ادریس بختیار پاکستانی صحافت کا ایک باوقار اور روشن باب تھے، صمصام بخاری

صحافیوں کے لئے ادریس بختیار کی زندگی رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے، صوبائی وزیرکا تعزیتی ریفرنس سے خطاب

بدھ 19 جون 2019 00:01

لاہور۔18 جون(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 18 جون2019ء) ادریس بختیار پاکستانی صحافت کا ایک باوقار کردار ایک روشن اور قابل فخر باب تھے۔ ان کی سب سے نمایاں خوبی ان کی کریڈیبلٹی تھی جس کے دوست دشمن سب قائل تھے۔ ان کے نزدیک غلط اطلاع صحافی کی موت اور غلط زبان صحافت کی موت تھی۔وہ کسی خوف کے بغیر تنقید کرتے مگر کسی کی پگڑی اچھالنے سے انکاری رہتے۔

ان کی پیشہ ورانہ دیانت اور اعتدال نے انہیں مخالفین میں بھی قابل قبول بنا دیا تھا۔ ان خیالات کا اظہار صوبائی وزیراطلاعات و ثقافت سید صمصام علی بخاری نے مولانا ظفر علی خان ٹرسٹ کے زیراہتمام سینئر اخبارنویس اور تجزیہ نگار ادریس بختیار مرحوم کی یاد میں منعقدہ تعزیتی ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ریفرنس میں جاوید ہاشمی، مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، پروفیسر مغیث الدین شیخ، شفیق جالندھری، ڈاکٹر محمد اسلم ڈوگر، عطاء الرحمن، رؤف طاہر اور دیگر سینئر مدیران و ممتاز تجزیہ و کالم نگاروں نے بھی ادریس بختیار مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا۔

(جاری ہے)

سید صمصام علی بخاری نے اپنے خطاب میں کہا کہ ادریس بختیار کی پیشہ ورانہ زندگی دیانت، جرات اور مہارت کا استعارہ رہی۔ وہ حلقہ یاراں میں ہمیشہ محترم اور مخالفین کے حلقے میں ہمیشہ معتبر جانے گئے۔وہ ایسے صحافی تھے جن کا نظریہ یہ تھا کہ اگر وہ خبر کی دوڑ میں پیچھے بھی رہ جائیں تو پھر بھی دروغ گوئی اور حقائق کے منافی خبر نہیں دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اہل صحافت کے قلم کی طاقت تلوار سے بھی زیادہ ہے۔

یہ وہ تلوار ہے جو ناسور کے علاج کے طور پر سرجری کیلئے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ادریس بختیار نے اپنے اخلاق و کردار سے صحافت کا وقار بلند کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم مسائل کو بڑھ چڑھ کر بیان کرنے میں یدطولیٰ رکھتے ہیں مگر ان کا حل پیش کرنے کے معاملے میں بالکل کورے ہیں۔ فروغ تعلیم کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جا سکتاہے۔

صوبائی وزیر نے کہا کہ حکمرانوں کی نیت نیک ہو تو ان سے غلطی کی صورت میں بھی اللہ تعالیٰ پردہ ڈال دیتا ہے مگر بدنیت اور کرپٹ حکمران ایک دن عوام کے سامنے ضرور ایکسپوز ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ صحافیوں کیلئے ادریس بختیار کی زندگی رول ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہم ان کے اہل خانہ اور خاندان سے ہر ممکن تعاون کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ادریس بختیار ایسے صحافی تھے جنہوں نے پیسے کو مطمع نظربنانے کی بجائے پیشہ ورانہ دیانت اور محنت کو اپنا شعار بنایا۔

اہل صحافت کیلئے ان کی حیثیت شجرسایہ دار اور شفقت اور محبت سے لبریز گوشہ عافیت کی سی تھی۔ ان کی وفات صحافت کے ایک متحرک کردار کا خاتمہ اور اس پیشہ کے ایک درخشندہ باب کے بند ہونے کا عنوان بھی ہے۔ان کی وفات سے پیدا ہونے والا خلاء تادیر پر نہیں ہو سکے گا۔

لاہور میں شائع ہونے والی مزید خبریں