Chal Diay Us Raah - Article No. 960

Chal Diay Us Raah

چل دیے اس راہ - تحریر نمبر 960

حال کا مشاہدہ ہو یا ماضی کا سبق اس سے انکار ممکن نہیں کہ علم و ہنر سے آراستہ اقوام ہی قیادتِ عالم کی سزاوار ٹھرتی ہیں اور۔۔۔

ہفتہ 3 اکتوبر 2015

خدیجہ مغل:
حال کا مشاہدہ ہو یا ماضی کا سبق اس سے انکار ممکن نہیں کہ علم و ہنر سے آراستہ اقوام ہی قیادتِ عالم کی سزاوار ٹھرتی ہیں اور فی زمانہ ٹیکنیکل علوم کی افادیت کسی کلدم کی محتاج نہیں ہے۔سیمنیار ہال پروفیسر خاور کے جملے کی صداقت پر تالیوں سے گونج اٹھا
ایسے میں پیچھلی سیٹوں پہ بیٹھی صنوبر نے سوچا وہ ضرور اپنا تعلیمی سلسلہ شروع کرے گی اور آئی ٹی کی افادیت کے پیشِ نظر وہ بھی آئی ٹی میں مہارت حاصل کرکے اپنے دین کی افادیت و حقیقت کو اجاگر کرے گی۔
کالج کے زمانے میں بھی یہ خواہش ہمیشہ اسے دامن گیر رہتی تھی۔
کیوں نہیں؟کیوں نہیں؟حسبِ معمول جب صنوبر رات کو طارق کو فون کرکے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو طارق نے مزید تعلیم حاصل کرنے کی بات پر اسکی فوراً تاکید کی
واقعی۔

(جاری ہے)

۔۔اسے یقین نہ آیا
بھلا مجھے کیوں انکار ہو گا؟
طارق اپنی بیرون ملک سروس ے واقعی بے زار رہتا تھا۔
اگر گھر کا کام ڈسٹرب نہ ہو تو مجھے یقین ہے تم ضرور کر سکو گئی
طارق اب آپ یہیں آجائیں نہ اپنے دیس میں
طارق کا یوں چلے جا نا اسکے لیے شاق تھا
مائی ڈئیر!بس تھوڑے قدم جم جائیں کچھ پاکستان کے حالات بہتر ہو جائیں تو کون اپنے گھر اور دیس کو چھوڑ کر غریب الوطنی اپنائے
شادی کے چار سال بعد شارق اور پھر شانزہ کے تکے دیگر بعد دنیا میں آجانے کے بعد اس نے تعلیمی سلسلے کو خیر آباد کہہ دیا اور بچوں کی پرورش ان کی دیکھ بھال سب صنوبر کی ذمہ داری بن گئے۔


ساس سسر کی حادثاتی موت نے گھر کو با لکل ویران کر دیاتھا ۔اور طارق کے جانے کے بعد تو بے حد بور رہتی تھی۔
کبھی کبھی تو اکیلے میں گھبرا سی جاتی تھی۔تو طارق کو فون کر دیتی
طارق مجھے ڈر لگ رہا ہے۔
ارے۔۔۔تم تو بڑی بہادر ہو کیوں تنہائی سے خوفزدہ ہو گئیں ۔
ایسا کرو تم کوئی صروفیت ڈھونڈ لو تم نے اتنا پڑھا ہے اسے آگے تک پہنچاؤ۔
۔۔
ہاں ۔۔۔آپ ٹھیک کہتے ہیں مجھے کوئی نہ کوئی مصروفیت ڈھونڈنی چاہیے
اوکے کہہ کر اس نے فون بند کر دیا
تعلیمی قابلیت،آئی ٹی میں مہارت اور وقت تینوں عناصر نے ملکر اسے معاشرے میں ایک منفرد مقام عطا کیا اور جلد ہی اس نے آئی ٹی کے حوالے سے این جی او بنا کر باقاعدہ معاشرے کو علم و ہنر سے بہرہ ور کرنے کی سعی شروع کر دی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔#
امی میرے شرت کے بٹن ٹوٹ گئے ہیں
کافی دیر سے شارق اس کا بیٹا اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کررہا تھا صنوبر نے جھنجھلا کر شرٹ پکڑی اور پھر نیٹ پہ مصروف ہو گئی
مم مجھے دیر ہو رہی ہے۔اس نے ماں کے شانے ہلائے
تم ایسا کرو دوسری شرٹ پہن لو یہ کہہ کر وہ ایک بار پھر جھک گئی
نا چار شارق نے دوسری شرٹ گھسی پٹی اور بنا استری کے پہن لی اور صنوبر کو اس کا ذرا احساس نہ ہوا
احساسِ مروت کو کچل ڈالتے ہیں آلات۔
۔۔
مم آج ہمارے اسکول میں پیرنٹس ڈے ہے آپ دس بجے تک آجائیں ضرور
شانزہ چلتے چلتے ماں کو کہہ گئی
مگر صنوبر نے جیسے تیسے ناشتہ بنایا اور انٹر نیٹ پہ بیٹھی تو سب کچھ بھول گئی اور جب شانزہ نے اسکول سے واپسی پر غصے میں جو ڈور بیل بجائی تو صنوبر کو اپنی حماقت کا احساس ہوا
اور اب تو اکثر ہی ایسا ہونے لگا تھا کہ بچے اسے اپنی ضرورت کی طرف توجہ کررہے ہوتے لیکن وہ نیٹ پہ مصروف ہوتی اس سے بچوں اکے درمیان اچھی خاصی خلیج حائل کر دی تھی لیکن صنوبر کے پاس احساسات کا وقت بھی گویا نہیں تھا۔

اس مرتبہ جب طارق چھٹیوں میں پاکستان آئے تو اس نے ہمیشہ کی طرح اپنے میکے اور سسرال کی بھر پور دعوت کا اہتمام بھی نہ کیا اور نہ ہی اپنی نند کو تاکید کے ساتھ دو چار دن اپنے گھر رہنے کے لیے مدعو کیا جو پیچھلے تمام سالوں سے اسکا معمول رہا تھا
کیا ہو اصنوبر تم نے بے ضرر روایات کو چھوڑ دیا ؟طارق نے ہلکا سا احتجاج کیا
اب مجھ میں اتنی ہمت نہیں ہے کہ اتنے لوگوں کو سھنبال سکوں ۔
صنوبر کا عذر تھا
آج طارق بیس سالوں میں پہلی بار اپنے رشتے داروں سے ملے بغیر واپس لوٹ گیا تو اسکے اندر بنا کچھ آواز کے ٹوٹا تھا ۔۔۔جس نے اسکی آنکھوں کو غمناک کر دیا تھا۔
#۔۔۔۔۔۔۔۔۔#
نیٹ اسٹوڈنٹس کی تعلیمی کامیابیاں اگرچہ صنوبر کے لیے خوشی کا باعث تھیں لیکن ساتھ ہی اسے چیٹنگ کا چسکا لگ چکا تھا
وضع وضع کے خیالات رکھنے والے افرادکے ساتھ نیٹ فرینڈ شپ اگرچہ ابتدا میں اسے مفید محسوس ہوئی تھی اور محفوظ بھی ہوتی لیکن اب موضوعات بد ل چکے تھے علم کی بجائے ذاتی دلچسپاں اور پسند و نا پسند کے مکالمات شروع ہو چکے تھے۔

صنوبر یہ تم ہو جس کا مقصد تعلیم کا فروغ تھا
چیٹنگ کرتے ہوئے ہاتھ اچانک ہی رک گیا ضمیر نے سر گوشی کی
کبھی کبھی تھوڑی تفریح ہو جانی چاہیے ۔دل نے دبیل دی
تفریح کے لیے غیر مرد کا انتخاب ہی کیوں؟
دماغ نے ہتھوڑا اٹھا لیا تھا دل دماغ کی جنگ چھڑ گئی تھی اس نے کمپیوٹر آف کیا اور کچن میں آگئی
بچوں کے لیے آلو پراٹھے پکاتے ہوئے اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے
مجھے معاف کردو طارق۔
۔۔بے اختیا ر ہی اسکے منہ سے نکلا
لیکن افسوس یہ الفاظ سننے کو وہ وہاں تھا ہی نہیں۔
چلو بچو تیار ہو جاؤ آج پارک چلتے ہیں ۔
صنوبر نے آج بچوں کو پارک لے جانے کا سوچا۔وہ اپنے آپکو مصرور رکھنا چاہتی تھی
دوسرے دن بھی اس نے بچوں کی فرمائش پہ شامی کباب اور بریانی بنائی
گھر کی صفائی کرتے ہوئے جب پی سی صاف کر رہی تھی تو اچانک ہی اس نے پی سی آن کیا
کسی نے درست ہی کہا ہے سکرین کا نشہ تو سب سے تیز ہو تا ہے صرف دیکھنے ہی سے ہو جاتا ہے۔

اس نِک نیم سے کئی بار متوجہ کیا گیا تھا اور اب وہ پھر مصروف تھی نہ چاہتے ہوئے بھی جواب دئے گئی
اسمیں حرج ہی کیا ہے تھوڑی دیر گپ شپ ہی تو ہے نا۔۔۔
تو پھر بے وفائی کیا ہے؟
تم کون سا طارق کو چھوڑ کر ذیشان کے ساتھ بھا گ رہی ہو۔۔۔دل نے تسلی دی
شیطان ہمیشہ گناہ کو بے ضرر کرکے ہی پیش کرتا ہے۔اس وقت بھی یہی حربہ تھا
اور ماؤس پہ رکی انگلیاں کی بورڈ پہ چلنے لگی تھیں
ذیشان کا عشق سر چڑھ کر بول رہا تھا اور اب تو نفس بہ نفس ملنے کا تقاضا تھا
اتنا وقت تو ہم نیٹ پہ بیٹھے ہیں ۔
صنوبر نے عذر تراشا
اسکرین کانشہ اپنا ہے۔لیکن آمنے سامنے مل بیٹھینے کا مزا اپنا
نہ نہ اور ہاں ہاں میں چار دن بعد شہر کے ایک بڑے پارک کے مین گیٹ کے ساتھ ساتویں بینچ پہ ملنے کا پروگرام فکس ہو گیا اور چار دن کے لیے چیٹنگ بند۔۔۔۔
#۔۔۔۔۔۔۔#
ذیشان سے ملاقات کی تیاری صنوبر کے لیے خاصا تھکا دینے والا کام تھا ،فیشل،مساج،پرمنگ،بلیچنگ،مینی کیور پیڈی کیور،کپڑوں کا انتخاب،دوسری اشیاء کی خریداری اور ابھی وہ جیولری اور جوتی کی میچنگ کے ساتھ خریداری کرکے گھر لوٹی تھی بڑی شدید خواہش تھی کہ اب بس سو جائے لیکن
ٹرن ٹرن ٹرن کی آواز نے اسے ہوش میں لا دیا
ارے آپ۔
۔۔۔؟طارق کو بتائے بغیر یہاں دیکھ کر تو اس کا رنگ ہی اڑگیا
کیا واپس چلا جاؤں۔۔۔؟اندر آنے کا راستہ تو دو۔۔۔
آں ہاں۔۔۔آئیے
صنوبر اب جھوٹ بولنے اور بات بدلنے میں کافی بدل گئی تھی
یہ اتنی خریداری ۔۔۔کیا بات ہے؟
وہ دو دن بعد میری دوست کی میرج ہے نا تو اسکی۔۔۔اس نے جھوٹ بول ہی دیا
سنو صنوبر۔۔میں باس کے ساتھ ایک ضروری میٹنگ کی غرض سے پاکستان آیا ہوں لہذا مجھے کام نمٹا نا ہے۔
پلیز مجھے مہلت دینا اور مائنڈ مت کرنا
اور ایسے تو صنوبر کی مراد بر آئی وہ شوہر کا سامنا کم ہی کر رہی تھی شاید انسان کے اندر کا چور اسے ایسے ہی خوفزدہ رکھتا ہے۔
وہ زیشان سے نہ ملنے کا کہہ بھی رہی تھی لیکن وہ نیٹ پہ موجود نہیں تھا ۔۔اور مجبوراً اسے تیار ہونا ہی پڑا
بالوں کو ڈائی کرکے اس نے سکھ کا سانس لیا
واپسی کب تک ہو گئی۔
۔۔؟طارق تیار ہو رہے تھے اس نے پوچھ لیا
کچھ کہا نہیں جا سکتا جلدی بھی آسکتاہوں اور لیٹ بھی
کاش اندازے سے بھی لیٹ ہو جائیں اس نے دل ہی دل میں کہا
ادھر طارق نے گیٹ سے قدم باہر نکالے اور صنوبر نے تیاری پکڑی اور دو گھنٹے بعد تیار ہوئی تو لگ ہی نہ رہا تھا کہ یہ دو بچوں کی ماں ہے۔
لائٹ پنک ساڑی پہن کر وہ کوئی اور ہی لگ رہی تھی۔

خوف و شوق کے احساسات میں گری دھیرے دھیرے صنوبر پارک کے گیٹ سے داخل ہو کر چھٹی میز کی جانب بڑھی کوئی دوسری طرف منہ کیے فون پہ گفتگو کر رہا تھا شاید ذیشان نہیں بلکہ طارق۔۔۔
نہیں ذیشان۔۔۔۔نہیں طارق۔۔۔اسکے دماغ میں دھماکے ہو رہے تھے وہ جو بھی تھا سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں صنوبر نے واپس جا نے کا سوچا شاید بھرم رہ جائے لیکن قدموں کو تو زمین نے پکڑا ہو تھا
من من بھر کے ہوئے قدمو۴ پہ وہ کھڑی کب رہ سکتی تھی لڑکھڑا کر نیچے گر گئی
طارق کی دل و دماغ کو چیرتی دھاڑ بلند ہوئی تھی لیکن اسکی نفرت و حقارت بھری آواز کو سننے کے لیے صنوبر اس دینا میں رہی کب تھی۔۔۔۔
میڈیکل رپورٹس دل پر شدید دباؤ کے سبب د ل کے پھٹ جانے سے موت کا سبب قرار دے رہی تھیں۔
ختم شد

Browse More Urdu Literature Articles