Ajzi Ka Takabbur - Article No. 1431

Ajzi Ka Takabbur

عاجزی کا تکبر - تحریر نمبر 1431

میں نے ایک گڑھا کھودا اور اس سلگتے سوال کو بھی دفن کر دیا جو میرے آگہی کے آتش دان میں بے گوروکفن پڑا تھا۔ شاید جواب کا پل صراط پار ہو چکا تھا

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی جمعہ 11 اگست 2017

اُس کی آنکھوں کی غاریں ماضی کے بنجر پہاڑ پر جم گئیں جس کے گرد افلاس اور محرومیوں کے تپتے صحرا کے علاوہ کچھ بھی نہ تھا۔ شاید میرے سوال نے اس کی اُداسیوں کی تمازت میں اور اضافہ کر دیا تھا۔ وہ میری طرف متوجہ ہوا اور بولا: گونگے بہرے اُستادوں سے جب کوئی بچہ تختی لکھنا سیکھے گا تو وہ پہلا لفظ دکھ اور دوسرا سناٹا لکھے گا مگر تم ان باتوں کو نہیں سمجھ سکتے اس لیے کہ تم سونے کا چمچ لے کر پیدا ہوئے ہو، ایسے بچوں کا المیہ یہ ہوتا ہے کہ اُن کے ماں باپ اپنی اولاد پر دولت کا کفن ڈال کر اُن سے یہ امید کرتے ہیں کہ وہ مردہ لوگوں پر زندہ شعر کہیں، قحط سے اُجڑی بستیوں کو نخلستان لکھیں، یاد رکھو دولت کا کفن بچوں کے اندر صحرا جیسی دہشت اور جنگل جیسا خوف پیدا کر دیتا ہے۔

میں جو کہ ہمیشہ ایک انجانی سی انہونی کے ڈر سے سہما رہتا ہوں جھنجھلا گیا، یار تم بھی عجیب آدمی ہو فدا خان، میں تم سے سوال کیا کرتا ہوں اورتم جواب کیا دیتے ہوں، میں نے تو تم سے یہی پوچھا ہے کہ تمہاری گلابی آنکھیں اور سرخ ہونٹ شکوے شکایت اور جھوٹ سے آشنا کیوں نہیں، تم عام لوگوں سے اتنے مختلف کیوں ہو؟ وہ مسکرایا اور بولا: مجھے سرخ ہونٹوں سے سفید جھوٹ بولنا اچھا نہیں لگتا، دیکھو عدنان طارق! گونگا اگر بولنا سیکھ جائے گا تو بہرہ خود بخود ہی سننا سیکھ جائے، ہوا کے پاؤں باندھو گے تو مقدر میں حبس اور گھٹن کے سوا کیا ملے گا۔

(جاری ہے)

میں اب بھی کچھ نہیں سمجھا یار! دیکھو عدنان میرے جواب غلط نہیں ہوتے پوری قوم کی طرح تمہارے سوالوں کی اور سوچ کی ترتیب غلط ہو گئی ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہے جیسے کوئی مرید پہلے ہی دن اپنے مرشد سے یہ سوال کر دے کہ روحِ عصر سے کیا مراد ہے یا اللہ تعالیٰ کے اسماء ظاہر و باطن کو فلسفہ ہمہ اوست اور ہمہ ما اوست کی روشنی میں واضح کر دیجیے، ترتیب کے غلط ہونے کی وجہ سے ہی ہم بحیثیت قوم Confusion کا شکار ہیں، ہم منصورحلاج کی طرح وہ کتاب پہلے پڑھنا چاہتے ہیں جو کتاب سب سے آخر میں پڑھنی چاہیے۔
مثلاً؟؟ دیکھو عدنان، قوم یہ سمجھتی ہے کہ اگر حکمران ٹھیک ہو جائیں تو ملک کی کایا پلٹ جائے گی اور ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو کر خوشحال اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا مگر ایسا نہیں ہوا کرتا۔ پہلے فرد خود اپنی اصلاح کرے گا۔ Self Development اور Self Groomingکرے گا تو معاشرہ بدلے گا۔ Society کے بدلنے سے حکمران بھی اپنا رویہ بدلیں گے، اپنی اصلاح کر کے خود کو Improve کریں گے۔
یاد رکھو حکمرانوں کو سیدھا ہمیشہ اُن کی عوام رکھتی ہے، اس کی مثال امریکہ اور یورپی ممالک ہیں۔ ڈاکوؤں کا سردار کبھی درویش یا ولی نہیں صرف ڈاکو ہی ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسری ترتیب یہ غلط ہوئی کہ ہمیں یہ یقین دلا دیا گیا کہ ملک سے پہلے کرپشن، رشوت، چور بازاری، جہالت، بدعنوانی، غربت ، اقربا پروری، ناانصافی اور دہشت گردی ختم ہوگی تو ملک ترقی کرے گا، یہ بھی سچ ہے مگر ترتیب یہ ہو گی کہ پہلے قوم کے اندر جذبہ حب الوطنی بیدار کیا جائے۔
غلامی کے جہنم اور آزادی کی نعمت کے متعلق عوامی شعور بیدار کیا جائے اور ان کو باور کروایا جائے کہ عالمی سطح پر بھی جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات ہی ہوا کرتی ہے۔ Nationalism ہو گا تو ہر فرد وطن کو اپنا گھر سمجھے گا اور اس گھر سے محبت کی وجہ سے نہ کوئی بدعنوانی کرے گا اور نہ ہی اقربا پروری، رشوت، ناانصافی، دہشت گردی اور جہالت وغیرہ جیسے جرائم کا شکار ہوگا، ملک کو own کرنے والا کے نقصان کا سوچ بھی نہیں سکتا اور نہ ہی ذاتی مفاد کو قومی مفاد پر ترجیح دے کر غداری جیسی لعنت کا شکار ہوگا۔
اسی طرح ہماری ایک اور ترتیب غلط کر دی گئی کہ ہمیں بتایا گیا کہ پہلے عبادت، ذکر، نماز، روزہ، حج زکوٰة جیسے نیک کام کرو گے تو جنت ملے گی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر صرف رب کا تعارف کروا دیا جائے کہ ہمارا رب کتنا مہربان اور رحیم و غفور ہے جو ستر ماؤں سے بھی زیادہ پیار کرنے والا، جو رحم مادر میں بھی بن مانگے رزق عطا کرتا ہے جو رحمت العالمین جیسی عظیم ہستی کا بھی خالق ہے، جو کسی پر اس کی برداشت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی اوقات اور ظرف سے زیادہ سکھ ضرور دیتا ہے، جو مانگنے والے کو دے کر خوش ہوتا ہے، جو توبہ کرنے والے کی توبہ کو بخوشی قبول کرکے آسمان پہ جشن کرتا ہے۔
جس کا تعارف رحمان ہے۔ رب کے تعارف سے اس عظمتوں والے اور اس کائنات کو پالنے والے رب سے ہمیں محبت ہو جائے گی اور صالح اعمال کی توفیق خود بخود عطا ہو جائے گی۔ تم شہر چھوڑ کر گاؤں واپس جانا کیوں چاہتے ہو حالانکہ شہر تو ایک عرصے کے بعد انسان کے اندر بسنا شروع ہو جاتے ہیں۔ میں نے اُداسی سے فداخان سے سوال کیا۔ تم صحیح کہتے ہو عدنان مگر شہروں کی آبادی ایک حد سے بڑھ جائے تو وہاں بلائیں اترنا شروع ہو جاتی ہیں۔
اب روز میرے شہر میں بلائیں اترتی ہیں اور خون میں لت پت لاشیں چھوڑ جاتی ہیں۔ باپ اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کے لیے اُن کی کتابیں خریدنے گھر سے نکلتا ہے مگر جہالت کی اندھی گولی علم کے چراغ کو بے نور کر دیتی ہے۔ میرے یار میرا مقدر شیشے کا ہے اب میں مزید اس پتھر کے شہر میں نہیں رہ سکتا۔ ویسے بھی پرندے جو ہمارے اُستاد مقرر کیے گئے ہیں وہ اب شہروں سے ہجرت کرنے لگ گئے ہیں۔
بارود کے شہر سے پرندے اور برکت دونوں ہجرت کر جایا کرتے ہیں، ویسے بھی شہر اب فطرت سے دور ہو کر مصنوعی زندگی کی علامت بن گئے ہیں، کاغذ کے پھول لاکھ خوبصورت سہی مگر نزاکت اور خوشبو جیسی نعمت سے محروم رہتے ہیں، پرندے اب پستی کی طرف نہیں آنے بلکہ بلندی پر اُڑتے ہیں۔ گناہ گاروں کی بستی میں پرندے بھی اپنا گھونسلا نہیں بناتے، یاد رکھو عدنان حکمرانی کا شوق اور نفرتیں حد سے بڑھ جائیں تو روشنیوں کے شہر جنازوں کے شہر میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں۔
فداخان اپنے گاؤں واپس چلا گیا اور میں یاد کے جلتے صحرا میں تنہائی کا بوجھ لئے خاک اور بارود کے اندھیرے میں وقت کے قافلے کے ساتھ سر جھکائے چلتا رہا۔ فدا خان مجھ کو مجھ سے چھین کر لے گیا تھا اور میں اکیلا بیٹا ماضی کی کھوئی ان تصویروں کو دیکھ کر روتا رہتا جن میں ہم اکٹھے پڑھے، لکھے اکٹھے کھیلے اور اکٹھے ہنسے اور روئے تھے، فدا خان مصنوعی زندگی سے فطری زندگی کی طرف لوٹ گیا تھا۔
اس دور کا المیہ یہ ہے کہ یہ دنیا اب فائبر آپٹک کیبل کی قید میں ہے، وہ فائبر آپٹک کی زنجیر توڑ گیا تھا۔ ماضی کی برف پگھلنے لگی، دور کسی آبشار کے گرنے کی دھن بج رہی تھی، سال نو کے کہرے میں لپٹے سر سبز پہاڑ اپنی زندہ آنکھوں میں مردہ خواب لیے کسی روشن تعبیر کے سورج کے طلوع ہونے کے منتظر تھے مگر میری آگہی کے آتشن دان میں اب بھی ایک سلگتا ہوا سوال بے گورو کفن پڑا ہے۔
دُنیا مجھے ایک نیک اور مذہبی آدمی کے طور پر جانتی ہے۔ ماں باپ کی وفات کے بعد میں کافی عرصہ Depression میں رہا، والدین کی بے تحاشا دولت کا میں واحد وارث تھا پھر میں نے مذہب کی طرف رجوع کیا تو مجھے بہت سکون ملا۔ صوم و صلاة کا پابند، ہاتھ میں تسبیح، لمبی داڑھی، سفید کپڑوں میں ملبوس میں جب بھی بازار سے گزرتا ہوں لوگ دور ہی سے مجھے سلام کرنے عقیدت سے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
میری ایک رفاعی تنظیم بھی ہے، میرا نام ایک بڑی سماجی اور مخیر شخصیت کے طورپر پہنچانا جاتا ہے اخبارات اور ٹی وی پر میری سخاوت کے چرچے ہوتے رہتے ہیں۔ بعض دوست مجھے ایدھی جونیئر کے لقب سے بھی پکارتے تھے۔ محلے میں بڑے بوڑھے آپس میں باتیں کرتے کہ اتنی دولت کے باوجود بھی اس کی شخصیت میں کتنی عاجزی ہے۔ مگر وہ سلگتا ہوا سوال مجھے اب بھی پریشان کرتا ہے کہ اگر یہ سب کچھ ٹھیک ہے تو اندر سے گواہی کیوں نہیں ملتی۔
دل کا شیشہ گدلا کیوں ہے، وہ کون سا خلا، کون سی کمی ہے جس کا مجھے ادراک نہیں۔ فداخان کے پاس نہ دولت تھی اور نہ وہ بظاہر مذہبی آدمی تھا مگر وہ ایک مطمئن شخص تھا، وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑی بڑی خوشیاں تراش لیا کرتا تھا، اس کی ایک عادت تھی کہ وہ اپنی ہی کہی بات پر ہنسی سے بے حال ہو جایا کرتا تھا، اس کی زندگی کی ریل گاڑی صرف دو ہی اسٹیشنوں پر رکتی تھی اُن میں ایک اسٹیشن کا نام صبر اور دوسرے کا شکر تھا، وہ کہتا تھا صبر دراصل شکر ہی کا دوسرا نام ہے۔
کتنا عجیب تھا میں عمر بھر اس سے بے انتہا محبت بھی کرتا رہا مگر اس کی زندگی سے جیلس بھی رہا، میں بیک وقت اُس کا حلیف بھی تھا اور رقیب بھی۔ ساحل سمندر پر سیر کرتے ہوئے میں نے اسے کہا فداخان میں تو ایک عاجز سا بندہ ہوں، ایک دنیا میری عاجزی کی قدر دان ہے اس لیے کہ میں نے اپنے اندر سے انا اور ”میں“ کو نکال کر باہر پھینک دیا ہے۔ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: عدنان طارق نہ تو تم خود سے بیزار ہوئے ہو اور نہ تم اپنے اندر سے ’میں‘ کو نکال سکے ہو، Deslef ہونا یہ راستہ آسان نہیں۔
یہ کانٹوں بھرا ملامت کا راستہ ہے، تم صرف اور صرف خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار ہو، اس کا ثبوت یہ ہے کہ تمہارے گھر میں آئینہ موجود ہے۔ کہنے لگا ہمیشہ یاد رکھنا سر کی پگڑی یا تاج بننے کے لیے پہلے Foot mat بننا پڑتا ہے۔ پھر وہ خاموش ہو گیا، کافی دیر چپ رہنے کے بعد بولا: عدنان اگر تم کسی بھولے بھٹکے مسافر کی کہانی لکھنا چاہتے ہو تو اماوس کی تاریکی میں سرِ راہ چراغ ضرور رکھنا۔
مجھے اب بھی یاد ہے عید کی ایک اُداس شام کو میں نے فداخان سے پوچھا یار تمہاری زندگی میں Change کیسے آیا۔ تمہارا رب کے ساتھ تعلق کیسے مضبوط ہوا۔ ایک مذہبی آدمی ہونے کے باوجود مجھے ایسے تعلق کی توفیق کیوں نہ مل سکی۔ وہ مسکرایا! جس دن مجھے پتہ چلا کہ میں رب کا ہم نشین ہوں۔ ہم نشین؟؟ میں سمجھا نہیں۔ وہ بولا: جس دن میں بابا عرفان الحق کے پاس گیا تو انہوں نے بڑی عجیب بات کی، کہنے لگے یارفداخان ہم کتنے خوش نصیب لوگ ہیں جو رب کے ہم نشیں ہیں۔
میں نے حیرت سے بابا جی کی طرف دیکھا۔ بابا جی مسکرائے اور فرمایا: جھلیا کملی والے کے دل میں یا تو رب رہتا تھا یا اُس کی اُمت، اس حساب سے تو ہم رب کے ہم نشیں ہوئے ناں۔ یار عدنان جب مجھے اس اعزاز کا علم ہوا تو میں تشکر سے مہینوں روتا رہا۔ ہم نشیں سے محبت ہونا فطری سی بات ہے ناں! وقت کا قافلہ چلتا رہا، میں خواہش کے باوجود صحرا میں لگے اُس برگد کی طرح نہ بن سکا جو نہ صرف بھولے بھٹکے مسافروں کو راستہ دکھاتا ہے بلکہ اُن کو دھوپ، بارش اور طوفانوں سے بھی محفوظ رکھتا ہے، میں اُگے اس شیشم کے پیڑ کی طرح بے آبرو ہی رہا جس کی چھاؤں میں نہ کوئی فقیر بیٹھا نہ کوئی جھولا پڑا اور نہ کسی پنچھی نے گھونسلا بنایا۔
جب ہجر کی سیاہ ناگن راتیں مجھے ڈسنے لگیں تو مجھے وصل کے تریاق کی اہمیت کا اندازہ ہوا، جب دل بہت اُداس ہوا تو میں فداخان سے ملنے اس کے گاؤں چلا آیا، فداخان اپنے سرسبز کھیتوں پر کاشتکاری کر رہا تھا۔ شہر کی مصنوعی زندگی سے چھٹکارہ پانے اور فائبر آپٹک کی قید سے آزادی کے بعد اس کے چہرے پر رونق اور تازگی میں اور اضافہ ہو گیا تھا۔ وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بے حد خوش تھا، اُس کی پہلی اور آخری محبت، جو اب اس کی شریک سفر تھی، وہ بھی گاؤں میں بہت خوش تھی۔
دونوں اتنے خوبصورت، خوب سیرت اور خوش شکل تھے کہ میں نے دونوں کی موجودگی میں آئینے کو حالت سجود میں دیکھا تھا۔ مجھے اچانک سامنے دیکھ کر وہ بچوں کی طرح خوش ہو گیا۔ میں گاؤں میں ایک ہفتہ رہا، ہم نے خوب باتیں کیں، دوستوں اور ان کی باتوں کو خوب یاد کیا، میں نے اس سے بہت سے سوال کیے، اس نے ہرسوال کا جواب دیا، مجھے نہیں معلوم اسے ہر سوال کا جواب کیسے آتا تھا۔
نہ جانے اُسے اتنا علم کیسے عطا ہوا تھا، میں نے کہیں سنا تھا جب رب بندے سے راضی ہوتا ہے تو اسے علم کا تحفہ عطا کرتا ہے۔ جب اُس نے شہر کے حالات پوچھے تو میں خاموش ہو گیا۔ فداخان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، کہنے لگا عدنان مجھے لگتا ہے تیرے شہر کی اکثریت دنیا دار ہو گئی ہے، سنو دنیا ایک مردار ہے اور ازل سے ہی مُردار ہمیشہ کم ہوتا ہے اور اس کو کھانے والے کتے ہمیشہ زیادہ رہے ہیں اسی لیے تو لڑائی ہوتی ہے۔
مجھے اچانک کراچی واپس آنا پڑا۔ وہ مجھے چھوڑنے پیدل ہی اسٹیشن تک آیا۔ مجھے رخصت کرتے ہوئے وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رونے لگا۔ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے وہ بولا میری بات غور سے سنو عدنان، نہ جانے کب اجل کی ٹرین آجائے۔ تمہارے سوال پوچھنے کی ترتیب ہمیشہ غلط رہی، آج میں تمہارے آخری سوال کا جواب دیتا ہوں جو تم نے مجھ سے سب سے پہلے پوچھا تھا۔
جواب تلخ ضرور ہے مگر تشنگی سے بہتر ہے۔ سنو میرے یار! رب نے آج تک کبھی رحم کی اپیل رد نہیں کی بشرطیکہ یہ سچے دل سے کی گئی ہو، رب نے انسانوں کو دنیا میں بھیجنے سے پہلے جنت میں رکھا اُسے یہ سمجھانے کے لیے کہ دنیا کو جنت کی طرح خوبصورت بنانا ہے مگر دل میں صرف اور صرف جنت بنانے والے کو رکھنا ہے، اختیار اسباب کو کرنا ہے مگر بھروسہ صرف مسب الاسباب پر کرنا ہے۔
لوگ Depression میں جا کر مذہبی ہو جاتے ہیں مگر میں سمجھتا ہوں دین سے یہ مجبوری والا تعلق انسان کوزیب نہیں دیتا۔ اعمال تو مخلوق کی طرح ہوتے ہیں اور مخلوق پہ بھروسا ایک طرح کا شرک ہے، دنیا اور آخرت کی کامیابی صرف اللہ کے فضل سے مشروط ہے۔ نیکی اور تکبر میں بال برابر فرق ہوتا ہے، وہ بڑا بدقسمت ہے جو خود کو نیک سمجھنے لگے، نیک سمجھنے سے توبہ کی توفیق چھن جائے گی، جس سے توبہ کی توفیق چھن گئی اس سے شرف انسانیت چھن گیا، جس ذکر، عبادت اور نیکی میں اخلاص نہ ہو اس ذکر، عبادت اور نیکی سے تکبر پیدا ہوتا ہے جسے عاجزی کا تکبر کہتے ہیں۔
یہ سب تکبروں سے برا تکبر ہے۔ میں نے آسمان کی طرف دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا، میں نے پہلی دفعہ آسمان کو اتنا حیران اور پریشان دیکھا تھا، نہ جانے زمین نے اس سے کیا سوال کر دیا تھا۔ پھر اچانک ایک انتہائی خوشگوار خوشبو ہمارے ارد گرد پھیل گئی، دور ریل کی کوک سنائی دے رہی تھی۔ فداخان کا ہاتھ اس کے سینے پر تھا، اس کی آنکھیں بند ہو رہی تھیں، مجھے وہ اس بچے کی طرح لگا جس کی ماں اسے گود میں لٹائے لوری سناتے ہوئے اس کے بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کر رہی ہو اور اس کی پلکوں پر نیند کی پریاں اُتر رہی ہوں، میں نے لپک کر فداخان کو اپنی بانہوں میں سمیٹ لیا۔
فداخان زندگی کو مقروض کر کے میری بانہوں میں ابدی نیند سو گیا۔ فداخان کی قبر کے ساتھ ہی میں نے ایک گڑھا کھودا اور اس سلگتے سوال کو بھی دفن کر دیا جو میرے آگہی کے آتش دان میں بے گوروکفن پڑا تھا۔ شاید جواب کا پل صراط پار ہو چکا تھا۔ دعا مانگ کر جب میں واپس لوٹ رہا تھا تو میری ہر چاپ سے ایک ہی آواز آ رہی تھی عاجزی کا تکبر… عاجزی کا تکبر… عاجزی کا……

Browse More Urdu Literature Articles