Band Darwazay - Article No. 1832

Band Darwazay

بند دروازے - تحریر نمبر 1832

وہ ندی کے پُر سکون پانی میں پاؤں ڈالے افق کو تکے جارہا تھا۔وہ سحر زدہ تھا ،سوچوں میں گم ۔اسے سرگوشی سنائی دی ۔

جمعرات 20 دسمبر 2018

نعمان رشید
سارے میں سبزی کی مسحور کن خوشبو کا راج تھا۔پوری کائنات پر جیسے ایک سکوت طاری تھا، آوازوں کو تر ستا سناٹا ،ایک مکمل خاموشی ،جس میں کبھی کبھی بانس اور سرکنڈوں کے جنگل سے کوئی پرندہ مخل ہونے کی جسارت کرتا ۔سورج درختوں کے عین اوپر چمکتا تو اس کی طلائی کرنیں درختوں سے چھن چھن کر نیچے آتیں اور ندی کی سطح پر قوسِ قزح بکھرجاتی ۔

سارے منظر پر ایک الوہی قوت کا قبضہ تھا ۔پوری کائنات جیسے رقص میں تھی ،ایک الوہی دُھن پر،جونشے کی طرح روح میں اتر جاتی تھی ۔
سورج مغربی افق پر کسی دق زدہ مریض کی طرح خون تھوک رہا تھا ۔سر مئی شام دن کو اپنی آغوش میں لینے کے لئے بازو پھیلا رہی تھی ۔
وہ ندی کے پُر سکون پانی میں پاؤں ڈالے افق کو تکے جارہا تھا۔

(جاری ہے)

وہ سحر زدہ تھا ،سوچوں میں گم ۔

اسے سرگوشی سنائی دی ۔فطرت نے اس کے کان میں کچھ کہا تھا۔وہ سمجھ نہیں پایا،اس نے گھبراکے پوچھا ”تم کون ہو؟“یہ سوال جیسے سارے بن میں پھیل گیا تھا ․․․․․تم کون ہو ؟تم کون ہو ؟․․․․․․سر مئی شام نے حیرانی نے نیچے جھانکا ۔اسے لگا اس نے یہ سوال پوچھ کے غلطی کی تھی ۔سارا جنگل قہقہے لگا نے لگا تھا، شور مچا نے لگا تھا ،سارے میں قہقہے گو نجنے لگے ،ہر پتہ ،ہر پرندہ ۔
اسے لگا اس کی جہالت کا مذاق اڑایا جارہا ہے ۔اس نے گھبراکر کانوں پر ہاتھ رکھ لی ۔منظر خاموش ہو گئے تھے ۔
ساری حیرانی جیسے اس کی آنکھوں میں جا بسی تھی ۔ندی کی پُر سکون سطح پر منظر بدلنے لگے تھے ۔اجنبی اور مبہم سے منظر ،دھندمیں لپٹے ہوئے ،بے معنی منظر ۔وہ کچھ سمجھ نہیں پایا۔تہہ در تہہ عجیب سے منظر ندی کے پانی پر یوں ٹھہر گئے تھے جیسے برف کی دبیز تہہ ،جولمحہ بہ لمحہ بڑھتی جارہی تھی ۔
رنگ برنگے ،سیاہ ،مٹیالے ،افسردہ ،خوبصورت ،بھیانک منظر ۔ان کی تہہ میں ندی کا پانی جیسے چھپ گیا تھا ۔اس نے گھبراکر ٹانگیں پانی سے باہر گھسیٹ لیں ۔
”میں تمہارا خواب ہوں ۔آؤ مجھے دیکھو “۔وہ جو اونچ نیچ کو گہرائی تک نہ جانتا تھا یہی وجہ ہے وہ ناز سے میل ملاقات نہ چھپا سکا بلکہ دوست انو کو راز دار بنائے رہا ۔مجوخرانٹ لڑکا تھا ایسے معاملات کا تجربہ رکھتا تھا ۔
ایک علاقہ دیہاتی پھر وہ ٹھیکیدار کا بیٹا تھا اور صابر چھوٹی ذات کا تھا ایک ساتھ خلاف مزاج باتیں کیسے ہضم ہوتیں ۔وہ مارپیٹ کربازو یا ٹانگ توڑ کر مطلوبہ نتائج حاصل کر سکتا تھا اور خود قید وبندہونے سے بچ جاتا لیکن پچھلے گناہوں کی فصل پک چکی تھی ،ذلالت کے ساتھ عزت گئی،بدنامی ہوئی اور پورے علاقہ میں جگ ہنسائی ہوئی۔
”یوں بھی ہوتا ہے“میں کرن سنگھ واقعی وقتی طور پر ہندوؤں کے بہکاوے میں آگیا ،جو فعل کیا اس کا مداوہ کرنے سینکڑوں کوس سے ایک طرح سے جان ہتھیلی پر رکھ کر سرحد پار آیا ،اپنے کردار اور گفتار سے سب کے منہ بند کر دےئے اور الیاس کے روپ میں دنیا کے ساتھ آخر ت بھی سنوار لی ۔
”اندھیرا اجالا“میں پیرالفت حسین کے ساتھ کئی غرض کے مارے ہوئے چھوٹے بڑے جرائم میں ملوث تھے ،زن ،زر ،زمین اور اجارہ داری کالالچ ذہن کو کتنا منصوبہ ساز بنا دیتا ہے ۔کتنی چالیں چلی گئیں ،حربے آزمائے گئے اور دولت سے جوانوں کو خریدا گیا لیکن جرم ظاہر ہو کر رہا ،رات کا اندھیرا پردہ نہ ڈال سکا بس ایک سرا ہاتھ آیا تو پرت اترتے گئے ،رازفاش ہوتے گئے ۔

”گمنام شہید “پڑھ کر سر فخر سے بلند ہو گیا ہے کہ کیسے ہمارے جوانوں کے سینوں میں جذبہ حب الوطنی بھرا ہوا تھا ،ساتھیوں کی تکلیف میں اوّلیت کی سوچ تھی اور کسی مرحلہ پر موت ،دشمن کا خوف دیکھنے میں نہیں آیا ۔عقل ،ہمت ،سوچ ،جسم اور ہاتھوں سے مقابلہ کیا ۔جب ایک انگلی میں حرکت رہی تو خود اعتمادی سے سینہ سپر رہے ۔بھلا یہ کہانیاں کب بھولنے والی ہیں،تاریخ انہیں کیسے نوچ کر الگ کر سکتی ہے؟جو ایسی ناانصافی کا مرتکب ہو گا وہ قوم ،ملک اور پاک دھرتی کا غدار کہلائے گا۔
کون ایسا الزام سر لے کر زندہ رہے گا اور کس منہ سے اللہ کے حضور پیش ہو گا پھر یہ سچی کہانیاں اور کارنامے ہمارے اپنے بیٹوں کے ہیں جنہیں بھلانا نا ممکن ہی نہیں ۔
”آغوش “کے ساتھ جو سلوک کمپوزنگ نے کیا میں نے وہ معمہ حل کرکے ترتیب سے صفحات کو اپنے طور پر نمبر دےئے پھر پڑھنے کا مزہ آگیا ۔صبا کے ساتھ اپنوں نے کیا سلوک کیا پڑھ کر وقتی طور پر رشتوں سے اعتبار اٹھ گیا ۔
ایسا انتقام تو کیا کوئی دشمن لیتا ہو گا ۔یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ سر پرست فرشتہ سیرت انسان تھا جس نے تھکے ،اکتائے بغیر اور اپنی اولاد سے بڑھ کر پرورش کی ،شفقت دی اور بکھرنے سے بچائے رکھا ،زمانے کے سرد گرم سے مقابلہ کرنے میں ہمت بند ھائی جرأت پیدا کی اور خود اعتماد ی قائم رکھنے میں معاونت کی وگر نہ اس کے ہولناک انجام کے تصور سے خوف آتا ہے ۔

اتنے پیچیدہ حالات کو قلم کی زبان سے صفحات کی زینت بنانا ڈاکٹر مبشر حسن ملک کا ہی کمال ہے ۔میں اس ہنر کی سلامتی کے لئے دعا گوہوں ۔”جگو جوان ہو گیا ہے “میں باپ بیٹے کی محبت اور پاک دھرتی کو ناپاک قدموں سے بچانے کا فرض ایک ساتھ چلتے رہے آخر وطن کی محبت نے دونوں کو سر خرورکھا ،فرض جیت گیا تو قوم کا سر فخر سے بلند ہو گیا ۔آزادی قائم رہی اور مقصد پایہ تکمیل کو پہنچا یہی وجہ ہے ہم عزت نفس کے ساتھ اپنی مرضی سے جی رہے ہیں جو اس مشن میں شہید ہوئے ان کے لواحقین کی عظمت ،ہمت اور صبر کو سلام کیجئے ۔

Browse More Urdu Literature Articles