Be Naam Si Zindagi 2 - Article No. 948

Be Naam Si Zindagi 2

بے نام سی زندگی ۔ حصہ دوم - تحریر نمبر 948

کہاں تھی؟کل رات بھی تم نے بات نہیں کی۔کیوں۔۔۔؟جانتے ہوئے بھی وہ اس سے پوچھ رہا تھا۔

جمعرات 27 اگست 2015

خدیجہ مغل:
کہاں تھی؟کل رات بھی تم نے بات نہیں کی۔کیوں۔۔۔؟جانتے ہوئے بھی وہ اس سے پوچھ رہا تھا
آئی ایم سوری۔۔کل مجھے آفس جانا پڑا اور جو نیوز مجھے ملیں تمھیں تو پتا ہی چل گیا ہو گا۔
جب میں گھر آئی تب تک بہت تھک چکی تھی اورتب تک سیل کی بیٹری اینڈ ہو چکی تھی ۔اس وجہ سے میں تم سے بات نہیں کر سکی تھی۔

اٹس اوکے۔تو کچھ پرافٹ ہوا تمھیں؟
یس شیور۔۔مسکراتے ہوئے بولی تو وہ بھی ہولے سے مسکرا نے لگا
آج کل مس ماروا کچھ زیادہ ہی مصروف نہیں ہو گئیں نیوز میں۔۔۔وہ اسے چھیڑ رہا تھا۔
ایسی کوئی بات نہیں ہے۔نیوز آتی ہیں تو مجھے جانا پڑتا ہے۔
پھر تو پارٹی بنتی ہے۔
با لکل بنتی ہے لیکن اس کلاس کے بعد۔وہ اٹھتے ہوئے بولی تو وہ بھی اس کے پیچھے اٹھ گیا
ویسے میں سوچ رہا ہوں میں بھی تمھارے ساتھ آجاؤں ۔

(جاری ہے)

اس کے ساتھ چلتے ہوئے بولا
کہاں۔۔۔۔؟
ارے یار تمھارے ساتھ کام کرنے۔۔
کوئی ضرورت نہیں ۔تم جو کام کرتے ہو وہی کرو تو بہتر ہے۔اس نے اسے جواب دیا
آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ہم دونوں ساتھ پڑھتے ہیں تو کام بھی ایک ساتھ کریں گئے۔
اچھا۔۔۔تم کل سے آفس جوائن کر لو میں آج ہی سے آفس سے چھٹی کر لیتی ہوں۔کیونکہ جب ہم دونوں نے کام ساتھ کیا تو ہم کبھی کامیاب نہیں ہو سکے گئے اس لیے بہتر یہی ہے مجھے کام کرنے دو اگر تم نے کام کرنا ہے تو تم کسی اور نیوز ایجنٹ سے رابطہ کرو۔
وہ کہہ کر کلاس کی جانب بڑھ گئی اور وہ اسکے پیچھے چل دیا۔
معاذ جانتا تھا وہ کبھی بھی اسے اپنے ساتھ کام کرنے نہیں دے گئی اس لیے اس نے اس کی بات مان لی۔
#۔۔۔۔۔#
وہ جانے کب سے ساکت بیٹھا رہا تھا ،اس کے ساتھ یہ بھی ہو گیا۔میں اسے نہیں چھوڑوں گا۔
اب پکڑنے والا کیا رہ گیا ہے مسٹر فواد۔۔سب کچھ تو لوٹ چکے ہو تم۔کہیں سے آواز آئی
وہ ہولے ہولے سمجھ رہا تھا کہ یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟اور کس مقصد کے لیے ہو رہا ہے؟وہ اب بے بس ہو چکا تھا۔
اس کے پاس دو ہی راستے تھے ایک راستہ وہ یا تو اپنی زندگی سے ہار جائے یا اسی سزا کو جھیلے۔
اور اسے ان دونوں میں سے کسی ایک کو لازمی چننا تھا ۔
اس نے اپنا سر تکیے پہ گِرا دیا اور اس کمرے سے باہر جانے کا راستہ ڈھونڈنے لگا۔وہ بھاگ جانا چاہتاتھا یہاں سے۔وہ نہیں رہنا چاہتا تھا یہاں ایک پل بھی۔
کچھ دیر لگی تھی اسے سوچنے میں وہ ہولے سے بیڈ سے اٹھا او ر دروازے تک پہنچا با ہر سے آنے والی آواز کچھ جانی پہچانی سی تھی۔
۔۔تھوڑی دیر لگی تھی اسے یہ آواز جاننے میں۔۔۔وہ ایک جھٹکے سے پیچھے ہوا تھا۔معاذ یہاں۔۔۔؟کک۔۔۔کیا اسکے ساتھ بھی ایسا۔۔۔؟اسکے دماغ میں کئی کئی باتیں آرہی تھیں۔مجھے نکلنا چاہیے یہاں سے ابھی وہ جلدی سے دروازے کے پاس آیا۔دروازہ کھولنے کی اس نے بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا۔اس نے دروازے پہ مکے مارنے شروع کردیے۔اس کے ان مکوں کا کسی پہ بھی کوئی اثر نہیں تھا۔

صدمے کی سی حالت میں وہ نیچے گرتا جارہا تھا۔وہ کیا کرے اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا۔۔
مبارک ہو آپ با لکل سیو ہیں۔اسکے قریب آتے ہوئے وہ بولی تھی
ماروا تم ۔۔۔تم ایسے کیوں کررہی ہو۔۔؟تم جانتی ہو نا میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔وہ بولا تھا ۔ماروا نے اسے کندھے سے پکڑ کر جھنجوڑ ڈالا۔کس پیار کی بات کررہے ہو مسٹر معاذ؟تم نے تو کبھی مجھ سے پیار کیا ہی نہ تھا وہ صرف حرص تھی حرص ۔
۔۔اور اس حرص میں تم اتنی آگے پہنچ چکے تھے کہ اپنی آخرت بھی بھول چکے تھے تم۔اب تم یہاں سے تو بچ نہیں سکتے اور آخرت کی میں کوئی گارنٹی نہیں دیتی۔وہ آج اتنے غصے سے بول رہی تھی اور معاذ حیرانگی سے دیکھ رہا تھا کیا اسے بھی غصہ آتا ہے؟وہ سوچتا رہ گیا
پلیز ماروا۔۔۔مجھے چھوڑ دو۔تم جو کہو گئے میں کروں گالیکن مجھے چھوڑ دو۔۔
یاد کرووہ وقت جب میں نے تمھارے پاؤں پکڑے تھے گڑگڑائی تھی تمھارے پاؤں میں گر کر ۔
تمھیں ،تمھیں اسوقت تو میرا خیال نہ آیا کہ میں کون ہوں؟کیا لگتی ہوں تمھاری ؟اور آج تم مجھے کہتے ہو کہ تم مجھ سے پیار کرتے ہو۔
ماروا خدا کے لیے۔۔۔اس نے کچھ بولنا چاہا لیکن اس نے بات کاٹ دی
شا کر اسے لے جاؤ۔اور خبردار جو میرے سامنے اپنی زبان کھولنے کی کوشش کی تو۔کہہ کر وہ ٹک ٹک کرتی کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔وہ اسے جاتا دیکھتا رہ گیا۔

اب افسوس کے سوا وہ کچھ نہیں کرسکتا تھا۔ا سکی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا دکھائی دیا۔وہ قریبی کرسی پہ ڈے سا گیا۔
#۔۔۔۔۔#
آج ماروا کی سالگرہ تھی وہ آج کچھ خاص تیاری سے آئی تھی۔معاذ اسے دیکھ کر بہت خوش ہوا وہ بہت پیاری لگ رہی تھی۔
کلاسز کے بعد انہوں نے کینٹین کا رخ کیا۔اور آج معاذ نے پھر اس سے فواد کی بات چھیڑ دی۔جو ماروا کو ناگوار گزرتی تھی۔

یار پلیز بات مان بھی لیتے ہیں کیا بچوں جیسے ضد کرتی ہو تم۔
اوکے تمھاری خوشی کے لیے ۔وہ اس کے سامنے ہار گئی تھی۔
اتنا کہنا تھا معاذ کی تو گویا عید ہی ہو گئی تھی وہ خوشی سے جھوم اٹھا تھا۔اس نے جھٹ سے ماروا کو فواد کا سیل نمبر دیا۔
میں کیوں لوں گئی اس کا سیل نمبر؟اسے کہو وہ خود بات کرے مجھ سے
اوکے مائی ڈئیر۔کہہ کر اس نے فواد کو میسج کردیا تھا اور پھر تھوڑی ہی دیر میں ماروا کو بھی میسج مل چکا تھا۔

اب معاذ کو اس دن کا انتظا ر تھا جس دن وہ کامیاب ہو جائے گا ۔دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے وہ کیک کاٹ رہا تھا۔بے چاری ماروا اس کے ہاتھوں بے وقوف بن گئی تھی وہ جان نہ پائی۔
دن اسی طرح گزرتے گئے وہ فواد سے بات کرتی تھی یہ بات ہولے ہولے معاذ کو چبھنے لگی تھی۔
کبھی کبھی اسے خود پہ غصہ آتا لیکن وہ کنٹرول کر جاتا آخر ایسا کرنے سے اسے ہی فائدہ ہوا تھا۔

کلاس سے فارغ ہونے کے بعد وہ دونوں لائبریری کی جانب جا رہے تھے جب ماروا بولی
فواد مجھ سے ملنا چاہتا ہے ،لیکن میں اس سے ملنا نہیں چاہتی۔کہہ دو اسے میں نہیں مل سکتی
ارے۔۔۔واؤ۔۔۔وہ مل رہا ہے تو تم انکار کیوں کررہی ہو؟
معاذ بی سیریس۔۔۔تم کہہ رہے ہو یا میں خود با ت کروں اس سے؟وہ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے بولی
تمھارا مسئلہ ہے تم خود حل کرو نا۔
اگر میں اندر آیا تو۔۔۔
اوکے میں کہہ دوں گئی۔کہہ کر وہ آگے بڑھ گئی جس کا مطلب تھا وہ ناراض ہو کر گئی تھی۔
اُف۔۔۔اب میں۔۔۔اس نے کندھے اچکائے اور ڈھیلے قدموں سے آگے بڑھ گیا۔
اس کا پلان کامیاب ہو رہا تھا ۔آج شام کو اس نے فواد سے ملنا تھا اور ماروا اس سے ناراض ہو کر چلی گئی تھی۔وہ اسکی پروا کیے بنا شام کے وقت فواد کے پاس تھا۔

وہ ان دونوں کے ہاتھوں اتنی جلدی بے وقوف بن جائے گئی انہوں نے سوچا نہیں تھا۔کل شام کو وہ فواد سے ملنے آرہی تھی۔معاذ کے لیے یہ سب سے بڑی خوشی تھی۔گویا وہ آج جیت گیا تھا۔
اور فواد ۔۔۔اس کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ماروا کو اس نے اتنی آسانی سے استعمال کر لیا تھا یہ سوچ تھی اس کی۔
معاذ نے ماروا سے کوئی بات نہیں کی تھی ۔
وہ آج با لکل چپ تھی اس نے کافی دفعہ بلانے کی کوشش کی تو اس نے اپنا رخ بدل لیا۔اس نے زیادہ کوشش نہ کی اسے بلانے کی اور یوں ہی اپنے کام میں لگا رہا
کوئی بات نہیں کل منا لوں گا۔آج جا رہی ہے فواد سے ملنے۔دل ہی دل میں سوچنے لگا ۔آج معمول کے مطابق وہ جلدی گھر آگیا تھا۔اسے رات کا بے چینی سے انتظار تھا جب فواد اسے کال کرکے اسے خوشخبری سنائے گا۔
وہ ٹی وی لگا کر ریلکس ہو کر لیٹ گیا تھا۔
#۔۔۔۔۔۔#
گھڑی نے شام کے چھ بجا دیے تھے۔گویا اس سے ملنے کا وقت آن پہنچا تھا،وہ بے دلی سے اٹھی اور آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی۔اس نے اپنا حلیہ درست کیا اور گاڑی کی چابی پکڑی اور گھر سے باہر نکل آئی۔فواد نے جو جگہ اسے بتائی تھی وہ کچھ زیادہ دور نہ تھی پندرہ منٹ میں وہ وہاں موجود تھی لیکن وہاں کوئی آبادی نہ تھی سڑک ویران پڑی تھی وہ ایک پل کو رُکی لیکن کچھ سوچتے ہوئے اس نے فواد کو کال کرلی جو اسی کا انتظا ر کررہا تھا۔
ایک منٹ کی دیر کیے بِنا وہ اس خوبصورت عمارت سے باہر آیا اور ماروا کشمکش میں مبتلا ہو گئی کہ اسکے ساتھ اندر جائے یا نہیں؟لیکن اسے اندر جانا ہی تھا اور وہ اندر آچکی تھی ۔سب کچھ اسکے معمول کے برعکس ہو رہا تھا۔
کیا اس گھر میں کوئی نہیں رہتا؟اس نے گھر میں چھائی خاموشی کو محسوس کرتے ہوئے کہا
نہیں۔۔یہ گھر دراصل کچھ مہینوں سے خالی پڑا ہے۔
کوشش کر رہاہوں جلد ہی کوئی اس گھر میں آجائے۔اس کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولا
ماروا دل ہی دل میں معاذ کو کوس رہی تھی کیا ضرورت تھی اسے یہ سب کرنے کی ؟میرا وقت ایویں ضائع ہو رہا ہے۔اس نے دیوار پہ لگی پینٹنگ دیکھتے ہوئے سوچا
فواد اسکے لیے مشروم لینے کے لیے اٹھا تھا۔مجھے اب جانا چاہیے خود سے بولتی ہوئی گویا ہوئی
فواد کو آتا دیکھ کر وہ کھڑی ہو گئی۔
مجھے جانا چاہیے
ارے۔۔۔اتنی بھی کیا جلدی کیا ہے؟مشروم تو لو
نن۔۔۔نہیں اسکی ضرورت نہیں۔اسکے ہاتھوں میں تھامے مشروم کی بوتل دیکھ کر بولی
اتنی جلدی بھی کیا ہے؟بیٹھو نا میرے پاس ۔تھوڑی باتیں کرتے ہیں۔مشروم کی بوتل ٹیبل پہ رکھتے ہوئے بولا
میں تم سے ملنے آگئی ہوں یہی کافی ہے۔نہ جانے کیوں ماروا کو اس سے بات کرنا ناگوار محسوس ہو رہا تھا۔
وہ تو وہاں ایک پل بھی نہ رکتی یہ تو بس معاذ کے لیے کر رہی تھی وہ۔وہ اسے کبھی ناراض نہیں کرنا چاہتی تھی۔لیکن تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا تھا۔
اگر ملنے آئی ہو تو مجھ سے بات بھی نہیں کرو گئی؟وہ اسکے قریب آگیا ماروا ایک قدم پیچھے ہٹی
فواد۔۔۔اس نے کچھ کہنے کیے منہ کھولا تو فواد نے اس کے منہ پہ ہاتھ رکھ دیا ۔
اس کے اس ری ایکشن پہ وہ شاکٹ رہ گئی۔
اس نے اسکا ہاتھ ہٹانے کی بہت کوشش کی لیکن وہ شاید انسان نہ تھا اسے ایک لمحہ اس معصوم لڑکی پہ ترس نہ آیا ۔اور وہ سب کر گزرا جو اسے کبھی کرنا نہیں تھا۔
ماروا کے آنسو تھمنے کو نہ آرہے تھے لیکن وہ بے حس انسان اسے وہیں چھوڑ کر باہر جا چکا تھا۔
ماروا اب صرف اور صرف ایک لڑکی رہ گئی تھی صرف نام کی ماروا۔۔۔جو اندر سے با لکل خالی ہو
وقت تیزی سے گزر رہا تھا اس نے ایک نظر اپنے آپکو دیکھا اور اٹھ کھڑی ہوئی ۔

وہ کیسے گھر پہنچی؟وہ نہیں جانتی تھی اور بیڈ پہ لیٹے اسے کتنی ہی دیر ہو چکی تھی وہ ساکت نظروں سے چھت کو گھورے جارہی تھی ۔سائیڈ ٹیبل پہ پڑا سیل فون باربار بج کر بند ہو رہا تھا۔وہ جانتی تھی معاذ اسے کالز کر رہا ہے ۔لیکن اب وہ اسکی ماروا نہ رہی تھی اسکی ماروا تو مر گئی تھی مر گئی تھی۔
اس کا ذمہ دار شاید معاذ تھا یا وہ خود؟وہ کیسے فیصلہ کرتی؟اس میں اب جینے کی ہمت باقی نہ رہی تھی وہ ختم ہو جانا چاہتی تھی مِٹ جانا چاہتی تھی اس ہستی سے۔
لیکن اسے جینا تھا اپنے ڈیڈی کے لیے ان کو وہ کبھی روتا نہیں دیکھ سکتی۔ڈیڈی کا خیال اسے ستائے جا رہا تھا اور انہیں کیا معلوم کہ آج ان کی بیٹی کی عزت پہ ہاتھ ڈالا گیا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles