Baraf Ki Sill - Article No. 1012

Baraf Ki Sill

برف کی سِل - تحریر نمبر 1012

سرد رات، سرد تر ہوتی جارہی تھی۔ چھوٹے سے اس قید خانے میں انسان کا زندہ رہنا ناممکن نظرآتا تھا۔ کچھ دور لوہے کا زنگ آلوددروازہ تھا، جس کے کنڈے کے ساتھ بیڑیاں ہی بیڑیاں تھیں۔

بدھ 24 فروری 2016

عمار مسعود:
سرد رات، سرد تر ہوتی جارہی تھی۔ چھوٹے سے اس قید خانے میں انسان کا زندہ رہنا ناممکن نظرآتا تھا۔ کچھ دور لوہے کا زنگ آلوددروازہ تھا، جس کے کنڈے کے ساتھ بیڑیاں ہی بیڑیاں تھیں۔ وزنی قُفل تھے۔ اندھیرا سناٹے کو شدید کررہا تھا۔ پتّھر کی دیواریں برف کی ہورہی تھیں۔ کوئی روزن، کوئی تازہ ہوا کا جھونکا، روشنی کی کوئی کرن دُور تک نظرنہیں آتی تھی۔
اس قید خانے کے وسط میں وہ بیڑیوں سے بندھا، برف کی سل پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ زندگی کے سوال کا جواب کیا ہے ؟
اُس کی ساری زندگی سوالوں کے جواب کھوجتے کھوجتے خود سوال ہوگئی تھی۔ ہر سوال کے جواب کے بعد اُسے ہمیشہ ایک اور سوال کا سامنا رہا۔ سورج کے ظہورسے لے کر،کائنات کے اصل تک، سوال ہی سوال تھے۔

(جاری ہے)

ہر نکتہ اہم، ہر کڑی مربوط مگر جواب کا سرا غائب تھااور اب سوال یہ تھا کہ کیا کوئی جواب ہے بھی کہ نہیں؟
اس کا چہرہ اس کی عمر بتانے سے قاصر تھا۔

اُس کی آنکھیں سرد، نرم اور جاندار تھیں۔ ماتھا چوڑا اور بھنویں بھاری تھیں۔ جسم کا بوجھ صرف اتنا کہ زندگی جاری رہ سکے۔ اُس کے جسم کو سوال کھا گئے تھے۔ اُس کے چہرے پر فکر کی گہری لکیریں تھیں۔گزشتہ کئی برسوں پر محیط سوچ اُس کے چہرے پر ٹھہر گئی تھی۔ اُس کے دھنسے گالوں میں صرف اُس کی آنکھیں ہی اُس کے زندہ ہونے کا پتہ دیتی تھیں۔ اُس کے چہرے پر یہ آنکھیں زندگی کی واحد علامت تھیں۔

اُس کے لاغرجسم کو داروغہ ٴ جیل نے بہت اذّیت دی تھی۔مگر آج تک اُسے کچھ محسوس نہیں ہوا۔ نہ تکلیف، نہ دُکھ، نہ اذیت۔ اُسے تو کبھی خوشی بھی محسوس نہیں ہوئی تھی۔ وہ جذبوں سے عاری ایک منطقی جسم کا مالک تھا۔ اسے اذیت پر درد نہیں ہوتا تھا۔ خوشی اُس کو مسکراہٹ نہیں دیتی تھی مگر وہ بے حس نہیں تھا اس لیے کہ وہ سوچتا تھا، سوال سوچتا تھا، جواب کھوجتا تھا۔
اس کائنات کے اصل کے بارے میں، سورج کے ظہور کے بارے میں۔
قید خانے میں اُس کو ناقص خوراک دی جاتی تھی مگر اس نے مہینوں سے کچھ نہیں کھایا تھا۔ خوراک کے سارے برتن اُسی طرح سنتری واپس لے جاتے تھے۔ وہ خوراک سے بے نیاز تھا۔ اُسے کسی چیز کی اشتہا محسوس نہیں ہوتی تھی۔قید خانے کا عملہ اب اُس سے خوفزدہ رہنے لگا تھا۔ وہ وقت کے اس معجزے سے ڈرنے لگے تھے۔
اس کی آنکھوں کا سکوت داروغہٴ جیل کے علاوہ دیگر عملے کے دلوں کے نہاں خانوں میں خوف بن کر پلنے لگا تھا۔بعض اہلکارشقی القلب داروغہ سے چھپ کر اس سے اچھا برتاؤ کرنے لگے تھے ‘ مگر اِس سے اُسے کچھ فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کا سکوت قائم تھا۔ اس کی سوچ سوال کھوج رہی تھی۔ اپنے ارد گردہونے والے واقعات اس کے سوال نہیں تھے۔ وہ کچھ اور سوچ رہا تھااور مدت سے سوچ رہا تھا۔

وہ اپنے ہر سوال کو بہت احتیاط سے سوچنے کا عادی تھا۔ تمام تر استدلال اور منطق کے ہر پہلو سے وہ سوال کو پرکھتا، ہرزاویے سے اُس کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔جواب کے لیے بڑی تگ و دو کرتا۔ وہ جانتا تھا کہ ہر سوال کا جواب اہم ہے۔ شاید یہی کڑی جواب کے سِرے تک جاتی ہو۔ مگر منزل کا سرا اُس کے ہاتھ نہیں آتا تھا۔ اس قید خانے میں رہ کروہ کئی جزیروں، کئی سرابوں کے سفر پر نکلا مگر اب، جب جواب کا آسرا ہوا تو تلاش کا وقت گزرچکا تھا۔

وقت کبھی بھی اُس کا مسئلہ نہیں رہا،لمحوں، دنوں اور مہینوں کی قید سے وہ ایک مدت سے آزاد تھا۔ دن رات اُس کے لیے ایک سے تھے۔ موسم بھی اُس کی سوچ کے آگے بے بس تھا۔ شاید وہ صدیوں سے جی رہا تھا، سوچ رہاتھا۔ مگرصدیاں بھی اُس کا مسئلہ نہیں تھیں۔ وقت اُس کی مُٹھی میں سفر کرتا تھا۔ مگر وقت کا یہ سفر اُس کا سوال نہیں تھا، جواب نہیں تھا۔
قید خانے کا آہنی دروازہ کُھلا، دروازے کی گڑگڑاہٹ دیر تک سناٹے میں گونجتی رہی۔
بھاری قدموں کی چاپ برف کی سِل پر، مدت سے پڑے زندہ انسان کے پاس آکر رُک گئی۔ شقی القلب داروغہ نے بلند آواز میں جہاں پناہ کا فرمان سنانا شروع کیا۔
”مجرم کو نافرمانی، غداری اور ریاست کے امن کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے پھانسی کا حکم دیا جاتا ہے، اس حکم پر فوری عمل کیا جائے۔“
شاہی فرمان پڑھنے کے بعد شقی القلب داروغہ نے نفرت سے اُس کے چہرے کو دیکھا، اُس کا سکوت بدستورقائم تھا۔
یہ حکم اُس کا مسئلہ نہیں تھا۔ البتہ اُس کی آنکھوں میں اُس لمحے بھی جواب کی اُمید ضرور تھی۔
رات کے پچھلے پہر قید خانے کا آہنی دروازہ کھلا، چند ہاتھوں نے اُس کو برف کی سِل سے اُٹھا کر کھڑا کردیا۔ اُس کے ہاتھ پُشت پر باندھ دئیے گئے۔ ہاتھ باندھنے والا عملہ خوف اور سردی سے کانپ رہاتھا۔مگر وہ جہاں پناہ کے حکم کے باعث مجبور تھے۔ اُس کے گلے میں ایک موٹا رسہ ڈال دیا گیا۔
رسے کو کھینچ کر گرہ کی مضبوطی کا جائزہ لیا گیا۔ کچھ لرزتے، ٹھٹھرتے ہاتھوں نے اُس کے چہرے پر سیاہ نقاب ڈال دی۔ اُس کے پیروں میں بھاری بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ اب صرف شقی القلب داروغہ کے حکم سے تختہ ہٹنے کی دیر تھی۔
اُس نے اُس ایک لمحے میں اپنی زندگی کی تمام کھوج کا، اپنی ساری سوچ کا واحد جواب دھیرے سے دہرانا شروع کیا۔” انسان عظیم ہے،انسان عظیم ہے،انسان عظیم ہے۔

تختہ کھینچنے کی آواز آئی اور اچانک قید خانے کی سنگلاخ دیواروں سے ایک سفید پرندہ نمودار ہوا جس کے سینے پر سُرخ داغ تھا۔ وہ کچھ دیر قید خانے کی دیواروں سے ٹکرا کر کہیں دُور نکل گیا۔ اُسی لمحے فضا میں نُور کا ایک جھماکا ہوا، اسے ایسا لگا جیسے پھانسی پر لٹکے ہوئے جسم کو کسی نے نرم ہاتھوں سے تھام لیا ہو۔ خوف کے مارے شقّی القلب داروغہ اور عملے کے لوگ سجدے میں چلے گئے۔
نیلے آسمان سے پرے، گہرے نیلے آسمان کے پاس پہنچ کر جب اُس نے زمین کی طرف دیکھا تو وہاں پر صرف اُس کا سیاہ نقاب، آہنی بیڑیاں، برف کی سِل اور سجدہ ریز شقی القلب لوگ رہ گئے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles