Dosti - Article No. 944

Dosti

دوستی - تحریر نمبر 944

یہ حیثیت تھی میری،میری دوستوں میں۔جو آج ہوا کیا یہ سب میری دوستوں کو کرنا چاہیے تھا؟میرا نہیں تو کم از کم دوستی کا ہی کچھ لحاظ کر لیتیں ۔کیا بگاڑا تھا میں نے ان کا۔۔۔

ہفتہ 22 اگست 2015

خدیجہ مغل:
یہ حیثیت تھی میری،میری دوستوں میں۔جو آج ہوا کیا یہ سب میری دوستوں کو کرنا چاہیے تھا؟میرا نہیں تو کم از کم دوستی کا ہی کچھ لحاظ کر لیتیں ۔کیا بگاڑا تھا میں نے ان کا جو اتنی بڑی سزا دے دے مجھے،غلطی کی ہوتی تو میں اعتراف کر لیتی لیکن ایسا کیوں کیا۔۔۔؟کیوں اسکے ذہن میں طرح طرح کے سوالات اٹھ رہے تھے مگر اسکے پاس ان سب کا جواب نہیں تھا ۔
کون تھا اسکا اپنا سب اسکا ساتھ چھوڑ گئے تھے ۔
اسے کبھی اپنی دوستوں پہ فخر ہوا کرتا تھااور آج۔۔۔آج اسکی دوستوں نے اسکی عزت مٹی میں ملا دی تھی،وہ انہیں روکتی رہی،اپنی دوستی کے واسطے دیتی رہی مگر کسی نے بھی اسکی کوئی بات نہ سُنی۔۔
اسکا بدن ہولے ہولے کانپ رہا تھا۔غم سے نڈھال اسکی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہوتی جارہی تھیں۔

(جاری ہے)

سانسیں رکتی جارہی تھیں،دل کی دھڑکن بند ہورہی تھی ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ بے جان سی ہو گئی ہو ۔

بالآخر اسکا کانپتا جسم ساکت و جامد ہو گیا اسکی رکی ہوئی سانسیں اسکی زندگی ختم ہونے کی گواہی دے ہی تھیں۔۔
#۔۔۔۔#
بھوک لگی ہے یار کچھ کھلا دو نا۔۔وہ تینوں جیسے ہی کلاس لے کر باہر آئیں نیناں بولی
ناشتی کرکے نہیں آئی تھی تم؟صبا بولی
نہیں یار میں لیٹ ہو گئی تھی۔اب مجھے بہت بھوک لگی ہے پلیز کچھ کھلا دو نا۔۔ملیحہ
ملیحہ جو گیم کھیلنے میں مگن تھی،گیم بند کرکے وہ نیناں کی طرف متوجہ ہوئی
تم لوگوں کو روز کا کھانا کھلانے کا ٹھیکہ کیا میں نے اٹھا رکھا ہے؟کبھی دو پیسے لے آیا کرو ۔
مانگا نہیں کرتے
آں۔۔۔اب تم کماتی ہو تو زیادہ رُعب مت بناؤ ہم پہ سمجھی۔۔۔ایک دن کیا کھلا دیا ۔تم تو پیچھے ہی پڑگئی ہو۔۔نیناں نے بھی اسے منہ توڑ جواب دیا
تھیک ہے کھاؤ مجھے بھوک نہیں ہے۔میں اگلی کلاس لینے جارہی ہوں۔جب کھانا کھا چکو تو کلاس میں آجانا۔بیگ دوسرے کندھے پہ ڈالتی واپس مڑ گئی
اسے اچانک ہی پتہ نہیں کیا ہو جاتا ہے۔
خیر ہمیں کیا آؤ ہم ناشتہ کریں۔نیناں صبا کا بازو پکڑتے آگے بڑھ گئی۔
نیناں ،صبا اور ملیحہ تینوں کی دوستی ایسی ہی تھی۔ملیحہ کی کبھی بھی نیناں سے نہیں بنی تھی۔اسکی وجہ شاید یہ تھی کہ نیناں کو ہر وقت مانگنے کی بری عادت تھی اور ملیحہ اسے اچھا نہیں سمجھتی تھی۔
تھوڑے عرصے کے لیے وہ اس سے ناراض بھی ہوجایا کرتی تھی اور نیناں خود اسے منا بھی لیتی تھی مگر نیناں کی خود پرستی دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی۔
وہ ملیحہ کی جاب سے جیلس ہوا کرتی تھی ۔ملیحہ پڑھائی کے ساتھ ساتھ معمولی سی جاب بھی کررہی تھی۔اسکی قسمت اچھی تھی جو اسے جاب مل گئی تھی ورنہ وہ بے چاری کیا کرتی۔۔۔؟وہ نہیں جانتی تھی اسکی دوست ایسی حاسد ہے اس سے۔۔
ناشتہ کرنے کے بعد وہ ابھی تک کینٹین پہ ہی بیٹھی ہوئی تھیں۔ملیحہ انہیں بلانے آئے تھی۔
ناشتہ کر لیا ہے ہم نے،تمھارے پیسوں پہ نہیں بیٹھے ہم ،نیناں کے الفاظ اسے سلگا گئے وہ چپ رہی۔

تم لوگوں نے کلاس نہیں لینی؟
لینی ہے۔۔صبا بولی
تو آجاؤ۔۔۔میں تمھیں ہی بلانے آئی ہوں۔
تم ہم پہ احسان مت کیا کرو ۔ہمیں پتہ ہے ہماری کلاس کب ہے،بتانے کی ضرورت نہیں ہے،نیناں کا غصہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہو اتھا۔
کوئی بات نہیں نیناں۔اگر بلانے آگئی ہے تو کیا ہو گیا ہے؟صبا آرام سے بولی
چلو اچھا ہے اگر بلانے آگئی ہے تو۔
چلو چلتے ہیں۔
تینوں ایک ساتھ چلتی ہوئیں کلاس کی طرف بڑھ گئیں۔یہ ان کا روز کا معمول تھا ۔
یار فائنل ایگزامز ہونے والے ہیں ،کیسی تیاری ہے تم لوگوں کی؟لان میں بیٹھی نوٹس بناتی صبانے ملیحہ سے پوچھا
محنت تو کررہے ہیں ۔اب دیکھو کیابنتا ہے؟
یار میں ایک بات سوچ رہی ہوں ۔نیناں نے چاکلیٹ کا ریپر کھولتے ہوئے کہا
کیا۔۔۔
؟صبا بولی
آج ہمیں باہر جانا چاہیے۔
واؤ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔صبا چہکی
اپنی دوست سے پوچھ لو وہ مان جائے گئی؟نیناں نے ملیحہ کی طرف اشارہ کیا
تم اچھی طرح سے جانتی ہو میں نہیں جا سکتی ۔ملیحہ نے پہلے ہی جواب دے دیا
یار کب تک ایسے کرو گی؟کبھی تو ہمارے ساتھ آجایا کرو۔صبا نروٹھے پن سے بولی
نہیں یار۔۔ناراض مت ہونا۔
میں نہیں آسکتی۔
پل میں وہ دونوں باہر جانے کو تیار ہو گئیں۔ان دونوں کو اپنے سے دور جاتا دیکھ کر ملیحہ نے افسوس سے سوچا ۔کاش انہیں وقت کا احساس ہو جائے۔شکستہ دل کے ساتھ وہ اٹھتی ہوئی اسٹاپ کی طرف آگئی ۔
بات یہ نہیں تھی کہ ان کے لڑکوں سے میل ملاپ تھے ،وہ دونوں حد سے زیادہ چالاک اور انتہائی بگڑی ہوئی لڑکیاں تھیں ۔اسوقت اس کا سوچ سوچ کر دماغ خراب ہو رہا تھا نہ جانے کیا بنے گا ان کا ۔

انہی سوچوں میں گری وہ گھر آگئی ۔گھر آکر ایک نئا ڈرامہ اسکا منتظر تھا۔
بیٹا۔۔آپ نے نیناں سے کچھ پیسے اُدھار لیے تھے؟
نہیں مما؟مجھے کیا ضرورت ہے پیسوں کی۔میرے پاس تو پہلے سے ہی ہیں۔
نیناں اور صبا ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آئی تھیں کہہ رہی تھیں تم نے نیناں سے۔۔۔
بس ۔۔۔مما۔۔۔میں آپکو ایسی لگتی ہوں ۔اگر مجھے پیسے چاہیے ہوتے تو میں آپ سے مانگتی ان سے مانگنے کی کبھی غلطی نہ کرتی۔
یہ دیکھیں ابھی بھی میرے پاس اتنے پیسے موجود ہیں۔اس نے اپنا پرس مما کے سامنے الٹ دیا۔۔مما خاموش ہو گئیں
آج کے بعد وہ میرے گھر نہ آئیں ۔ورنہ میں نہیں رہوں گی۔اسے غصہ آگیا تھا۔اتنی گھٹیا ھرکت کی آج انہوں نے۔
بیٹا ہوا کیا ہے؟مجھے نہیں بتاؤ گئی۔
مما وہ میری دوستیں نہیں ہیں۔انہوں نے مجھے صرف استعمال کیا ہے۔یہ میں اچھی طرح سے جانتی ہوں ۔
انہیں میری پروا نہیں ہے انہیں بس اپنے پیٹ کی بھوک کی فکر رہتی ہے ۔
اور آج مجھے بدنام کرنے میرے گھر آگئیں۔میں نے تو ایسی دوستوں کی کبھی خواہش ہی نہ کی تھی۔خیر کل جا کر میں ان سے اچھی طرح پوچھ لوں گئی۔آپ نے کچھ دیا تو نہیں ۔۔۔؟
بیٹا!انہوں نے اتنا زور ڈالا کہ مجھے پیسے دینے پڑے۔کہہ رہی تھیں ہمیں ارجنٹ ضرورت ہے۔
شِٹ۔۔آپ نے کیوں دے دیے۔
ملیحہ کو اور غصہ آنے لگا
بیٹا مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ ایسی ہیں ۔پتہ ہوتا تو کبھی بھی نہ دیتی۔چلو کوئی بات نہیں ۔آئندہ خیال رکھوں گی۔اب تم فریش ہو جاؤ اور میں تمھارے لیے کھانا لاتی ہوں ۔
اسکا موڈ خوشگوارکرنے کے لیے مما کو کچھ تو کرنا ہی تھا۔
اوکے ماما۔۔
#۔۔۔۔#
وہ دونوں اسوقت بازار سے شاپنگ کرکے لوٹ رہی تھیں کہ نیناں کی نظر بھائی پہ پڑی۔
۔نیناں کا گویاسانس ہی اٹک گیا۔وہ رکشہ میں بیٹھی ہوئی تھی
ڈونٹ وری یار میں بھی تو تمھارے ساتھ ہوں۔اور ویسے بھی تم کون سا کسی لڑکے کے ساتھ ہو۔صبا نے نقاب درست کرتے ہوئے کہاجبکہ نیناں پریشانی کے مارے چپ کی چپ تھی۔اگر بھائی نے پوچھ لیا تو؟
کہہ دینا میرے ساتھ گئی تھی۔صبانے تنفر سے جواب دیا
گھر پہنچتے ہی وہ اپنے کمرے میں گھس گئی اور مخصوص سامان ٹھکانے لگانے لگی۔
پریشانی سے پسینے آرہے تھے مگر اسے فکر ہی کہاں تھی۔سب کام مکمل کرکے وہ کچن کی جانب آگئی۔
ہو سکتا ہے بھائی مجھ سے نہ پوچھیں یا بھائی نے مجھے دیکھا ہی نہ ہو۔وہ سوچ رہی تھی کہ بھائی نے اسے آواز دی
اُف خدایا۔۔۔میری مدد کرنا
جی۔۔۔جی بھائی۔۔۔گھبرائی ہوئی آواز میں بولی
ارے اپنی نیناں کو کیا ہو گیا ہے؟اتنی کمزور کیوں ہو گئی ہے؟بھائی اسکی آواز سنتے ہی بولے
نہیں بھائی میں ٹھیک ہوں۔
پیپرز ہو رہے ہیں نا۔۔۔تو اسی وجہ سے۔۔۔
گڈ۔۔۔مگر اپنی صحت پہ بھی توجہ کرنی چاہیے۔
جی بھائی۔۔۔
میں کھانا لگاؤں بھائی۔اس نے جان بچانے کے لیے کہا
ہاں ۔۔۔کیوں نہیں
ٹھیک ہے بھائی۔وہ شکر کرتی اٹھ گئی۔
کھانا کھانے کے بعد وہ اپنے کمرے میں آگئی ۔اس نے دراز سے اپنا مخصوص سامان نکالا اور بیڈ پہ آگئی۔اسے بے چاری ملیحہ پہ بے حد ہنسی آرہی تھی جسے اس نے بے حد آسانی سے لوٹ لیا تھا۔
جانتی تھی صبح وہ اس سے ناراض ہو گی۔لیکن اسکا جواب بھی اسکے پاس موجود تھا۔
اس نے ہولے سے سرنج بازو پہ رکھا۔۔۔اب سکون ملا تھا اور اب وہ سونے کی تیاری کرنے لگی تھی۔کیونکہ نید کا خمار حاوی ہو چکا تھا۔
صبح وہ جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئی ملیحہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔وہ سکون سے اسے دیکھتی رہی۔تم نے پیسے نہیں دیے تو ہم نے سوچا تمھاری مما بھی تمھاری طرح ہی رحمدل ہو نگیں اسی لیے ہم وہاں چلی گئیں۔
تمھیں برا لگا۔۔خبردار جو تم نے پیسوں کی بات بھی کی تو۔۔۔دوست ہیں ہم تمھاری۔کچھ شرم کرو۔
مجھے نہیں چائیں ایسی دوستیں۔جنھیں اپنی اور دوسروں کی عزت کا پتہ نہ ہو۔
لیکن ہمیں تو تمھاری ضرورت ہے نا۔۔صبا بھی چہرے پہ خباثت لائے بولی
چلو باہر جا کر بات کرتے ہیں۔نیناں نے اسکا بازو پکڑا
مجھے نہیں جانا کہیں تم لوگوں کے ساتھ ۔
آج کے بعد میں تم لوگوں کی دوست نہیں ہوں ۔سمجھیں
اوکے۔ہم تمھاری بات مانیں گے لیکن تمھیں بھی ہماری ایک بات ماننی ہو گی
وہ کیا۔۔؟ملیحہ ناسمجھی کے عالم میں بولی
نیناں سے بیگ سے مخصوص پرس نکالا اور ملیحہ کے سامنے کر دیا
یہ۔۔۔کہاں سے ملا تمھیں؟؟
تمھارے لیے لیا ہے۔یہ لو اور اسے ختم کرو ۔ابھی اور اسی وقت۔اگر تم ہماری دوست ہو تو۔
۔نیناں نے سگریٹ سلگا کر ملیحہ کی طرف کیا۔تم سمجھتی کیا ہو؟دنیا فتح کر لو گی؟ملیحہ نے ہاتھ مار کر سگریٹ نیچے گِرا دیااور پوری طاقت کے ساتھ نیناں کے منہ پہ تھپڑ مار دیا۔آتے جاتے اسٹوڈنٹس انہیں رک کر دیکھنے لگے تھے۔لعنت ہے تم دونوں پر۔تمھاری دوستی پر۔آج سے میرا تم دونوں سے رشتہ ختم۔سن لیا ۔ملیحہ کی آنکھوں میں آنسوآگئے وہ ایک پل میں وہاں سے دور جا چکی تھی اور وہ دونوں اسے جاتا دیکھ رہی تھیں۔
نیناں کے دل میں اسکے لیے بے پناہ نفرت جاگ اٹھی تھی۔
یہ کیسی زندگی تھی؟کیسی دوستیاں تھیں؟کیسے رشتے تھے؟جن کی کوئی قیمت نہ تھی ۔اگر کوئی قیمت تھی تو کیا قیمت تھی۔۔۔؟کیا رشتے اتنی آسانی سے بک جایا کرتے ہیں؟وہ سوچتی رہی
آج جو کچھ بھی ہوا وہ کبھی بھول نہیں سکتی تھی۔اس نے مما سے بات کی مما خود ان کی اس حرکت پہ حیران تھیں۔
اس نے مما کو وارن کردیا تھا کہ اگر نیناں اور صبا آئیں تو اندر ہی نہ آنے دیں۔

مما بھی سمجھ دار تھیں۔انہیں اپنی بیٹی پہ یقین تھا۔آج وہ بہت خوش تھیں ۔ان کی بیٹی نے غلط کام کو استعمال نہیں کیا تھا۔
لیکن کوئی قسمت کو تو نہیں جانتا کہ قسمت میں کیا ہونے والا ہے؟اچھا یا بُرا۔؟
اچھا بُرا تو اس زندگی میں ہوتا ہی رہتا ہے۔۔مگر اتنا بھی برا نہیں ہوتا جو ملیحہ کے ساتھ ہوا۔۔کیا ہو اتھا ملیحہ کے ساتھ؟؟؟آپ بھی ملاحضہ فرمائیں۔
۔۔
پیپرز کے بعد ملیحہ فارغ ہی رہتی تھی۔۔اس نے ایک کمپنی میں جاب کے لیے اپلائی کیا تھا۔اسے اُمید تھی وہ اسے بہت جلدی بلائیں گئے۔وہ اسی انتظار میں تھی۔مگر ہو کچھ اور گیا جس کا اس نے کبھی انتظار بھی نہ کیا تھا۔
نیناں اور صبااسکے گھر۔۔۔
وہ اچھل پڑی۔۔مما یہ کیوں آئیں ہیں میرے گھر؟
مما سے کیوں پوچھتی ہو۔ہم بتاتے ہیں تمھاری مما کو کہ تم کیسی لڑکی ہو؟کن کن لڑکوں سے تمھارے تعلقات تھے۔
سب کچھ چھوڑ کر آگیئں۔
تم کیا سمجھتی ہو ۔۔۔تم دنیا فتح کر لو گئی؟یہ بات یقینا نیناں اس دن والی کر رہی تھی اور اسے بہت کچھ یاد کروا رہی تھی۔
اور ملیحہ کو سب یاد تھا۔
یہ کیا بکواس ہے؟میرا کسی لڑکے سے کوئی تعلق نہیں تھا۔۔تم جھو ٹ بول رہی ہو۔
میں اور جھوٹ۔۔۔؟یہ کیسے ہو سکتا ہے؟خود دیکھ لو
جھٹ سے نیناں نے پرس سے چند تصاویر نکالیں اور اسکے سامنے کردیں۔
ملیحہ یہ سب دیکھ کر شاکڈ رہ گئی۔
نن۔۔۔نہیں ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔
اس تصویر کا عالم ہی کچھ ایسے تھا۔جو بھی دیکھتا دنگ رہ جاتا۔۔۔
اب دیکھیں آنٹی کتنی معصوم بن گئی ہے۔بازل نے مجھے خود بتایا ہے یہ سب۔اگر آپکو یقین نہ ہو تو میں آپکی بات کروا سکتی ہوں بازل سے۔۔نیناں نہایت مکاری سے بولی
میں کسی بازل کو نہیں جانتی۔۔۔میرا یقین کریں مما۔
ایسا کچھ نہیں۔میری کسی لڑکے سے کبھی بات ہی نہیں ہوئی۔یہ۔۔۔یہ جھوٹ بول رہی ہے۔
جھوٹ کیوں بولیں ہم۔لو خود ہی بات کر لو بازل سے۔جس کے ساتھ تم۔۔۔صبا نے بات ادھوری چھوڑ دی
تم نے خود ہی تو بتایا تھا کہ بازل بہت اچھا لڑکا ہے اور پھر تم کئی بار اس سے ملنے بھی تو گئی تھی۔نیناں کے دل میں نہ جانے کیا تھا جو اسے ذرا بھی رحم نہ آیا
مما آپ۔
۔۔آپ ان کی باتوں پہ مت جائیں۔یہ ایک نمبر کی مکاربازیاں کر رہی ہیں۔۔۔وہ مما کی طرف آئی مما نے اسکے ہاتھ جھٹرک دیے
مجھے اپنی صفائیاں پیش مت کرو۔تم نے جو کرنا تھا کر لیا۔میں نے تمھیں اس لیے نہیں بڑا کیا تھا کہ تم بڑے ہو کر اپنے ماں باپ کا نام بد نام کرو۔۔۔
آپ۔۔۔وہ حیران ہوئی۔مما آپ ان کی باتوں میں آگئیں ہیں۔میں نے کہا تھا نایہ اچھی لڑکیاں نہیں ہیں۔
اس نے مما کا بازو کھینچتے ہوئے کہا۔میں ایسی نہیں ہوں مما یقین کریں پلیز۔وہ رو رہی تھی
شکر ہے آنٹی ہمیں اسکی اصلیت کا جلدی پتہ لگ گیا ورنہ جانے اور کیا کرتی یہ۔۔نیناں اسے گھورتے ہوئے بولی
نیناں تم کس چیز کا بدلہ لے رہی ہو مجھ سے؟وہ روتے ہوئے اسکے پاس آئی
بدلہ۔۔اور میں۔۔۔مجھے کیا ضرورت پری کہ میں تم سے بدلہ لوں۔اور بدلہ لوں بھی تو کس چیز کا۔
۔۔
تمھارے پاس تو اتنے پیسے ہوتے تھے ہر وقت تمھارا پرس پیسوں سے بھرا رہتا تھا۔بازل نے سب بتایا ہے ہمیں۔وہی دیتا تھا تمھیں
صبا پلیز خدا کے لیے مجھے بچا لو۔۔۔ایک بار کہہ دو کہ یہ سب جھوٹ ہے۔پلیزاس نے اسکے سامنے ہاتھ جوڑ ڈالے مگر مجال ہے جو ان دونوں پہ کچھ اثر پڑا ہو۔۔۔
اسکا دھیان رکھیے گا۔ہم چلتے ہیں پھر کبھی آئیں گئے۔آنٹی آپ اپنا دل چھوٹا مت کریں ہم بھی آپکی بیٹیاں ہیں۔
۔گیٹ پہ آتے آتے وہ آنٹی سے باتیں کرتی آرہی تھیں۔۔
کمرے میں سوائے اسکی سسکیوں کے اور کچھ نہ تھا۔آج تم نے ہمارے اعتبار کو آگ لگا ڈالی ملیحہ۔کتنا ناز تھا ہمیں تم پر۔اور تم نے۔۔۔
میں بے گناہ ہوں۔۔میں کسی سے نہیں ملی مما۔۔۔
کوئی تو اسکی سچائی مانے۔آج اسکی زندگی بھی اسے مات دے گئی۔اس کی دوستوں نے اسے جینے کے قابل نہیں چھوڑا تھا۔۔
آج نیناں نے اس سے کیا اسی دن کا بدلہ لیا تھا یا اسے ذلیل کرنے کے لیے وہ یہاں آئیں تھیں۔
اسکا دل رُک سا گیا۔جسم بے جان ہو گیا تھا۔اسکی رکتی سانسیں اسکی موت کی گواہی دے رہی تھیں۔
یہ موت تھی یا ابدی زندگی ۔۔۔ جو اسے مارا گیا تھا کوئی تکلیف دے کر یا کوئی ستم کرکے۔۔۔
ختم شد!

Browse More Urdu Literature Articles