Anokha Milan - Article No. 2480

Anokha Milan

انوکھا ملن - تحریر نمبر 2480

وہ روز کی طرح آج بھی اس کا انتظار کر رہا تھا آج وہ کافی لیٹ ہو گئی تھی پر وہ اپنے آپ میں مگن کالج جارہی تھی اس کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ کوئی اس کا انتظار کرتا ہے

مومل منور جمعرات 7 جنوری 2021

وہ روز کی طرح آج بھی اس کا انتظار کر رہا تھا آج وہ کافی لیٹ ہو گئی تھی پر وہ اپنے آپ میں مگن کالج جارہی تھی اس کو تو پتا ہی نہیں تھا کہ کوئی اس کا انتظار کرتا ہے اس کو دیکھنے کے لیے کئی کئی گھنٹے کھڑا رہتا ہے اس نے جب اس کو آتے دیکھا تو اس کا دل چاہا کہ اس کے پاس جا کر پوچھے کہ آج کیوں دیر ہوگئی لیکن پھر ہر روز کی طرح بہت سی باتیں دل میں لیے ہی واپس چلا گیا
آج تو صبح سے موسم بہت اچھا ہو رہا تھا آسمان بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی وہ آج بھی کھڑا اس کا انتظار کر رہا تھا لیکن اس کا انتظار آج کافی لمبا ہوگیا تھا وہ کافی دیر تک اس کا انتظار کرتا رہا لیکن وہ نہیں آئ تو وہ واپس اپنے دفتر چلا گیا وہ روز اس کا انتظار کرتا تھا لیکن وہ آتی ہی نہیں وہ کافی دیر تک بس اسٹاپ پر بیھٹا رہا لیکن آج بھی وہ نہ امید ہو کر کام پر چلا گیا اس طرح اس کو دیکھے آج ایک مہینہ ہوگیا تھا لیکن اس کا کچھ پتہ ہی نہیں چل رہا تھا اور اطیب کی حالت دن بہ دن خراب ہوتی جارہی تھی وہ روز جاتا اور نہ امید ہو کر واپس آجاتا ہے
وہ آج دو ماہ بعد اس کو عبایا پہنے نظر آئ لیکن اس کا ساتھ ایک اور لڑکی تھی اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا کیونکہ وہ ہمیشہ اکیلی آتی جاتی تھی اطیب نے ہمت کرتے ہوۓ اس سے بات کرنے کا سوچا ور اس کا پاس گیا دوسری لڑکی نے زوہا کے قریب لڑکے کو آتے دیکھا تو اس کے کان میں کہا تو زوہا نے اس کی طرف دیکھا اور وہ اس کے پاس اکر روکا اور اس کو مخاطب کیا مجھے آپ سے بات کرنی ہے زوہا نے پہلے تو اس کو حیران ہو کر دیکھا پھر کچھ دیر بات بولی: جی کہیۓ؟ اطیب نے تھوڑا ہچکیچاتے ہوۓکہنا شروع کیا
آپ بہت اچھی لگتی ہیں اور میں آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور اس سلسلے میں اپنی والدہ کو آپ کے گھر بھیجا چاہتا ہوں اگر آپ کو کوئ اعتراض نہیں ہے تو آپ مجھے اپنے گھر کا پتہ دے دیں وہ سر جھکاۓ سب بول کر خاموش ہو کر اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا
زوہا نے اسکی پوری بات خاموشی سے سنی پہلے تو وہ حیران ہوئی پھر وہ کافی دیر اس کو دیکھتی رہی اور وہ اس کے جواب کا انتظار کرتا رہا پھر سر اٹھا کر اسکی طرف جواب دہ نظروں سے دیکھا تو زوہا نے جواب دیا کہ میں آپ سے شادی نہیں کرسکتی بلکہ میں کسی سے بھی شادی نہیں کرسکتی کیونکہ میں ایک کینسر کی مریضہ ہوں یہ کہ کر وہ رکے بغیر اس کو حیران و پریشان کھڑا چھوڑ کر چلی گئ وہ کافی دیر تک کھڑا رہا اس کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ اس کی محبت اس کو ملنے سے پہلے دور ہوگئی ہے
زوہا گھر آئ تو اس کو پتہ چلا کہ گھروالوں نے اس کا رشتہ کسی سے پکّا کر دیا ہے اور لڑکے والوں کو اس کی بیماری سے کوئی مسلہ نہیں تھا بلکہ انہوں نے تو یہ تک کہا ہے کہ وہ خود تمہارا علاج کسی اچھی ڈاکٹر سے اچھے طریقے سے کروائیں گے زوہا نے یہ سن کر تھوڑا احتجاج کیا پھر ماں باپ کی منتیں کرنے پر اس نے شادی کے لیے حامی بھرلی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے چٹ منگنی اور پٹ بیاہ ہو کر وہ سسرال پہنچ گئ
وہ دلہن بنی پھولوں سے سجے کمرے میں بیٹھی تھی اور سوچ رہی تھی کہ کون ہے وہ جس نے اسے اس کی بیماری کے ساتھ قبول کیا وہ اپنے دولہے کا انتظار کررہی تھی اس کو نہیں پتہ تھا کہ وہ کون ہے کیا کرتا ہے کیسا ہے وہ ابھی یہ سوچ رہی تھی کہ دروازہ کھولنے کی آواز آئ اور وہ سنبھل کر بیٹھ گئ اس نے محسوس کیا کوئ کمرے میں داخل ہوا اور اس کے سامنے آکر بیٹھ گیا اور اس کو دیکھنے لگا
زوہا کافی دیر اس کے بولنے کا انتظار کرتی رہی پھر جب سامنے والے نے کچھ نہیں کہا تو اس نے ارادہ کیا کہ وہی پوچھ لیں اور جیسے ہی اس نے بولنے کے لیے اپنا چہرہ اوپر کیا تو وہ بہت حیران ہوئی کیوں کہ اس کے سامنے کوئی اور نہیں اطیب تھا وہ حیران و پریشان اسے دیکھتی رہی وہ اس کے چہرے کو دیکھتے ہوۓ ہنسا اور اس کا ہاتھ تھام کر اس پر اپنا دوسرا ہاتھ رکھ کر بہت نرمی سے کہا کہ: جب تم نے مجھ سے کہا کہ تم مجھ سے شادی نہیں کرسکتی تو اس وقت مجھے لگا کے میرا سانس بند ہوجائے گا میں اس ہی وقت گھر گیا اور اپنی ماما کو سب کچھ بتادیا تو انہوں نے کہا کہ مجھے فخر ہوگا کہ میرا بیٹا ایک ایسی لڑکی کو اپنی شریک حیات بناۓ اور اس کو دنیا کی ساری خوشیاں دیں جو وہ سمجھتی ہے کہ اِس پر اس کا کوئی حق نہیں تم فکر نہیں کرو ہم ابھی اس کے گھر چلتے ہیں میں اس کے ماں باپ سے اس کا ہاتھ مانگوں گی اور ہم اس کا اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے علاج بھی کروائیں گے اور مجھے امید ہے اسے کچھ نہیں ہوگا اور تم دونوں ہمیشہ ایک ساتھ خوش رہوگے
پھر ماما نے تمھارے امی ابو سے بات کی ان کو ہر بات کا یقین دلایا اور پھر ان سے تمھاری ساری رپورٹس بھی لے لیں کہ وہ اچھے سے اچھے ڈاکٹر کو تمھاری رپورٹس دیکھا سکے کہ اب تم ہماری ذمہ داری ہو
میں نے بہت مشہور ڈاکٹر کو تمھاری ساری رپورٹس دیکھائ اور اس ڈاکٹر نے کہا ہے کہ تم بہت جلد ٹھیک ہو جاؤں گی کیوں کہ تمہارا مرض ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے اور اس کا علاج بھی ممکن ہے
زوہا اطیب کی ساری باتیں چہرہ جھکاۓ سن رہی تھی اور خاموشی سے آنسو بھی بہا رہی تھی اطیب نے جب دیکھا کہ زوہا نے کچھ نہیں کہا تو اس نے اس کا چہرہ اوپر کیا جو وہ نیچے کیے بیٹھی تھی اس کا چہرہ آنسوں سے تر تھا اطیب نے اس کے آنسوں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کیے اور اس کا چہرہ اپنے ہاتھوں سے تھام کر کہا : زوہا میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں اور آخری دم تک کرتا رہوں گا اور میں ہمیشہ تمھارے ساتھ رہوں گا ہر مشکل مے میں تمھارا ساتھ دونگا اپنی آخری سانس تک زوہا اس کو دیکھ کر مسکرائ اور اپنے ہاتھوں کی ہتیلیوں کو دیکھنے لگی اور سوچنے لگی کہ اللّه نے اس کے صبر کا پھل کتنی اچھی صورت میں دیا جو وہ یہ سوچ کر بیٹھی تھی کہ وہ کبھی ٹھیک نہیں ہوسکتی اور اس کا زندگی کی خوشیوں پر کوئی حق نہیں اور بہت جلد اس کی زندگی ختم ہوجاۓ گی مگر آج اطیب کی صورت میں اللّه نے جو اس کے صبر کا انعام دیا تھا اس کے لیے وہ اللّه کا جتنا بھی شکر ادا کرتی کم تھا
زوہا بھی اطیب کا ہاتھ تھام کرمسکرانے لگی اور سوچنے لگی کہ اس کو اپنے ہمسفر کے ساتھ خوشیوں بھری زندگی جینی ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles