Asar - Article No. 2009

Asar

عصر۔۔تحریر:جاوید جی - تحریر نمبر 2009

جس سماج کا وہ شہری تھا وہاں اسکا جرم ‘ دوہرا تھا۔پہلا‘ وہ غریب تھااور دوسرا اسکا ماضی جو جھگڑے سے عبارت تھا۔ لہذا کوئی اسے کام دینے کو تیا ر نہ تھا۔یہ بے روزگاری اسکی زندگی کی کئی خوشیاں ہڑپ کر گئی۔ گھر کا خرچ پہلے ہی بڑی مشکل سے پورا ہوتا تھا‘ملازمت چھوٹی تو گھر میں فاقوں کی نوبت آ ٓگئی

جمعرات 11 اپریل 2019

یہ ایک بس اڈے کا منظر ہے۔ مختلف روٹس پر جا نے والی بسیں اپنی اپنی مخصوص لین میں کھڑی ہیں۔ جونہی کسی بس کی روانگی کا وقت قریب آتا ہے، اڈے کی انتظا میہ کی جانب سے اسکی روانگی کا اعلان کیا جاتا ہے، مسافر بس میں سوار ہوتے ہیں اور وہ بس لین سے نکل کر اپنی منزل کی جانب روانہ ہو جاتی ہے۔وہ مسافر بھی انتظارگاہ میں بیٹھا اپنی بس کے وقت کا انتظارکر رہا ہے۔

اچانک قریب کی کسی مسجد کے لا وٴڈاسپیکر سے اذان کی صدا بلند ہوئی ۔ ً” نماز عصر کا وقت ہو گیا ہے مگر اڈے کی مسجد کدھر ہے“۔ مسافر نے سوچا اور مسجد کے بارے میں جاننے کے لیٴے ٹکٹنگ کاوٴنٹر کے پیچھے بیٹھے بیس‘ اکیس سال کے نوجوان کی طرف بڑھ گیا۔ مسافر نے اس سے مسجد کے بارے میں پوچھا تاکہ عصر کی نما ز ادا کر سکے۔

(جاری ہے)

لیکن نوجوان نے مسجد کا پتہ بتا نے کی بجا ئے اس بات پر اصرار شروع کر دیا کہ ” اگرچہ دی جانے والی اذان ‘ نما ز عصر کے لیٴے ہی دی گیٴ ہے مگر یہ جس مسجد کے مینا ر وں سے بلند ہوئی ہے اس کا تعلق نوجوان کے مخالف مکتبہ فکر سے ہے لہٰذا اگر مسافر اس اذان کے ساتھ نماز عصر ادا کرے گا تو ایک ایسے گناہ کا مرتکب ہو گا جس کا کو ئی کفا رہ نہیں“۔

نوجوان بضد تھا کہ مسا فر کو مذکورہ اذان کے ساتھ نماز عصر ادا کرنے سے باز رہنا چا ہیٴے۔جبکہ مسافر کا کہنا تھا کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ اذان اس بات کااعلان ہے کہ نماز کا وقت شروع ہو گیا ہے لہٰذا مسافر بھی اسی اصول کے تحت عصر کی نماز ادا کرنا چاہتا ہے۔مسافر کا موٴقف نوجوان کے موٴقف سے ٹکرایا تو لہجوں کی شا ئستگی ختم ہو نے لگی۔بات بڑھ کر تکرار میں بدل گیٴ۔
لہجوں کا دھیما پن رخصت ہوا اور اسکی جگہ جانوروں کی مانند بلند ہوتی اور دھاڑتی ہویٴ آوازو ں نے لے لی۔آوازیں جو دوسروں کی آوازوں پر غالب آنا چاہتی تھیں۔جانور جو ایک دوسرے کو چیر پھاڑنا چاہتے تھے۔اورجانوروں کے ہاں گفتگو نہیں ہوتی‘غراہٹیں ہوتی ہیں۔یہاں بھی گفتگواور شا ئستگی کہیں دور۔۔ منہ چھپا کر بیٹھ گیٴ تھیں‘ معیا ر سے گری ہویٴ غراہٹیں تھیں۔
ان بلند ہوتی غراہٹوں کے اردگرد لوگ اکھٹے ہونے لگے بجا ئے اسکے‘ کہ کوئی دانااورعاقل دونوں کو سمجھا تا کہ یہ لڑنے کی نہیں ‘ سمجھنے کی بات ہے‘۔”بیوقوف سیانو“ لڑو مت‘جاوٴ اوراپنی اپنی راہ لو‘ لوگوں کی اکثریٴیت بھی دو گرو ہوں میں بٹ گیٴ۔ ایک گروہ مسافر کا ہمنوا تھا‘جبکہ دوسرا گروہ نوجوان کے حو صلوں کو گرمارہا تھا۔
اطراف کے ہاتھ دراز ہوئے اور ایک دوسرے کے گریبانوں تک آگئے ۔لمحوں میں اڈہ میدان جنگ بن گیا۔ رزم گاہ میں موجود ہر شخص جانتا تھا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے‘ اس لیٴے بوتلیں‘ ڈنڈے‘ لاتیں اور گھونسے‘ غرضیکہ ہر چیز کا آزادانہ استعمال ہو رہا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ کچھ سیانے اس آزمودہ قول کے مندرجات سے اتفاق نہیں کر تے اور بیان کرتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں بھی سب جائز نہیں ہوتا۔
مگر یہ تو سیانوں کی باتیں ہیں اور فی الحا ل انہیں یہیں چھوڑتے ہیں‘ کیو نکہ اڈے پر ہونے والا جھگڑا اس بات کا اعلان کر رہا تھاکہ لڑنے والوں میں یا تو کوئی بھی سیانا نہیں اور یا پھر سبھی سیانے ہیں۔اسی لیٴے کوئی کسی کی بات سمجھنے کے لیٴے تیا ر نہیں۔اس معرکے کا نتیجہ بھی وہی نکلاجوعام طور پر ایسی لڑائیوں کا ہوتا ہے۔کسی کا سر پھٹا‘کسی کی ٹانگ مجروح ہویٴ‘کسی کی آنکھ پھول کر کپا بن گیٴ‘اور کسی کی ناک کا بانسا ٹوٹا اور وہ طوطا ناک کا منظر پیش کرنے لگی۔
روائیت کے مطابق‘ عصر کا سارا وقت اسی معرکے کی نذر ہو گیاتھا اورمغرب سے جا ملا تھا۔ وہ مسافر جو عصر کی نماز ادا کرنے کا خواہشمند تھا‘اور جس نے ٹکٹنگ کاوٴنٹر کے پیچھے بیٹھے نوجوان سے مسجد کا ایڈریس پوچھا تھا‘ اپنے زخمی سر اور پھٹے گریبان کے ساتھ زمین پر بے سدھ پڑا تھا۔اور وہ نوجوان جو مسافر کے سوال پرمصر تھا کہ مسافر کو ابھی نمازعصر ادا کر کے گناہ گار نہیں ہونا چاہیٴے ‘ دائیں ہاتھ سے اپنے بائیں ہاتھ کی ٹوٹی کلائی تھامے درد سے کراہ رہا تھا۔
ایسے میں نہ تو اس کو وہ مسافر یاد تھا اور نہ ہی اسکا سوال‘اور نہ ہی اسکی توجہ اس تعبیر پر تھی جو اس کے ذہن میں نماز عصر کے وقت کے متعلق پائی جاتی تھی۔سب کچھ اسکے ذہن سے محو ہو گیا تھا۔ اگراسے کچھ یاد تھا توبس اپنی ٹوٹی ہوئی کلائی اور اس کلائی میں ہونے والی شدید تکلیف ۔اس کی تکلیف یہ سوچ کر اور بڑھ جاتی کہ وہ دو چھوٹی بہنوں‘ معذور باپ اوربوڑھی ماں‘جسے اس نے بچپن سے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے دیکھا تھا‘کا واحد سہارا تھا۔
اس نے اڈے کی موجودہ ملازمت بڑی مشکل سے حاصل کی تھی۔اس جھگڑے اور اپنی ٹوٹی ہوئی کلائی کی وجہ سے اسے یقیناًاپنی ملازمت سے ہاتھ دھونے پڑتے۔ایسے میں اس کے گھر کے اخراجات کیسے پورے ہوتے؟۔اسکی سوچوں کا ارتکازاڈے کی مجرو ح فضاء میں اٹھنے والے پو لیس گاڑیوں کے سا ئرن سے ٹوٹ گیا۔ پولیس کے جوانوں نے کسی کو پانجا لگایا‘ کسی کو دھپا مارا اور کسی کی ٹوٹی ہوئی انگلی کو اکڑا ہوا سمجھ کر ڈنڈا مارا اور سچ میں وہ انگلی توڑ ڈالی ‘ اورڈنڈا ڈولی کرتے ہوئے سب کو گاڑیوں میں لاد کر جیل لے گئے۔
وہاں ان لوگوں پر کیا بیتی اس بارے میں سارے راوی خاموش ہیں۔ہو سکتا ہے انہیں سچ میں کچھ پتہ نہ ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ راویوں نے عصر کی پہلی اذان کے ساتھ نمازکا ارادہ کرنے والے مسافر کے پھٹے سر اور ادھڑے گریبان سے عبرت پکڑی ہو اور خاموشی میں ہی عافیت سمجھی ہو۔البتہ بیان کرنے والے یہ ضرور بیان کرتے ہیں کہ اڈے پر لڑنے والے دو گروہوں کے علاوہ ایک تیسرا گروہ بھی تھا‘جو تعداد میں زیادہ ہونے کے باوجود‘ قریب کھڑا ترچھی نگاہوں سے سارا منظر دیکھ رہا تھا‘ گویا اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں۔
لڑنے والوں کے لیے یہ لڑائی کفرواسلام کا معرکہ تھی‘ لہذابہت تیزی سے پھیلی اور اسکی زد میں وہ تیسرا گروہ بھی آگیا جو کن اکھیوں سے سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی سب کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا تھا کہ اسے کچھ پتہ نہیں کہ اس کے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔کون لڑ رہا ہے‘ کس سے لڑ رہا ہے اور کیوں لڑ رہا ہے۔راوی یہ بھی بتاتے ہیں کہ سب سے زیادہ مضروب اسی تیسرے گروہ کے تھے ‘ جو بے حسی کی چادر اوڑھے دونوں گروہوں کو لڑتے دیکھ رہا تھا۔
اس واقعے کو کئی سال گذر گئے ہیں۔ان سالوں میں شہر نے کئی روپ بدلے ہیں۔شہر کے بدلے ہوئے روپ میں کئی چہرے کھو گئے ہیں۔مسافر کا کسی کو کچھ پتہ نہیں۔بظاہرًا یوں لگتا ہے کہ اس نے سفر کا وقت بدل لیا ہے۔کیونکہ اس دن کے بعد‘ عصر کے وقت وہ اڈے پر کبھی نظر نہیں آیا۔کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اس دن کے واقعے سے دلبرداشتہ ہو کر اس نے سفر کرناہی چھوڑ دیا ہے۔
ا س د ن کے جھگڑے کی چھاپ نے ٹوٹی کلائی والے نوجوان کی زندگی کے کئی ماہ و سال نگل لئے ہیں ۔پولیس کے کاغذات میں اس کا اندراج ایک انتہا پسند مجرم کے طور پر ہو گیا جو معمولی اختلاف پر کسی کی بھی جان لے سکتا ہے۔جس سماج کا وہ شہری تھا وہاں اسکا جرم ‘ دوہرا تھا۔پہلا‘ وہ غریب تھااور دوسرا اسکا ماضی جو جھگڑے سے عبارت تھا۔ لہذا کوئی اسے کام دینے کو تیا ر نہ تھا۔
یہ بے روزگاری اسکی زندگی کی کئی خوشیاں ہڑپ کر گئی۔ گھر کا خرچ پہلے ہی بڑی مشکل سے پورا ہوتا تھا‘ملازمت چھوٹی تو گھر میں فاقوں کی نوبت آ ٓگئی۔ فاقوں سے تنگ آ کر معذور باپ نے خودکشی کر لی۔باپ کے کچھ دن بعد ماں بھی چل بسی۔اس نے کسی نہ کسی طرح مانگ تانگ کربہنوں کی شادی کی۔ اور ان شادیوں کے عوض اپنی بہنوں کے شوہروں سے اچھی خاصی رقم بٹور لی اور کبھی واپس نہیں کی۔
بیان کرنے والے اس دلیل سے لا علم ہیں جس نے نوجوان کو اپنے اس فعل پر نادم نہیں ہونے دیا ۔نوجوان نے حا صل شدہ رقم سے ایک چھوٹا سا کاروبار شروع کر لیا۔ آج و ہ نو جوان کسی دوسرے شہر جانے کے لئے اڈے پر کھڑا بس کا انتظار کر رہا تھا۔جب اچانک قریبی مسجد سے عصر کی اذان بلند ہوئی۔اسکی نظر بے اختیار ْٹکٹنگ کاؤنٹر کی طرف اٹھ گئی جہاں ایک مسافر ‘کاؤنٹر کے پیچھے بیٹھے نوجوان سے مسجد کا پتہ پوچھ رہا تھااور نوجوان اس بات پر اصرار کر رہا تھا کہ ” اگرچہ دی جانے والی اذان ‘ نما ز عصر کے لیٴے ہی دی گئی ہے مگر یہ جس مسجد کے مینا ر وں سے بلند ہوئی ہے اس کا تعلق نوجوان کے مخالف مکتبہ فکر سے ہے لہٰذا اگر مسافر اس اذان کے ساتھ نماز عصر ادا کرے گا تو ایک ایسے گناہ کا مرتکب ہو گا جس کا کو ئی کفا رہ نہیں“۔

Browse More Urdu Literature Articles