Dastak Darre Jawani - Qist 4 - Article No. 2409

دستک درے جوانی ۔ قسط نمبر4 - تحریر نمبر 2409

جب بھی پیسے ملتے تو کسی نہ کسی سینما کا رخ ضرور کرتے رھے تھے. اس وقت انڈیا کی کافی فلمیں دیکھ لیں تھی. دلیپ کمار، راجکپور، دیوانند، اشوک کمار، کشور کمار، پریم ناتھ، پران، اجیت کی فلمیں سرفہرت تھیں

Arif Chishti عارف چشتی جمعرات 6 اگست 2020

زندگی کا سفر بھی عجیب ھے جب کسی کا اپنا عزیز یا دوست دنیا سے رخصت ھو جاتا ھے تو کچھ عرصہ سوگ کے بعد آخر صبر آجاتا ھے اور یاد آنے پر دعا کے لئے ھاتھ اٹھ جاتے ہیں، لیکن جو زندہ ھی زندگی میں ھمیشہ بچھڑ جاتے ھیں، انکا کرب تنہائی میں بہت ستاتا ھے. سکول کے کئی ساتھی تو بچھڑ گئے تھے، کچھ کبھی کبھی راہ چلتے مل جایا کرتے تھے.
اچانک ایک روز الیاس نے آ کر بجلی گرا دی کہ اسے بنک میں نوکری مل گئی ھے اور وہ سرحد (موجودہ کے پی کے) جا رھا ھے.
وہ مائیگریشن سرٹیفکیٹ جاری کروا کر ھمیشہ کے لئے چلا گیا. دو ماہ کی گرمیوں کی چھٹیوں میں بابا جی مصطفیٰ صاحب اور تایا شفیع صاحب گوجرہ سے ملنے آئے ھوئے تھے. مجھے گائوں دیکھنے کا بہت اشتیاق تھا. والد صاحب نے اجازت دے دی. ھم پہلے لاری میں ڈسکہ پہنچے جہاں شدید بارش ھو چکی تھی. وھاں سے نہر کے ساتھ ساتھ دس میل کا فاصلہ تھا. سڑک تو تھی نہیں کچا راستہ تھا، جو دلدل بن چکا تھا.
وھیں ایک دوکاندار سے معلوم کیا کہ تانگے چل رھے ھیں یا نہیں، اس نے نفی میں جواب دیا. بابا جی اور تایا صاحب تو ایسے حالات میں بھی پیدل چلنے کے عادی تھے. میرا چھوٹا سا ٹرنک تایا صاحب نے سر پر رکھا اور نصیحت کی کہ ھم جا رھے ھیں، تم ھمارے پیچھے پیچھے اھستہ آتے جانا، گوجرہ پہنچ کر وہ کسی کو سائیکل دیکر بھیج دیں گے پریشان نہ ھونا. مرتا کیا نہ کرتا اپنے آپ کو کوستا رھا کہ سارا ھی مزہ کرکرا ھو گیا.
پھسلن اتنی تھی کہ جیسے سکیٹنگ کر رھا ھوں اوپر بارش الگ ھو رھی تھی. وہ دونوں تو چلتے چلتے نظروں سے اوجھل ھو گئے تھے اور میری پریشانی بڑھتی جا رھی تھی. کم از کم دو میل شلوار اوپر کئے چلا ھونگا کہ ایک تانگہ دلدل میں پھنسا ھوا نظر آیا. تانگہ بان نے کہا کہ جب تک چار پانچ افراد زور نہ لگائیں گے، تانگہ دلدل سے نہیں نکل سکتا اسلئے پیدل ھی سفر جاری رکھو.
پھسلن کی وجہ سے میں بیٹھ گیا کیونکہ نہر میں گرنے کا خطرہ تھا. پندرہ منٹ کے بعد دور سے کسی کے آنے کی شباعت پڑی. قریب آنے پر معلوم کہ وہ ایک گوالا ھے اور تایا صاحب کی ھدایت پر مجھے لینے کے لئے آیا ھے. اسکی سائیکل مٹی میں لت پت تھی. میں اسکے کیریئر فریم پر بیٹھ گیا، کپڑوں کا حال کیا تھا مت پوچھیں. بمباوالی ھیڈ ورکس پر پہنچ کر پرلی طرف ڈھلوان میں گوجرہ گائوں نظر آرھا تھا.
اب تسلی ھوئی کے سب خیر ھے. گھر پہنچ کر تایا جی کی فیملی سے ملاقات ھوئی وہ بہت خوش تھے کہ میں نے انکی دیرینہ خواہش پوری کردی تھی. گھروں میں نہانے و غسل کرنے کا کوئی انتطام نہیں تھا. مجھے نہانے اور کپڑے بدلنے کے لئے گائوں کی مسجد کے سکاوے لے جایا گیا، کزن سعید گونگا تولیہ اور کپڑے لے کر باھر کھڑا رھا. موجدین کنویں سے پانی نکال کر سکاوے کی ٹینکی میں پانی ڈالتا رھا.
نہا کر گھر آئے تو کھانا تیار تھا. ساگ اور مکئی کی روٹی اور خالص دودھ کی لسی خوب مزے سے تناول کی. اتنے میں چچا مشتاق، اسلم، مولوی اور انور بھی آگئے. وہ بہت ھی خوش تھے. سب سے زیادہ لگائو چچا مشتاق سے تھا، جو اپنی مثال آپ تھی. انکی گائوں میں درزی کی دوکان تھی اور پورا گائوں ان سے ھی کپڑے سلواتا تھا. سوائے ایک دو گھروں کے تمام گھر کچے تھے.
گرمیوں کی وجہ سے سب کھلی چھتوں پر سوتے تھے. قصے کہانیوں کا دور چلتا تھا. ناشتہ دیسی گھی کی چوپڑے پراٹھے اور لسی سے ھوتا تھا. کبھی سوجی کا حلوہ اور چوپڑی روٹی ھوتی تھی. صبح موجدین کی کریانہ کی دوکان پر بیٹھ جاتا تھا تو گائوں والے آکر خوب آئو بھگت سے آکر ملتے تھے اور شہر کی باتیں سن کر محظوظ ھوتے تھے. یوں سمجھیں میں ایک وی آئی مہمان تھا.
دوپہر سے شام تک چچا مشتاق کی دوکان پر رھتا تھا. کوئی آم لا رھا ھوتا تھا تو کوئی کھجوریں، کوئی مکئی یا سفید بھنے چنوں کی بھری چنگیریں. محبت میں وہ اتنے بڑھ چکے تھے کہ مجھے جن تصور کرتے تھے. بس ھر کوئی کھانے کے لئے کچھ لے آتا تھا. کماد کے کھیت سے رو (گنے کا رس) ڈول بھر کر آجاتا تھا. نتیجہ موشن لگ گئے اور دھی کا استعمال کرنا پڑا. شام کو قریب ھی ایک بہت بڑے میدان میں کبڈی کے مقابلے ھوتے تھے، دیکھ کر بہت مزہ آتا تھا.
جمعہ کے روز شام کو کشتیوں کے مقابلے ھوتے تھے. سب پہلوان ڈھول کی تاپ پر اپنے اپنے حواریوں کے ساتھ آتے تھے.
کبھی کبھی دوپہر کو کسی مزارع کے ساتھ ھل چلاتے یا کوڈی کرتے دیکھنے چلا جاتا تھا. انتہائی مشقت کا کام ھوتا تھا. کچھ دور کے عزیز کڑتل رھتے تھے ایک دن سائیکلوں پر وھاں بھی جانا ھوا. گائوں میں سائیکل چلانے کا عجب ھی مزہ تھا. کڑتل کے کچھ عزیز جن میں سعید اور حفیظ شامل تھے بعد میں لاھور منتقل ھوگئے تھے اور انہوں نے صدر بازار لاہور کینٹ میں میڈیکل سٹورز پر نوکری کر لی تھی.
پندرہ دن ایسے ھی گزر گئے. اتنا دل لگ گیا تھا، کہ واپسی کو دل ھی نہ کرتا تھا.واپسی پر محلے کے دوستوں نے بتایا کہ صدر بازار لاہور کینٹ کے تمام محلوں سے کچھ کرکٹ کھیلنے والوں سے مشاورت ھوئی ھے، کہ ایک باقاعدہ کرکٹ ٹیم بنائی جائے. سب مل کر ماھانہ خرچہ کریں گے اور مجھے سیکریٹری بنایا جائے گا. نواز، ذوالفقار، شریف، عبدالقیوم، نونی بٹ، مبارک، فضل الرحمن کے علاوہ دیگر محلوں سے ٹیم کا چناؤ ھوا تھا.
نیٹ، پیڈز، گلووز، بیٹس اور ھارڈ بال کی خریداری کے بعد شام چار بجے کینٹ سکول نمبر 01 کی شمالی گراؤنڈ میں باقاعدہ پریکٹس شروع کردی گئی تھی .پریکٹس کے بعد سارا سامان میرے ڈرائینگ روم میں رکھا جاتا تھا.
سب نے سفید کٹس بھی سلوا لیں تھیں اور ناز کرکٹ کلب کا سٹار بیج بھی بلیو کیپس پر بنوا لیا تھا. دھرمپورہ اور مغلپورہ کی کرکٹ ٹیموں سے کافی مقابلہ کے بعد میچز بھی جیتے تھے. عادتاً والد صاحب نے ڈانٹ ڈپٹ شروع کردی تھی. کہ وقت صرف ھونے کی وجہ سے پڑھائی کا حرج ھو رھا تھا. ایک دن پریکٹس کے دوران، ایک فل ٹاس بال سے میرا دایاں پائوں شدید زخمی ھو گیا تھا اور کئی دنوں تک پہلوان سے پٹی کروانا پڑی تھی.
دو ماہ کی چھٹیاں بھی ختم ہو چکی تھیں ، اس لئے پڑھائی کی مصروفیت کی وجہ سے دیگر دوستوں نے بھی سستی دکھانا شروع کردی تھی.
صرف چھ ماہ تک ٹیم برقرار رھی.کالج کھلے تو الیاس کی یاد آئی لیکن بے سود. ھم میرے پاس کالج جانے کے تین روٹس تھے، جن سے ھو کر میں کالج جاتا تھا. پہلا دھرمپورہ سے سندرداس روڈ، ڈیوس روڈ، شملہ پہاڑی، قلعہ گوجر سنگھ، دوسرا گڑھی شاھو، کوئینز روڈ، شملہ پہاڑی، قلعہ گوجر سنگھ، تیسرا گڑھی شاھو، ریلوے اسٹیشن، چوک دالگراں. مرضی کے مطابق جو روٹ مناسب سمجھتا سائیکل کا رخ ادھر موڑ دیتا تھا.
جب کبھی کزن صلاح الدین کی دوکان پر جانا ھوتا تو مال روڈ کا روٹ اپناتا تھا. کبھی کبھی رحمان پورہ جانا ھوتا تو ٹمپل روڈ سے اچھرہ کا روٹ استعمال کرنا پڑتا تھا. سفر کافی لمبا ھو جاتا تھا، لیکن خالہ کنیز کے ھاں کچھ آرام کے بعد تھکان نہیں ھوتی تھی.صلاح الدین کی بڑی بہن کی شادی مظہر بھائی سے ھوئی تھی جو گوالمنڈی میرے گھر کے پاس ھی رھتے تھے.
کبھی کبھی انکے ھاں بھی چکر لگ جاتا تھا. یہ انکی محبت تھی مظہر بھائی ھارٹ پیشنٹ تھے اور خون کی ترسیل ٹانگوں تک نہیں ھوتی تھی، اسلئے زیادہ تر بیمار ھی رھتے تھے.اب روٹین بدل گئی تھی. کالج سے جو ھوم ورک ملتا تھا، وہ مجاھد مرزا کے گھر آکر ایک دوسرے سے تعاون کے بعد مکمل کرتے تھے. اس کی والدہ ستیلی تھی، لیکن جب تک اسکےستیلے بہن بھائی جوان نہ ھوئے تھے اس وقت تک بہت پیار محبت رھا.
اب ان سے کافی مانوس ھو چکا تھا. دوپہر کا کھانا بھی کبھی کبھی کھا لیتا تھا.
جب بھی پیسے ملتے تو کسی نہ کسی سینما کا رخ ضرور کرتے رھے تھے. اس وقت انڈیا کی کافی فلمیں دیکھ لیں تھی. دلیپ کمار، راجکپور، دیوانند، اشوک کمار، کشور کمار، پریم ناتھ، پران، اجیت کی فلمیں سرفہرت تھیں. دیوانند کی فلم 'جال' ریلیز ھونے کے بعد انڈین فلموں پر پابندی لگ گئی تھی.
اسکے علاوہ انگلش فلمیں کافی دیکھیں جس میں مارلن برینڈو، انتھونی کوئین، فرینک سناٹرا، گریگری پیک، جین میریس، ٹونی کرٹس، راجر مور، برٹ لنکاسٹر، عمر شریف، رابرٹ شاہ، سین کونری، جم برائون، ڈیوڈ نیون، وکٹر میچور، سٹیفن بائیڈ، ایسٹ کلائینٹ وڈ، اولیور رئیڈ وغیرہ. پاکستانی فلموں میں سنتوش کمار، سدھیر، اسلم پرویز، درپن، علائوالدین، کمال، حبیب، اعجاز، وحید مراد، محمد علی، طالش، یوسف خان، ظریف، منور ظریف، لہری، رنگیلا، سلطان راھی اور درجنوں دیگر اداکاروں کی فلمیں گاھے بگاھے دیکھی تھیں.
عیدالاضحٰی پر محلے داروں کے ھمراہ جہانگیر کے مقبرے کی سیر کا پروگرام بن گیا.
گھر سے سب کچھ پکا کر اومنی بس نمبر 8 میں بیٹھ کر ڈیڑھ گھنٹے میں مقبرے پہنچے. خوب ھلا گلا کیا. ایک بڑے خالی فوارے میں ٹویٹس ڈانس کا مقابلہ ھو رھا تھا. زیادہ تر اندرون لاھور کے لڑکے ڈانس کر رھے تھے. مجھے محلے داروں نے شہہ دیکر مقابلہ پر اتار دیا. پہلے تو ھچکچایا پھر جوش میں آکر صحیح ڈگھر پر سٹپنگ شروع کردی. میرے ساتھی بک اپ کرتے رھے. مقابلہ چلتا رھا.
ایک ایک کر کے دیگر لڑکے آؤٹ ھوتے گئے. صرف ایک لڑکا مقابلہ پر ڈٹا رھا. میرا جسم گرم ھونا شروع گیا تھا، لیکن میں ڈٹا رھا، اب تو آنکھوں میں سرخی آنے لگ گئی تھی. لوگ پیسے بھی ھم پر پھینک رھے تھے. آخر وہ مقابلہ میں نے جیت لیا. واہ واہ ھوگئی لیکن میں آدھ گھنٹے تک گھاس پر لیٹ کر اپنے حواس میں آنے کی کوشش کرتا رھا تھا. میرے منہہ میں فضل ٹھنڈا پانی ڈالتا رھا تھا.
وہ ایک بہت ھی یادگار دن تھا. پھر بیڈمنٹن میں مصروف ھو گئے خوب مزہ آیا. کھانا کھا کر نورجہاں کے مزار پر گئے اور شام کو گھر واپسی ھوئی.ھمارے گھر سے دو گھر چھوڑ کر ایک فیملی اپنے ھی رشتہ داروں کے ھاں آ کر ٹھہری تھی. ماں باپ کے علاوہ تین لڑکیاں تھیں اور ایک چھوٹا لڑکا.لڑکے نے مجھ سے فری ٹیوشن پڑھنا کردی تھی، کیونکہ اسکی والدہ نے دوسرے محلے کے بچوں کو پڑھتے دیکھ لیا تھا .
اسکی ماں آنٹی کبھی کبھی مجھ سے سودا سلف منگوا لیتی تھی. رواداری میں، میں انکار نہ کر سکتا تھا. ایک دو دفعہ انکے ھمراہ گلوب سینما میں فلمیں بھی دیکھنے کا موقع ملا تھا. اگست 1964 میں ایک اھم موڑ یک دم آگیا، جو سوچا بھی نہ تھا. ماسی مہراں گوالن تقریباً ایک درجن گائیں بھینسیں لیکر گھاس منڈی آتی تھی. کوئی نہ کوئی گائے گلی میں آجاتی تھی. آنٹی کی بڑی بیٹی سکول سے آرھی تھی، کہ گلی میں پہلے سے موجود گائے کو چھیڑ بیٹھی، گائے نے سر گھمایا لیکن وہ پیچھے ھٹ کر بچ گئی.
میں یہ منظر دیکھ رھا تھا، بس یہ کہہ بیٹھا ایسے پنگا نہیں لینا چاہئے سینگ لگ جاتا تو زخمی ھو جاتی. اس نے بلا سوچے سمجھے ردعمل کے طور پر شٹ اپ کہہ دیا. بس وہ موڑ تھا، جو کچھ کچھ ھوتا ھے میں بدل گیا. میری اس سے پہلے کسی میں کوئی دلچسپی نہ تھی. اب میں نے بھی انا کا مسئلہ بنا لیا کہ انسانی روا داری بھی کوئی چیز ھوتی ھے. اس نے تکبر میں آکر مجھے شٹ اپ کیوں کہا.
میں نے فضل الرحمن لنگوٹیے کو اعتماد میں لیکر روداد سنائی. اس نے مکمل طور پر ساتھ دینے کی ھامی بھری یہ کہتے ھوئے، کہ آخر تم بھی کچھ کچھ ھوتا کے جال میں پھنس گئے نا بچو. کالج جا کر مجاھد مرزا سے بھی اس سلسلہ میں بات ھوئی اسنے بھی فضل الرحمن کی بات کی تائید کر دی. اب جب بھی وہ سکول جاتی، میں جان بوجھ کر کالج جانے کے لئے تیار ھو کر، اپنے دروازے پر اسکا انتظار کرتا تھا.
کہتا کچھ نہ تھا بلکہ اسکو یہ احساس دلا رھا تھا کہ تم نے مجھے دلچسپی پر خود اکسایا ھے اب فیصلہ آنے والا وقت کرے گا. وہ آٹھویں کلاس میں پڑھتی تھی. اس کو اس بات کا ادراک ھو چکا تھا کہ اسکی حرکات و سکنات پر میری نظر رھتی ھے. اس بات کا اس نے اپنی والدہ سے ذکر نہیں کیا تھا، جو کہ مجھ سے اب کافی انسیت رکھتی تھیں. بلکہ اس کچھ کچھ ھوتا ھے کے واقعے کے بعد انہوں نے مجھے ایک وحید مراد کی فلم بھی دکھائی تھی. اس کی چھوٹی خالہ کا ھمارے ھاں کافی آنا جانا تھا. اس لئے میں نے ان سے گلہ کیا، انکی نصیحت تھی کہ خاندان میں وہ لڑکی نک چڑی ھے اسلئے درگزر کرو، میں تمھارے ساتھ ھوں اسے طریقے سے سمجھا دوں گی�

(جاری ہے)

� جاری ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles