Aarzu Thi Usay Panay Ki 1 - Article No. 936

Aarzu Thi Usay Panay Ki 1

آرزو تھی اُسے پانے کی ۔ حصہ اول - تحریر نمبر 936

کیا تکلیف ہے؟شرم تو تمھیں با لکل نہیں آتی کب سے کالز کر رہا ہوں۔مجال ہے جو تمھیں کوئی اثر ہو۔۔۔دفعہ ہو جاؤ۔وہ اسکے کال اٹھاتے ہی شروع ہو چکا تھا۔۔۔

پیر 17 اگست 2015

خدیجہ مغل
حصہ اول
کیا تکلیف ہے؟شرم تو تمھیں با لکل نہیں آتی کب سے کالز کر رہا ہوں۔مجال ہے جو تمھیں کوئی اثر ہو۔۔۔دفعہ ہو جاؤ۔وہ اسکے کال اٹھاتے ہی شروع ہو چکا تھا
ہاں! نہیں آتی شرم ۔پھر۔وہ بھی بولتی گئی جانتی تھی اب کچھ اور مزے کاہی سننے کو ملے گا۔
اچھا کیا کر رہی ہو؟اسکا موڈ خوشگوار لگ رہا تھا
میں نے کیا کرنا ہے؟صدا کی ویلی ہوں۔
تم نے کچھ کروانا ہے تو بتا دو
تجھے ایک ہی کام دینا ہے کرنے کو۔سمجھی۔وہ اب تنگ کرنے لگا تھا
نہیں۔۔۔وہ بولی
زیادہ باتیں نہ کر۔بتا کھانا کھا لیا ہے؟
نہیں بھوک نہیں ہے۔
ہیں۔۔تیری بھوک کو آجکل کیا ہوا ہے؟کہاں چلی گئی ہے؟وہ حیران ہوا
اب ایسی بات بھی نہیں جناب۔

(جاری ہے)

ابھی شام میں کھایا تھا
کل رات کو تو کدھر تھی؟وہ ایک بار پھر حساب کتاب کرنے لگا تھا
کیا ہو گیا ہے یار سو گئی تھی۔

۔۔پتہ نہیں لگا تھا کب آنکھ لگ گئی
کیوں نہیں تھا پتہ لگا۔۔۔تمھیں میرا خیال کبھی نہیں آتا کبھی تم نے مجھے کال نہیں کی کبھی مس نہیں کیا۔۔۔؟کیوں کیوں۔۔۔؟
کرتی ہوں نا۔۔۔
پتہ نہیں کب کرتی ہے؟مجھے تو آج تک پتہ نہیں چلا
اب موڈ تو نا بناؤ ۔مجھے نید آرہی ہے
دفعہ ہو جاؤ۔۔۔نید آرہی ہے ہر وقت سوئی رہتی ہے۔بات بھی نید میں ہی کر لیا کر۔
اسے غصہ آگیا
اچھا نہیں سوتی۔۔پیار سے بولی
نہیں ۔۔تو سو جا جان۔۔۔گڈ نائٹ۔صبح بات کروں گا۔تو نے تو کرنی نہیں۔
اتنی ناراضگی۔۔۔وہ حیران ہوئی
چپ۔۔۔گڈ نائٹ۔کہہ کر اس نے کال کاٹ دی جانتا تھا اسکے لیے نید بے حد ضروری ہے۔آخر اسکی صحت سے بڑھ کر کوئی چیز اسے اہم نہ تھی۔کروٹ بدل کر خود بھی سونے کی کوشش کرنے لگا۔
#۔۔۔۔۔#
مجھے اب تک کی زندگی میں کوئی ایک بھی عمل یاد نہیں جو میں نے صرف اسکے لیے کیا ہو،میں نے اب تک کی زندگی میں فقط گنتی کی چند نمازیں پڑھیں ہیں اور وہ چند ایک بھی صرف اسے اپنے لیے مانگنے کے لیے۔

میں نے اسکے سامنے سجدے میں بھی سر جھکا لیا تو بس اپنے فائدے کے لیے اور مجھے اپنی غلطی کا احساس تک نہ ہوا اور وہ دن بھی آن پہنچا جب وہ میرے پاس نہ رہی۔اور اب مجھے اسکے بِنا جینا نہایت مشکل لگ رہا تھا۔اگرچہ میں گھر بار والا تھا ۔بیوی تھی میری۔مگر وہ میرے دل میں تھی ہمیشہ رہے گی۔اسکی جگہ کوئی اور نہیں لے سکتا۔۔۔
وہ میری فرسٹ کزن ہونے کے ناطے میرے بہت قریب تھی ۔
ہم نبیرہ کو ہمیشہ خوش دیکھنا چاہتے تھے ۔وہ مجھ سے بہت پیار کرتی تھی۔یہ بات میں اچھی طرح سے جانتا تھا ۔لیکن پھر بھی میں اسکے پیار کے رنگ میں نہ رنگ سکا۔۔
وقت تیزی سے گزرتا گیا اور اسکی حالت بگڑتی چلی گئی ۔جسکا احساس کسی کو بھی نہ تھا
میں نہیں جانتا تھا کہ وہ مجھ سے اتنی شدت سے محبت کرتی ہے میں بھی پاگل ہو گیا تھا آخر کیا کمی تھی اسمیں پڑھی لکھی،خوبصورت تھی بس ایک ہی کمی تھی اسمیں اور وہ اسکی بڑی کمزوری تھی اسکی بیماری۔
۔۔میں اسی ایک وجہ سے پیچھے ہٹتا آرہا تھا ۔میں یہ بھول گیا تھا کہ جیسا دل میرا ہے ویسا ہی دل اسکا بھی ہے۔
جیسے وہ کسی کو چاہتی ہے اور میں بھی کسی کو اتنی ہی شدت سے چاہوں اور مجھے کوئی اچھا رسپانس نہ ملے تو کیا ہو ۔۔۔میں یہ بھول گیا تھا جیسے جذبات وہ رکھتی ہے ویسے جذبات میرے دل کے بھی ہو سکتے ہیں۔
جب مجھے جاب ملی تو اس نے مجھے کہا اب جلدی سے شادی کی تیاریاں پکڑیں آپکی دلہن تو کب سے تیار ہے۔
اس بات نے مجھے دھچکا سا دیا ،ساری رات میں سو نہ سکا ۔اتنے سال گزرجانے کے بعد بھی اسکے دل میں میں ہی تھا ۔میں نے اب عہد کر لیا تھا کہ میں ہوں تو بس نبیرہ کے لیے۔میرے دل میں اسکے لیے ہمدردی تھی یا پیار جاگ اٹھا تھا میں نہیں جانتا ۔۔اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ مجھے بے حد اچھی لگنے لگی تھی۔۔بہت اچھی۔۔۔
#۔۔۔۔۔۔#
ابھی میں نے اپنی آنکھوں میں جمع سارے اشک بھی نہ بہائے تھے،ابھی میرے سارے احساسات پر طاری ندامت کا بوجھ آدھا بھی نہ ہو اتھا اور ابھی پشیانی کو جائے نماز کو چھوئے کوئی زیادہ دیر نہ ہوئی تھی ۔
نہ ہی میرے لبوں نے جی بھر کر اقرارِ گناہ کیا تھا کہ اسکی رحمت مجھ پہ سایہ ہو گئی۔اس ذات نے مجھ پہ رحمت برسادی۔نبیرہ کی حالت اب پہلے سے کافی بہتر تھی ۔میرے گھر والے سب وہیں موجود تھے۔میں ایک نظر نبیرہ کو دیکھنے کے بعد وہاں سے دور ہٹ گیا ۔میں ان سب کے چہرے خوب پڑھ چکا تھا۔تبھی میں نے فیصلہ کیا کہ مجھے مما سے بات کر لینی چاہیے۔
اب مزید اور دکھ نہیں دے سکتا میں نبیرہ کو،نبیرہ سے دوری کا عالم سوچ کر ہی میرے سامنے اندھیرا سا چھا جاتا تھا۔
۔
اور آج میں نے مما کے سامنے اپنے پیار کو زبان دے ہی ڈالی۔اسے اتنا گھٹیا جواب ملے گامجھے۔میں نے کبھی سوچا نہیں تھا۔میں کھانا چھوڑ کر اپنے کمرے میں آگیا ۔۔کہیں سکون نہ مل رہا تھا ،میں بے چین سا تھا اور نبیرہ۔۔۔۔اسکی حالت کیسی ہو گی؟
میں سوچتا رہ گیا۔۔
صبح نماز ادا کرنے کے بعد میں نبیرہ کے گھر کی جانب بڑھ گیا ۔گھر پہنچ کر میں سید ھا نبیرہ کے کمرے میں آگیا ۔
وہ گہری نید سو رہی تھی۔آج پہلی مرتبہ وہ اسکے اتنے قریب آیا تھا ،اسکا دل پوری رفتار سے دھڑکنے لگا تھا،اسوقت وہ خود کو اسکی محبت کے جال میں دھنستا دیکھ رہا تھا ۔اسکے دل میں میٹھا میٹھا درد سا جاگا۔یہ پل صرف چند لمحوں پہ محیط تھا اتنی دیر میں خالہ ثمرہ کمرے میں آگئیں اور وہ قریبی صفے پہ بیٹھ گیا۔
کیسی طبیعت ہے اب نبیرہ کی۔۔۔؟
پہلے سے بہتر ہے۔
تمھیں یاد کررہی تھی۔اور تمھیں رات کے وقت بلانا مناسب نہ تھا میں نے اسے سلا دیا۔اچھا ہوا تم آگئے۔ناشتہ میں کیا لو گئے بیٹا۔۔
ارے نہیں خالہ ۔ناشتے کی ضرورت نہیں
اگر آ ہی گئے ہو تو ناشتہ کر کے جانا ۔میں ابھی لے کر آتی ہوں کہہ کر وہ کمرے سے جا چکی تھیں اور وہ اٹھ کر نبیرہ کے پاس آگیا
کتنی ہی دیر وہ اسے تکے گیا۔اسے پانے کی خواہش شدید تر ہوتی جارہی تھی ۔
اس نے نرمی سے اسکا گال تھپتھپایا ،وہ اسے ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتا تھا۔اسکے من کی پیاس تو نہ جانے کب بجھتی وپ اپنے آپکو روکے کمرے سے باہر آگیا ۔
#۔۔۔۔۔۔#
پپا آپ سمجھائیں نہ مما کو ۔۔۔ایسا مت کریں ،میں نہیں رہ سکتا نبیرہ کے بغیر
بیٹا کچھ رشتے ایسے ہوتے ہیں جنھیں ہم حاصل نہیں کرسکتے۔
کون سے رشتے؟؟وہ میری کزن ہے۔آپکا خون ہے۔
اس سے بڑھ کر اور رشتہ کیا ہوگاپپا؟میں آپکو بتا رہا ہوں مجھے نبیرہ سے ہی شادی کرنی ہے اور کسی سے نہیں اور اس سلسلے میں آپ میری مدد کریں یا نہیں ۔یہ آپکی مرضی ہے۔رہی بات اسکی بیماری کی تو اسے کچھ بھی نہیں ہے وہ با لکل ٹھیک ہے۔
تم یہ کیوں بھول رہے ہو کہ وہ ایک خطرناک بیماری میں مبتلا ہے۔
بس کر دیں مما حد ہوتی ہے۔وہ آپکی بہن کی بیٹی ہے۔
کچھ تو لحاظ کر لیں
آج کے زمانے میں ہر بیماری کا علاج ہے اور وہ بھی اپنا علاج کروا رہی ہے ۔یہ آپ اچھی طرح سے جانتی ہیں۔ارحم نے گویا بات ہی ختم کردی
میں تمھاری شادی ہر گز وہاں نہیں کروں گی۔سن لیا تم نے۔۔۔
تو آپ بھی سن لیں میں شادی بھی نہیں کروں گا،کہہ کر غصے سے کپ ٹیبل پہ پٹختے ہوئے وہ لان سے جا چکا تھا ۔
دیکھ لیا کیسے بدتمیزی کر گیا ہے ماں سے۔
انہوں نے آفندی صاحب سے گلہ کیا ۔بچہ ہے سمجھ جائے گا۔
میں آج ہی ارحم کے لیے کوئی اچھی لڑکی ڈھونڈتی ہوں۔ایک اکلوتی اولاد ہے ۔اسے بھی ہم اپنے سے دور کریں یہ کہاں کی بھلائی ہے؟
بھئی میں تو ان چکروں میں نہیں پڑتا۔تم خود ان معاملات کو ہینڈل کرو۔آفندی صاحب نے اخبار کا صفحہ بدلتے ہوئے کہا ۔۔
سارا دن آفس میں کام کرکے وہ بے حد تھک گیا تھا ،اسے نبیرہ کا خیال تھا ،اس نے صبح سے اس سے بات بھی نہیں کی تھی،اب وہ جلد ہی فارغ ہو کر اسکے پاس جانا چاہتا تھا۔
آفس سے نکلتے ہوئے بھی اسے شام ہو گئی تھی ۔اس نے گاڑی روڈ پہ ڈالتے اسے کال ملائی۔
کیسی ہو۔۔۔؟
زندہ ہوں۔روٹھی روٹھی آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی
ناراض ہو؟وہ جانتا تھا وہ خفا تو ضرور ہو گی
میں نے ناراض ہو کر کیا کرنا ہے۔آپ کام کررہے ہیں۔میں آپکو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی،بعد میں بات کریں گئے۔
وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ ناراض ہے ۔

سوری یار میں آج۔۔۔۔
سوری کیوں؟آپ نے کام اپنے فائدے کے لیے کیے ہیں،میں آپکو فائدہ نہیں دے سکتی تو آپ نے بات۔۔۔
نبیرہ کیا ہو گیا ہے؟اس نے اسکی بات کاٹی۔ایسی باتیں نہیں کرتے۔تم تیار ہو جاؤ میں بس ابھی آرہا ہوں
آپ۔۔۔آپ آرہے ہیں؟اسے گویا یقین ہی نہ آیا
جی۔۔۔میں آرہا ہوں وہ بھی بس پانچ منٹ میں
اچھا۔۔۔جتنی دیر میں دلہن تیار ہوتی ہے میں نے بھی اتنی دیر لگانی ہے تیار ہونے میں۔
۔۔وہ مسکراتے ہوئے بو ل رہی تھی اور وہ خوش ہو رہا تھا
اوکے۔۔۔
تو آپ ویٹ کرو۔بائے۔وہ دس منٹ میں گھر پہنچ چکا تھا۔نبیرہ اپنے کمرے میں تیار ہو رہی تھی
وہ خالہ کے پاس بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔
کہیں واقعی دلہن تو نہیں بن رہی۔اس نے دل ہی دل میں سوچا
ایک تو اس لڑکی کے فیشن نہیں ختم ہوتے۔۔۔میں نے کہا بھی تھا کہ جلدی تیار ہو جانا۔
اب دیکھ لو اتنی دیر لگا دی۔میں دیکھتی ہوں۔وہ اٹھتے ہوئے بولیں
آرہی ہوں مما۔۔۔نبیرہ کی آواز آئی تو انہیں سکون ملا
بیٹا دھیان سے جانا۔۔آجکل کے حالات با لکل بھی ٹھیک نہیں۔
خالہ آپ پریشان مت ہوں۔ہم جلدی واپس آجائیں گئے۔اتنی دیر میں نبیرہ بھی سیڑھیاں اترتی ان کے پاس آچکی تھی۔
وہ اسے یوں ہی یک ٹک دیکھے گیا ۔آج وہ نہایت خوبصورت لگ رہی تھی۔

لگ رہی ہوں نا دلہن۔۔مسکراتے ہوئے بولی تو ارحم نے اثبات میں سر ہلایا
ماشاالله۔۔میری بچی نظر نہ لگ جائے انہوں نے نبیرہ کو سینے سے لگا لیا۔۔۔
گاڑی میں بیٹھتے ہوئے وہ نروٹھے پن سے بولی۔آپ نے اتنا لیٹ کردیا ۔میں نہیں بولتی آپ سے۔
اوہ سوری مائی ڈئیر۔۔۔آئندہ خیال رکھوں گا۔لیکن آج کے لیے معافی چاہتا ہوں۔اس نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تو دونوں مسکرا اٹھے ۔
اسی ہنسی مذاق میں رات ڈھلتی رہی اور دونوں کھا نا کھا کر اب واپس گھر کو لوٹ رہے تھے ۔
ارحم کے ہاتھ میں نبیرہ کا نازک ہاتھ تھا دونوں خود کو کسی اور دنیا میں محسوس کر رہے تھے۔
نبیرہ۔۔۔اس نے ہولے سے اسے پکارا
ہوں۔۔۔
تم خوش ہو نا میرے ساتھ؟وہ جانتا تھا وہ خوش ہے مگر پھر بھی اسکی خوشی کے لیے یہ سب پوچھنا ضروری تھا
میں بہت خوش ہوں۔۔اتنی کہ آپ بس سوچ سکتے ہیں وہ مسکراتے ہوئے بولی۔
اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ قسمت نے ابھی بھی اسکے حصے کی کچھ خوشیاں اور مسکراہٹیں سنبھال کر رکھی ہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles