination پر کوئی بات ہوئی اور نہ Missing persons پر۔ سوال یہ ہے کیا پارلیمان مریخ پر کام کر رہی ہے؟ دوسری جانب سابق وفاقی وزیر سینیٹر فیصل واوڈا نے ایکس پر اپنے ردعمل میں کہا کہ ہائیکورٹ کے جواب مجھے ملنے سے پہلے میڈیا کو مل گیا۔

(جاری ہے)

بہرحال یہ ثابت ہوگیا کہ جسٹس بابر ستار کیطرف سے اپنے گرین کارڈ ہولڈر ہونے کا معاملہ رپورٹ کرنے کا کوئی ثبوت اسلام آباد ہائیکورٹ کے پاس موجود نہیں(جبکہ پریس ریلیز میں لکھا تھا کہ جج صاحب نے یہ معاملہ اس وقت کے چیف جسٹس کو رپورٹ کیا تھا "Reported")۔ یاد رہے کہ میں نے جج بننے کی اہلیت پر تو سوال اٹھایا ہی نہیں تھا۔ میں نے تو اسلام آباد ہائیکورٹ کی پریس ریلیز میں درج حقائق کی حقانیت پر سوال پوچھا تھا۔

کیا چیف جسٹس اس بات پر انکوائری کریں گے کہ رجسٹرار ہائیکورٹ نے انصاف کے آئینی ادارے کی پریس ریلیز میں ایسی بات کیوں لکھی جس کا نہ انہیں علم ہے اور نہ ان کے پاس ثبوت؟ انہوں نے بغیر ثبوت یہ بات کسی کے کہنے یا کس کی مداخلت پر لکھی؟ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اس بات کا سورس سپریم کورٹ کے ایک جج کے عدالتی کارروائی کے دوران ریمارکس ہیں، کیا کوئی وکیل یا "آئینی ماہر صحافی" بتائے گا کہ جج کے ریمارکس کی کوئی آئینی، قانونی یا evidentiary value ہوتی ہے۔

مکرر عرض ہے مسئلہ truthful ہونے کا ہے جج کی عہدے کی ابتدائی اہلیت کا نہیں۔ دوسری جانب اسلام آباد ہائیکورٹ کے رجسٹرار آفس نے سینیٹر فیصل واوڈا کے خط کا جواب دے دیا۔ رجسٹرار آفس کی جانب سے جاری جواب میں کہا گیا ہے کہ آئین پاکستان میں جج بننے کے لیے کسی اور ملک کی شہریت یا رہائش رکھنا نااہلیت نہیں ہے، کسی بھی وکیل سے ہائیکورٹ کا جج بنتے وقت اس سے دہری شہریت کی معلومات نہیں مانگی جاتیں جب کہ ہائیکورٹ کی پریس ریلیز میں وضاحت کی گئی تھی کہ جسٹس بابر ستار نے اس وقت کے چیف جسٹس کو بتایا تھا کہ وہ گرین کارڈ رکھتے ہیں۔

جواب میں رجسٹرار آفس کا کہنا ہے کہ جسٹس اطہر من اللہ نے 6 ججز کے خط پر از خود نوٹس کیس کی کارروائی میں اس بات کو واضح کیا، جسٹس اطہر من اللہ نے بتایا کہ جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل میں ڈسکس ہوا، سپریم جوڈیشل کونسل نے ڈسکشن کے بعد جسٹس بابر ستار کو بطور جج مقرر کرنے کی منظوری دی، یہ عدالت جوڈیشل کمیشن میں ہونے والی ڈسکشن کا ریکارڈ نہیں رکھتی۔ یاد رہے کہ سینیٹر فیصل واوڈا نے جسٹس بابر ستار کی جانب سے تعیناتی سے قبل گرین کارڈ ہولڈر ہونے کی انفارمیشن فراہم کرنے کا ریکارڈ مانگا تھا۔

اسلام آباد میں شائع ہونے والی مزید خبریں