ای ایف پی کا اسٹیٹ بینک سے حکومتی قرض لینے پر آئی ایم ایف کے فیصلے کوخیرمقدم

فنانسنگ کے لیے کمرشل بینکوں پر حکومت کا بھاری انحصار نجی شعبے کو قرض دینے کو محدود کرتاہے، صدرایمپلائرز فیڈریشن

منگل 30 نومبر 2021 23:58

کراچی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 30 نومبر2021ء) ایمپلائر فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے حکومت کی اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے قرض لینے کے لیے دروازہ کھلا رکھنے کی درخواست کو مسترد کرنے کے فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا ہے کہ مرکزی بینک سے قرض لینے کی حکمت عملی سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہو گا۔

ای ایف پی کے صدراسماعیل ستار نے ایک بیان میں کہاکہ حقیقی معنوں میں مرکزی بینک کا مطلب معیشت میں کرنسی کی سپلائی کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے جو خاص طور پر کمرشل بینکوں کو قرض دینے کا آخری چارہ کار ہوتا ہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جب حکومت جتنا بڑا ادارہ مرکزی بینک سے قرض لینے کا سہارا لیتا ہے تو خود بینک کے پاس کوئی آپشن نہیں ہوتا لیکن زیادہ پیسہ چھاپنے سے افراط زر میں مزید اضافہ ہوتا ہے اور معیشت پر اس کے منفی اثرمرتب ہوتے ہیں۔

(جاری ہے)

اسماعیل ستار نے مزید کہا کہ مالی سال 2020 میں ریزرو بینکنگ سسٹم سے حکومت کے تازہ قرض لینے میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ اس کے علاوہ حکومت نے موجودہ قرضوں کو ختم کرنے کے لیے عملی کوششیں کی ہیں۔ فنانشل منیجرز اس سال اسٹیٹ بینک کے 1,164.7 ارب روپے کے موجودہ قرضے کو حل کرنے میں کامیاب رہے۔ حکومتی پالیسی میں اس تبدیلی نے آئی ایم ایف کو مرکزی بینک سے قرض لینے سے متعلق اپنی شرائط کو دوبارہ ترتیب دینے کے قابل بنایا۔

اس حساب سے حکومت کے گھریلو قرضوں میں شیڈول بینکوں کا حصہ بڑھ گیا۔ اس نظام کی واحد رکاوٹ یہ ہے کہ فنانسنگ کے لیے کمرشل بینکوں پر حکومت کا بھاری انحصار نجی شعبے کو قرض دینے کو محدود کرتاہے۔صدر ای ایف پی نے مزید کہا کہ ای ایف پی کا یہ ماننا ہے کہ حکومت کو فنڈز کی منتقلی عام طور پر نجی شعبے کے قرضے کو محدود کرتی ہے اور یہ ایک منفی عنصر ہے۔

مرکزی بینک سے قرضہ لینے کو ترک کرنے کا حکومتی اقدام عمومی طور پر معیشت کے لیے سازگار ہے لیکن یہ ضروری ہے کہ مالیاتی انتظامی نظام زیادہ مستحکم معیشت کے لیے ایک اصلاحی ڈھانچے کے قیام پر غور کرے۔اس میں تاجر برادری کے لیے فنڈز کا ایک خاص فیصد مقرر کرنا ہو سکتا ہے تاکہ ایک صحت مند سرمایہ کاری کے ماحول کو پروان چڑھایا جا سکے اور مزید ترقی دی جا سکے۔انہوں نے مزید کہاکہ ہمیشہ کی طرح اس سلسلے میں اہم اداروں پر غور اور تجزیہ پائیدار نظام کی تشکیل میں بہت ضروری ہو گا جس سے تاجر برادری کا اعتماد مزید بڑھے گا اور اس کے نتیجے میں صنعتی و کاروباری ترقی ہوگی۔

متعلقہ عنوان :

کراچی میں شائع ہونے والی مزید خبریں