طالبان حکومت کی تاریخ ساز’’دوحہ معاہدے‘‘ کی خلاف ورزیاں،خطے کا امن اور سلامتی دائو پر لگ گئے

بدھ 20 دسمبر 2023 20:46

کابل ،راولپنڈی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 20 دسمبر2023ء) طالبان حکومت کی تاریخ ساز’’دوحہ معاہدے‘‘ کی خلاف ورزیاں،خطے کا امن اور سلامتی دائو پر لگ گئے۔افغان سرزمین کا دہشتگردی کے لئے استعمال بند کرنا ہو یا غیر قانونی تارکین وطن کو روکنا، طالبان کی عبوری حکومت نے عالمی برادری سے کئے گئے ایک بھی وعدے کا پاس نہیں رکھا، اور تو اور طالبان کے نہ صرف القاعدہ بلکہ دیگر دہشتگرد تنظیموں سے بھی رابطے برقرار ہیں۔

افغانستان کی عبوری حکومت ’’دوحہ معاہدے‘‘ پر عملدرآمد میں ناکام ہو گئی،فروری 2020میں امریکہ اور طالبان نے باہمی رضا مندی سے دوحہ معاہدے پر دستخط کئے۔معاہدے کے مطابق قریقین نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلائ کی ٹائم لائن طے کی تھی۔

(جاری ہے)

معاہدے میں طالبان نے اپنے زیر تسلط علاقوں میں دہشتگردی کی روک تھام کی یقین دہانی کرائی اور افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کی حامی بھری تھی۔

دوحہ معاہدے میں طالبان سے اس بات کی ضمانت لی گئی تھی کہ؛’’افغانستان کی سر زمین کسی بھی گروہ یا ملک کے خلاف دہشتگردی کے لئے استعمال نہیں ہو گی‘‘۔ دوحہ معاہدے میں واضح کیا گیا تھا کہ’’افغان طالبان ایسے دہشتگرد گروپوں یا افراد کے ساتھ کسی بھی طرح کا تعاون نہیں کریں گیں جس میں بھرتی، تربیت یا فنڈ ریزنگ شامل ہو اور جو عالمی امن و سلامتی کے لئے خطرہ ہوں‘‘۔

طالبان کو پابند کیا گیا تھا طالبان ایسے لوگوں کو رہائش فراہم نہیں گے جو بین الاقوامی ہجرت کے قانون اور معاہدے کے مطابق افغانستان اور دیگر ممالک کی سیکیورٹی کے لئے خطرہ بنیں۔دوحہ معاہدے کے مطابق طالبان ان افراد کو ویزا، پاسپورٹ، سفری اجازت نامہ فراہم نہیں کریں گے جو عالمی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔دوحہ معاہدے میں طالبان حکومت نے کئے گئے ایک بھی وعدے کا پاس نہ رکھا۔

آج افغانستان میں دہشتگردوں کی پناہ گاہوں کی موجودگی عالمی امن کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا جا چکا ہے،حد تو یہ ہے کہ افغان حکومت نے القاعدہ اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع نہیں کیے۔آج بھی القاعدہ افغان طالبان حکومت کے ساتھ ’’قریبی اورعلامتی‘‘ تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے۔افغانستان میں پاکستانی طالبان کے رہنما طالبان حکومت کی سر پرستی میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

پاکستانی طالبان کو ماہانہ فلاحی ادائیگیاں کی گئیں اوراس کے کچھ حصے جنگجوؤں کو بھی فراہم کئے گئے۔افغانستان کی صورتحال تیزی سے پیچیدہ ہوتی جارہی ہے اور دہشتگردوں کے ہاتھ میں اسلحہ و گولہ بارود آنے کے خدشات اب عملی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ یو ایس سینٹکام کے سابق کمانڈر کے مطابق افغانستان سے امریکی افواج کے انخلائ کو تاریخی غلطی کے طور پر دیکھا جائیگا جس وجہ سے عسکریت پسندوں کو ایک بار پھر اس ملک میں قدم جمانے کا موقع میسر آگیا ہے۔

تاشقند کانفرنس کے شرکا بھی کہہ چکے ہیں کہ افغانستان میں موجوددہشتگرد علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے بدستور سنگین خطرہ ہیں،تحریک طالبان پاکستان افغانستان میں محفوظ پناہ لئے ہوئے ہے اور وہاں سے ہی پاکستان پر حملے بھی کئے جا رہے ہیں۔واشنگٹن پوسٹ کے مطابق افغانستان ایک بار پھر دہشتگردی کی آماجگاہ بن چکا ہے، سلامتی کونسل کے مطابق بھی القاعدہ اور تحریک طالبان پاکستان کو پاکستان کے اندر بڑھتے ہوئے حملے کرنے کے لیے رہنمائی فراہم کی جا رہی ہے۔

یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ امریکی انخلا ئ کے بعد افغانستان کی صورتحال کے باعث پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔حالیہ دہشتگردی کے واقعات کے تانے بانے اور شواہد افغانستان میں موجود دہشتگردوں کی پناہ گاہوں تک جاتے ہیں۔پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں افغان شہریوں کا ملوث ہونا علاقائی امن، استحکام اور عبوری افغان حکومت کے دوحہ امن معاہدے سے انحراف ہے۔

دوحہ معاہدے میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہو گی مگر ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ٹی ٹی پی کے دہشتگرد پاکستان میں بدامنی پھیلانے کیلئے افغانستان کی سرزمین استعمال کر رہے ہیں۔ ان باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت ’’دوحہ معاہدے‘‘ پر عملدرآمد میں ناکام ہو چکی ہے۔

راولپنڈی میں شائع ہونے والی مزید خبریں