Dast Shanas - Article No. 1024

Dast Shanas

دست شناس - تحریر نمبر 1024

قدرت نے اسے صرف ایک ہی ہنر عطا کیا تھااور اس میں اُسے وہ کمال حاصل تھا کہ زمانہ اس کی اہلیت کو مانتا تھا۔

ہفتہ 12 مارچ 2016

عمار مسعود:
قدرت نے اسے صرف ایک ہی ہنر عطا کیا تھااور اس میں اُسے وہ کمال حاصل تھا کہ زمانہ اس کی اہلیت کو مانتا تھا۔ دوسرے دنیاوی امور اس کی سوچ سے بہت مدت سے دور تھے۔ وہ اپنے کام میں اس طرح مگن تھا کہ گرد و پیش سے باخبر رہنا اب اسے ناممکن نظرآتا تھا۔ اس پراسرار شخص کو دیکھنے والے سبھی لوگ کہتے تھے کہ یہ ہنر اس کا شوق نہیں ہوسکتا۔
اس لیے کہ اس میں جو شدت تھی وہ شوق سے زیادہ ضرورت کی شکل اختیار کرگئی تھی۔ شوق تو کبھی ختم بھی ہوجاتے ہیں۔ ضرورتیں دائمی ہوتی ہیں۔ ہمیشہ رہتی ہیں۔ بھوک،پیاس اور سانس کی طرح۔ سانس لینا کبھی کسی کا شوق نہیں بن سکتا۔ یہ تو ضرورت ہوتی ہے،ضرورت رہتی ہے،آخری سانس تک۔
وہ اپنے عہد کا ایک مانا ہوا دست شناس تھا۔

(جاری ہے)

وہ لوگوں کے ہاتھوں کی لکیروں کو پڑھتا اور پھر ان کے ماضی،حال اور مستقبل کے سارے واقعات تمام تر تفصیل کے ساتھ کچھ اس طرح بتاتا کہ سننے والا دیر تک ششدر رہتا۔

ہاتھ کی لکیریں ہی اس کے پاس لوگوں کی شناخت کا واحد ذریعہ تھیں۔ وہ چہرے کے نقوش، جلد کی رنگت، عمر، عہدے اور رتبے سے لوگوں کو پرکھنے سے قاصر تھا۔ اسے تو نام بھی یاد نہیں رہتے تھے۔ لیکن جیسے ہی کسی کا دایا ں ہاتھ اس کے بائیں ہاتھ کی دسترس میں آتا اس ہاتھ سے منسلک وجود کی ساری زندگی کی فلم اس کی نگاہوں کے سامنے تصویر ہوجاتی اور وہ پھر نشے کے سے عالم میں پیدائش سے لے کر آخری سانس تک کی تمام تفصیل بیان کردیتا۔
اس تمام عرصے میں ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نگاہ ہاتھ کی لکیروں سے نہ پلٹتی۔ اسے ایک لحظہ کے لیے بھی اپنے سامنے بیٹھے شخص پر گزرنے والی حیرتوں کا احساس بھی نہ ہوتا تھا۔ وہ تو بس ٹکٹکی باندھے ہر لکیر کی کڑی کو آغاز سے انجام کی لڑی میں پرو کر شادکام ہوجاتا تھا۔ اس کے لہجے میں آنے والے زمانوں کے راز کھولتے ہوئے بڑی روانی ہوتی تھی۔ اسے دیکھ کریوں لگتا تھاکہ پیش بینی کا یہ سفر اس کے لیے نیا نہیں ہے۔

چالیس برس کی عمر کے باوجود وہ تنہا رہتا تھا۔ لوگ بتاتے تھے کہ اس کی بیوی کسی نا معلوم وجہ سے اسے چھوڑ کر دونوں بچوں کو ساتھ لے کر برسوں پہلے چلی گئی تھی۔ اس دن کے بعد نہ اس نے اُن کی خبر لی نہ انہوں نے کبھی اس کا احوال پوچھا۔ گھر میں اس کے علاوہ صرف ایک گونگا ملازم تھا، جو صرف اس کے اشارے سمجھتا تھا۔ ہر حکم بجا لاتا تھا۔ وہ اپنے مالک کے اشاروں کا اتنا پابند تھا کہ تعمیل اس کا شیوہ بن گیا تھا۔
وہ پر اسرار دست شناس کی دیکھ ریکھ بہت عقیدت و احترام سے کرتا تھا۔ کبھی کبھی تو وہ اس پراسرار شخص کا ایک مجذوب قیدی دکھائی دیتا تھا،جسے راز کے اظہار کی مناہی ہو۔
دست شناس کبھی کسی سائل سے اپنے بارے میں بات نہیں کرتا تھا۔ اس کے ماضی کے بارے میں بھی لوگ کم ہی جانتے تھے۔ بس ایک دن اچانک وہ ماضی کی سب لکیریں مٹا کر اس محلے میں آکر آباد ہوگیا تھا۔
نہ محلے میں اس کی کسی سے شناسائی تھی نہ اسے لوگوں کے خوشی غم سے کوئی تعلق تھا۔ وہ تو بس ہاتھ کی لکیروں کی دنیا میں کھویا زندگی کے سوال حل کرتا رہتا تھا۔
اس کے گھر میں ہاتھ دکھانے والے بڑے قرینے سے داخل ہوتے۔ جس شخص کا ہاتھ وہ دیکھ رہا ہوتا اس کے علاوہ کمرے میں موجود تمام لوگ اس کے لیے بے چہرہ وجود کی طرح ہوتے۔ جن سے اسے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔
ہاتھ دیکھنے سے چند لمحے پہلے گونگا ملازم کسی معمول کی طرح کالی کافی کی کھولتی پیالی اس کے پاس رکھ دیتا۔ آج تک اس نے کبھی بھی کسی کے سامنے اس کافی کا ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا۔ گرما گرم کافی کی پیالی پڑے پڑے یخ ہوجاتی مگر جیسے ہی کوئی دوسرا شخص اپنے مستقبل کے بارے میں جاننے کے لیے اس کے کمرے میں داخل ہوتا تو گونگا ملازم سرد کافی کی پیالی اٹھاتا اور اس کے بیان سے کچھ دیر پہلے کھولتی ہوئی گرم کافی کا ایک کپ اس کے پاس رکھ کر گھر کے اندر گم ہوجاتا۔

اس کے ہاتھ دیکھنے کا طریقہ بھی بہت عجیب تھا۔ نیم اندھیرے سے کمرے میں وہ غالیچے پر کمبل اوڑھے، اپنے آپ کو چھپائے گٹھڑی سا بنا بیٹھا ہوتا تھا۔ پھر اس گٹھڑی میں سے اس کا بایاں ہاتھ نمودار ہوتا اور سامنے بیٹھے شخص کا دایا ں ہاتھ تھام لیتا۔ وہ کچھ دیر اس اجنبی ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے سہلاتا رہتا۔ جیسے اپنے علم کے زور سے اسے معمول بنا رہا ہو۔
اجنبی ہاتھ کی لکیروں کو روشن کررہا ہو۔پھر اس کا ہاتھ چھوٹی انگلی سے شروع ہوکر باقی تمام انگلیوں کی پوروں کو چھوتا ہتھیلی تک آجاتا۔اس کا ہاتھ قسمت، ذہانت اورزندگی کی لکیروں کو چھوتے ہوئے انگوٹھے کے پاس سے ہوتا ہوا کلائی کے جوڑ کی لکیرو ں پر پہنچ کر واپسی کا سفر شروع کردیتا۔ اس عالم میں اس کا انہماک قابل دید ہوتا تھا۔ اس کی آنکھوں کی چمک قدرت کے کسی سربستہ راز کو افشا کرنے کا پتا دیتی تھی۔

سائل کے ہاتھ کو کچھ دیر محسوس کرنے کے بعد وہ بنا کسی سوال کے خود ہی اپنا بیان شروع کردیتا۔ ریکھاؤں کے تمام تر اسرار لمحوں میں بیان کردیتا۔ وہ زندگی کی ایک ایک پرت دھیرے دھیرے کھولتا اور بچپن کے واقعات سے لے کر جوانی کے عشق، مال وزر کی آمد، بڑھاپے کے آزار، شادی کے متعلقہ امکانات، بچوں کی تعداد، تعلیم، ترقی، تجارت، عہدہ، شہرت، منصب ہر ایک کی تفصیل اس طرح بتاتا کہ جیسے یہ سبق اسے پہلے سے یاد ہو۔
بیان ختم کرنے کے بعد وہ کسی سوال کا جواب نہیں دیتا تھا۔ بس لاتعلق سا ہوکر منہ پھیر کر بیٹھ جاتا۔ اس کا بایا ں ہاتھ ایک دفعہ پھر کمبل کی گٹھڑی میں گم ہوجاتا۔ وہ کہتا تھا ” زندگی کی جتنی تفصیل ہتھیلی میں سما سکتی ہے وہ بیان کرنا اس پر قرض ہے۔ اس سے آگے کے تمام سوال اس کے لیے مبہم اور بے معنی ہیں“۔
اس کی بہت سی عجیب عادتوں میں سب سے عجیب یہ تھی کہ جب وہ کسی شخص کا ہاتھ ایک دفعہ دیکھ لیتا پھر ساری زندگی دوبارہ اس ہا تھ کو دیکھنے پر آمادہ نہ ہوتا۔
اگر اس کا دیکھاہوا کوئی ہاتھ سامنے بھی آجاتا تووہ پائپ کا ایک گہرا کش لگاتا اور پھر اسی پائپ کی نوک سے اس ہاتھ کو اپنے سامنے سے ہٹا دیتا تھا۔ وہ کہتا تھا کہ لکیروں کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ ہاتھ کی کہانی ایک دفعہ ہی پڑھی جاتی ہے۔ بار بار کہانی پڑھنے سے لکھنے والے کے نقص نظرآتے ہیں اور یہ نقص دیکھنا اس کا کام نہیں تھا۔ اس کا فرض تو جو لکھا تھا،وہ بتانا تھا۔
بغیر کسی مصلحت کے،بنا کسی ہچکچاہٹ کے۔
اسے کبھی کسی کا بایاں ہاتھ دیکھنے کی خواہش نہیں ہوئی تھی۔ وہ سب سوالوں کے جواب صرف دایاں ہاتھ دیکھ کر ہی اخذکر لیتا تھا۔وہ کہتا تھا، دایاں ہاتھ سچ بولتا ہے۔ زندگی کی ساری تحریر اسی میں پوشیدہ ہوتی ہے۔ واقعات کی تمام تر تفصیل ایک مختلف ابجد میں دائیں ہاتھ میں ہی رقم ہوتی ہے۔ بایاں ہاتھ گناہ اور بدی کا ہاتھ ہوتا ہے۔
جھوٹ بولتا ہے، گنجلک اور مہلک ہوتا ہے۔ اس کی تحریر پڑھنے کی کسی کو اجازت نہیں۔ دایاں ہاتھ محبت کا استعارہ ہوتا ہے۔ زندگی کا اثبات اسی میں درج ہوتا ہے۔ بایاں ہاتھ تونفی کا اشارہ ہے۔ یہ انکار کرتا ہے، منکر بنا دیتا ہے۔ کسی نے اس سے پوچھا کہ اگر ساری نفی بائیں ہاتھ میں ہوتی ہے تو وہ کیوں الٹے ہاتھ سے سائل کے ہاتھ کو تھام لیتا ہے۔ وہ تحمل سے جواب دیتا” ایک شخص کی اچھائی دوسرے کی برائی سے رابطہ نہیں رکھتی۔
کسی کا ثواب کسی کے گناہ کی نذر نہیں ہوسکتا۔مان لینے والی لکیریں، نہ ماننے کے اثرسے روشن ہوتی ہیں،کلام کرتی ہیں۔“
اس کی زندگی ایک پُر اسرار ڈگر پر چلتی تھی۔ شام کے بعد اس کے گھر کوئی نہیں جاسکتا تھا۔ شام سے ذرا پہلے وہ اپنے ملازم کے ہمراہ، سردیوں، گرمیوں سیاہ رنگ کا اوور کوٹ پہنے، سرپر خاکی ہیٹ سجائے، آنکھوں پر کالا چشمہ لگائے، کالی پتلون کے ساتھ فوجی بوٹ پہنے شام سے ذرا پہلے وہ واک کے لیے نکلتا تھا۔
موسم بھی اس کے معمول میں تبدیلی نہیں لاسکتا تھا۔ رستے میں وہ کسی سے کلام کرنا پسند نہیں کرتا تھا۔ اگر کوئی اسے سلام کربھی دے تو محض سرکی خفیف جنبش سے جواب دیتا تھا۔ تمام وقت اس کے ہاتھ جیبوں میں ہوتے اور کوٹ کے سب بٹن بند رہتے۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد جب وہ گھر لوٹتا تو اس کی چال میں عجیب عجلت ہوتی۔ یوں لگتا تھا کہ اسے خوف ہے کہ کوئی اس سے کلام نہ کرلے۔

کچھ لوگ بتاتے تھے کہ اس میں شروع سے ہاتھوں کو پڑھ لینے کی صلاحیت نہیں تھی اور گزشتہ زندگی میں وہ اتنا پراسرار بھی نہیں تھا۔ بس اچانک ہی بیوی کے جانے کے چند روز بعد اس پر منکشف ہوا کہ دنیا کے تمام ہاتھوں کی لکیریں اب اس کے حلقہٴ اِدراک میں ہیں۔ وہ ہاتھ کی تحریر کا مخفی کوڈ ورڈ جان چکا ہے اس دن سے ہر نئے سامنے آنے والے ہاتھ کی لکیریں اس کے ہاتھ میں خود ہی سچ اگل دیتی تھیں۔
ساری کہانی کہہ دیتی تھیں۔
وہ کھردرے، نازک، ملائم، نرم،سخت، بے جان، کالے، گورے اور بیمار ہاتھوں کی ظاہری حالت سے نتائج اخذ نہیں کرتا تھا اس کے علم کا مخزن تو مٹھی میں قید لکیریں ہوتی تھیں۔ اس کا کہاکبھی غلط نہیں ہوتا تھا۔ وہ سب کا سب بیان کردیتا تھا۔ ایک ہی سانس میں زندگی کے سارے مرحلے گنوادیتا تھا۔ وہ زندگی کی لکیر کے اختتام تک کی کہانی سناتااور پھربیان ختم کردیتا۔
موت کی حتمی اطلاع کے ساتھ۔
وہ اپنے سائل کے لیے کبھی کوئی حل تجویز نہیں کرتا تھا۔ وہ کہتا کہ”اس کا دائرہ اختیار صرف واقعات کے بیان تک محدودہے، تبدیلی کا اسم اعظم اس کے پاس نہیں۔ لکھے کو کوئی نہیں ٹال سکتا۔ راستہ مقرر ہے۔تبدیل نہیں ہوسکتا۔کوشش بے سود ہے۔ موت یقینی ہے۔ اسے عورت اور مرد کے ہاتھ میں کبھی کوئی تخصیص محسوس نہیں ہوتی تھی۔
وہ کہتا تھا کہ دونوں ایک ہی مٹی کے بنے ہوئے ہیں، دونوں کے ہاتھوں کی لکیروں کا ایک سا مفہوم ہے۔ دونوں کے راستوں میں غم اور خوشیاں برابرہیں۔دونوں ایک سے ہیں۔ لکیروں کے قیدی، بے بس، بے سہارا۔“
وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ جس طرح پوری کتاب میں ایک جملہ ہوتا ہے جو ساری کتاب کا لب لباب بیان کرتا ہے اسی طرح سارے ہاتھ میں ایک ہی لکیر ہوتی ہے جو پوری زندگی کا راز کھولتی ہے۔
سب فیصلے اس ننھی سی لکیر کے تابع ہوتے ہیں۔ چھوٹی انگلی کے پاس شادی کی لکیر سے اوپر جو مدار بنتا ہے اس میں ایک مدھم سی لکیر کنڈلی مارے بیٹھی رہتی ہے۔ یہ سب فیصلوں کی حکمران ہوتی ہے۔ سرشت کا نشان ہوتی ہے۔ یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس بر ج کے مہرے کس سمت میں بیٹھے ہیں۔فر د کا رخ کس جانب ہے۔ محبت، دوستی، انتقام، کمزوری، طاقت، زندگی سب کا احوال اس ایک لکیر میں پوشیدہ ہوتا ہے۔

زندگی کی اس ڈگر پر چلتے چلتے ایک روز اس کے ہاتھ میں ایک نازک سا ہاتھ آیا۔ جس کی انگلیاں پتلی، پوریں مکمل اور لکیریں بہت واضح تھیں۔ مہندی لگے اس ہاتھ کو چھوتے ہی وہ جان گیا تھا کہ یہ راز جان لینے والے کا ہاتھ ہے۔ وہ پہلے اس ہاتھ کو پرے دھکیلنے لگا پھر اس نے کچھ سوچ کر شاید زندگی میں پہلی مرتبہ سوال کیا ” تم دست شناس ہو ؟مرمریں ہاتھ میں ہلکی سی جنبش نے اس بات کی گواہی دی۔
جواب آیا ”میں تمہارا ہاتھ دیکھنا چاہتی ہوں“۔ اس کا بایاں ہاتھ کچھ دیر اس سفید ہاتھ پر تھرکا۔پھر لکیروں نے لکیروں سے بات کہہ دی اس نے اسی ہاتھ سے کمبل اٹھایا اور دایاں بازوسامنے کردیا۔ اس کا دایاں ہاتھ کلائی سے کٹا ہوا تھا۔ کلائی کے پاس بس ایک ٹنڈمنڈ ساادھورا نشان رہ گیا تھا۔
لکیروں کے فیصلوں کی اس دنیا میں اس کا فیصلہ کہیں بھی رقم نہیں تھا۔ آنے والے وقت کی کوئی تحریر اور گزشتہ زمانوں کا کوئی بھی نشان اس کے پاس نہیں تھا۔ مرمریں ہاتھ کچھ دیر اس کے بائیں ہاتھ میں لرزتا رہا پھر حنائی ہاتھ والی نے اپنا ہاتھ آنکھوں پر رکھ کراپنی ہتھیلی کی سب لکیروں کو آنسوؤں سے بھگودیا۔

Browse More Urdu Literature Articles