Fitrat Ka Alam - Article No. 1456

Fitrat Ka Alam

فطرت کا عالم - تحریر نمبر 1456

فلسفہ جہاد کیا ہے، جو چیز اللہ کی راہ میں ذبح کی جاتی ہے وہ بڑھ جاتی ہے، دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جو بڑھ رہی ہے اس کے پیچھے فلسفہ جہاد ہے

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی جمعہ 25 اگست 2017

عیدالاضحی کے تیسرے دن جب میں گاﺅں سے پہلی بار شہر میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے گھر سے نکلنے لگا تو میری ماں نے میرا ماتھا چوما، نم آنکھوں اور لرزتے ہونٹوں سے مگر مسکراتے ہوئے بولی پتر گاﺅں کے اکثر پنچھی شہر میں جا کر راستہ بھول جاتے ہیں۔ شہر مصنوعی زندگی کا میلہ ہوتے ہیں ”سفید چھڑی“ یاقوت اور ہیرے سے بھی بنی ہو آنکھوں کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔

پنچھی تو فطرت کے سفیر ہوتے ہیں، سنا ہے شہروں میں پرندے بکتے ہیں، فطرت کو بیچا نہیں کرتے، یہ سبق میں نے فنا کی کتاب سے پڑھا تھا جس کا دیباچہ دیمک نے لکھا تھا۔
پتر درسگاہیں روحانی کعبہ ہوتی ہیں، اس کا دل سے احترام کرنا، اس میں جوتوں سمیت داخل مت ہونا، اپنے ساتھیوں سے ہمیشہ ایثار اور قربانی کا تعلق رکھنا، پتر سوہنے رب کو قربانی بہت پسند ہے، معزز ہونے کے لیے قربانی سے مختصر راستہ کوئی نہیں۔

(جاری ہے)

پروردگار عالم کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی اتنی پسند آئی کہ اس نے اس کائنات میں بطور انعام تقسیم کو ضرب میں بدل دیا ہے، جتنا اللہ کی راہ میں قربان کرو گے، جتنا تقسیم کرو گے اس سے کئی گنا وصول کر لو گے۔
پتر میں آج خوش بھی ہوں اور اُداس بھی، خوش اس لیے کہ تو علم کے جہاد پر جا رہا ہے۔ فرمان مبارک ﷺ ہے جو طالب علم طالب علمی میں مارا گیا وہ شہید ہے، اُداس اس لیے کہ تو میری نظروں سے دور جا رہا ہے، ہجر اور انتظار کا دکھ دیکھنا ہو تو سوکھی ٹہنیوں کی طرف دیکھ لینا، رب نے ماں بھی کیا عجیب ہستی پیدا کی ہے لمحہ لمحہ جیتی ہے لمحہ لمحہ مرتی ہے۔
پتر اُداسی کی آنکھوں میں ہمیشہ گہری شام کے کاجل کی برسات رہتی ہے۔ علم کا غرور نہ کرنا، غرور اور شعود ایک دماغ میں اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ علم کی بارش ہمیشہ عاجزی کی کٹیا ہی میں برستی ہے۔ رب سے ہر لمحہ مانگتے رہا کرو، دعائیں دستک کی طرح ہوتی ہیں، جو لوگ دستک کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتے ان کے دامن خالی رہتے ہیں، اپنے رب سے چیزوں کی ہیّت کا نہیں فطرت کا علم مانگنا۔
جب میں نے دروازے سے پاﺅں باہر نکالا تو ماں بولی پتر جب تک دل چاہے شہر میں رہنا، چاہے تعلیم ختم ہونے کے بعد بھی، مگر جب شہر کے گنبد بے کبوتر ہو جائیں تو گاﺅں لوٹ آنا، گنبد پرندوں سے ویران ہو جائیں تو آسمانوں سے بلائیں اترنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اور پھر انسان کا یہ جنگل کتبوں جیسے چہرے لیے اپنی اپنی قبروں کی تلاش میں چل پڑتا ہے۔ سنو!
عطا صرف یقین والوں اور ادب والوں ہی کو کیا جاتا ہے اور عشق بن ادب نہیں آتا۔

اور پھر مجھے عشق ہو گیا
اس کا چہرہ جیسے کسی کھوئی ہوئی شب کا اُداس چاند، جس کی جاگتی ہوئی آنکھوں میں نیند سوئی رہتی ہے، موٹی موٹی لازوال آنکھیں جس کی پلکوں کے جھولنے سے صبح شام کا سفر جاری رہتا ہے۔
گونگے بہرے بچوں والی آنکھیں، جہاں ہونٹ نہیں آنکھیں بولتی ہیں۔
وہی لاجواب کر دینے والی سوالی آنکھیں۔
کبھی کبھی میرا دل چاہتا میں اُسے کہوں اپنے چہرے سے آنکھیں تو ہٹاﺅ میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔

مگر ایک انجانا سا خوف کہ
”محبت کی برسات میں اچانک شام ہو جایا کرتی ہے۔“
ہم یونیورسٹی میں ایک ہی کلاس میں تھے۔
ایک دن کہنے لگی:
تنویر مشتاق!
تم دوسروں سے مختلف کیوں ہو، تمہارے خواب تعبیر کی بھیڑ میں گم کیوں نہیں ہوتے، یہ محبت ہے یا تم نے کوئی فن سیکھا ہے۔
ایمان!
مجھے ایک ادنیٰ سا فن نہیں آتا جو شہروں میں سب کو آتا ہے، میری ماں نے مجھے وہ فن سیکھنے سے سختی سے منع کر دیا تھا۔

کیا؟؟
قصیدہ گوئی سلطان
ماں کہتی ہے اگر تم نے یہ فن سیکھ لیا تو تمہیں کوئی اور فن نہیں آئے گا۔ کہتی ہے یہ فن غلام سیکھتے ہیں، غلام آقاﺅں کے ہوں یا اپنی خواہش نفس کے، غلام اور غلامی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، غلام قومیں اپنی روٹی کے لیے کشکول کی طرف دیکھتی ہیں اور آزاد قوموں کا رزق نیزے کی نوک پر ہوتا ہے۔ جس کو اپنے پروں پر بھروسا ہو وہ پرندہ آشیانہ نہیں بناتا۔

مجھے اپنے ماں باپ کے متعلق کچھ بتاﺅ۔
میں نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا اور اپنی ماں کے علاوہ کسی کو نہیں دیکھا۔ میری ماں کہتی ہے جب تو دو سال کا تھا رب نے اسے اپنے پاس بلا لیا تھا۔ وہ اپنی آخری عمر میں ملکی حالات پر بہت پریشان رہتا تھا جیسے ہر تعلیم یافتہ، شریف النفس اور سمجھ دار انسان ایک غیر جمہوری ملک میں اذیت میں رہتا ہے اور میری ماں گاﺅں میں رہتی ہے میں اس کی دعاﺅں کے حصار میں رہتا ہوں۔
وہ میری جدائی میں اتنی کمزور اور دبلی ہو چکی ہے جیسے پاکستان میں جمہوریت۔
وہ مسکرانے لگی۔
مجھ سے غیر سیاسی باتیں کیا کرو۔
سیاست بری چیز نہیں، یہ خدمت کا دوسرا نام ہے۔ راہنما اگر راہزن بن جائیں تو سیاست ایوان اقتدار کی لونڈی بن جاتی ہے۔
تو میں بتا رہا تھا۔
میری ماں پڑھی لکھی نہیں مگر اس کی باتیں سن کر پڑھے لکھے بھی حیران ہو جاتے ہیں، اس کے ہونٹ قدیم صداقتوں کے امین تھے، بچپن میں ماں اور میں دونوں سارا دن ڈھیروں باتیں کرتے رہتے تھے، مجھے بہت کم باتوں کی سمجھ آتی تھی مگر میرا دل چاہتا تھا میری ماں مجھ سے یونہی باتیں کرتی رہے اور میری عمر بیت جائے، میری ماں محبت اور قربانی کا مرکب ہے۔
ایک رات کھلے آسمان کے نیچجے لیٹے اَن گنت بے شمار تاروں کو دیکھ کر میں نے ماں سے پوچھا ماں یہ چاند تارے، سورج اور دوسرے سیارے آپس میں ٹکراتے کیوں نہیں؟ ماں مسکرائی اور بولی پتر:
”مرکز ایک ہو تو کوئی بھی کسی سے نہیں ٹکراتا“
میں نے کہا ماں تجھے یہ ساری باتیں کون بتاتا ہے، تُو تو ایک دن بھی سکول نہیں گئی۔ ماں مسکرائی اور بولی:
من کا شیشہ صاف ہو تو ساری کائنات نظر آتی ہے۔
مجبور اور لاجواب ہونا ناپاک لوگوں کا مسئلہ ہے۔ پاکیزگی زمان و مکان سے انسان کو آزاد کر دیتی ہے۔ میں پڑھی لکھی نہیں بھی تو کیا ہوا مجھ پر سوہنے کملی والے کا کرم ہے جو سبز گنبد میں رہتا ہے، پتر مدینے والا پیغمبروں کی سلطنت کا شہنشاہ ہے، جب تیرا باپ، اللہ اس کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، لندن گیا تو وہاں اس نے سب لائبریریاں دیکھیں، مجھے کہنے لگا نیک بخت میں نے لاکھوں کتابوں کو ”اُمّی“ کے ایک لفظ کے آگے ہاتھ باندھے شرمندہ کھڑے دیکھا ہے۔
کہنے لگی پتر اب ایک ہی خواہش ہے تیرے سہرے کے بعد رب کا گھر دیکھوں اور سوہنے کا سبز گنبد دیکھوں، کہتی ، رنگ بولتے ہیں، ان میں صدا ہوتی ہے، نیلا رنگ کہتا ہے سبز رنگ کے غلام بن جاﺅ اور سبز رنگ کہتا ہے جو مجھ سے محبت کرے گا رحمت اور فلاح کا حقدار بن جائے گا۔ باپ کا سایہ نہ ہونے کی وجہ سے جب میں دل کے میلے میں موت کا کنواں لگا کر خوفزدہ اور سہما بیٹھا ہوتا تو ماں مجھے دیکھ کر تڑپ جاتی، مجھے گلے لگاتی، پیار کرتی، دعائیں دیتی اورپھر مجھ سے اتنی باتیں کرتی کہ میں اُس کی باتوں کی برسات میں بھیگ جاتا اور پھر ساتھ وہ اللہ کا ذکر بھی کرتی جاتی اور میں بڑا ہونے لگ جاتا اور پھر کچھ دیر کے بعد مجھے لگتا میرا قد بادلوں کو چھونے لگ گیا ہے، میرے اندر اتنی طاقت اور علم آ گیا ہے کہ میں تنہا ملکہ سبا کا تخت اُٹھا کر لا سکتا ہوں۔
ایک دن میں نے ماں سے پوچھا ماں جب میں اندر سے کمزور ہو جاتا ہوں، تم مجھے لمحوں میں کیسے اتنا بڑا اور طاقتور کر دیتی ہو؟ کیا تمہیں جادو آتا ہے۔ ماں مسکرائی اور بولی پتر یہ جادو نہیں۔
دعا، توجہ، اُمید اور اللہ کا ذکر انسانوں کو بڑا کر دیتا ہے۔ کہتی ہے شکوے کی جگہ شُکر کو لے آﺅ اور انا اور تکبر سے بڑا شرک کوئی نہیں۔
وقت کا پنچھی اُڑتا رہا، میرے دل کے مندر میں ایمان اور میری ماں کی یادوں کے بت پڑے ہوئے تھے۔
ماں کہتی ہے جس دن تمہیں یہ معلوم ہو گیا کہ عبادت اور پوجا میں کیا فرق ہے اس دن تم علم والے بن جاﺅ گے۔
میری تعلیم مکمل ہو گئی تھی۔ اب میں واپس اپنے گاﺅں جانا چاہتا تھا، میں دو کشتیوں کا مسافر تھا، ایک طرف میرا عشق تھا اور دوسری طرف میری ماں اور میرا گاﺅں تھا۔ ماں کہتی ہے: شہر طلسمی اثر میں رہتے ہیں، شہروں میں آدمی رفتہ رفتہ بے حس ہونے لگتا ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح بچہ کہانی سنتے سنتے سونے لگتا ہے۔

ایمان کا اصرار تھا کہ ہم شہر ہی میں رہیں گے، ماں جی کو بھی شہر ہی میں بلا لیں گے مگر میں گاﺅں کا سرسبز جنگل چھوڑ کر شہر کی آلائشوں کے ساتھ نہیں رہنا چاہتا تھا۔ میرا اور ایمان کا تعلق بھی عجیب تھا، نہ اُس نے مجھے قید کیا نہ میں نے رہائی لی۔
پھرمیں نے ایک فیصلہ کیا۔
اگرچہ ایمان کی آنکھیں جاگی ہوئی رات کا فسانہ سنا رہی تھیں مگر میں نے بولنا شروع کیا۔

دیکھو ایمان!
چاند کو دن کا سفر اچھا نہیں لگتا، مجھے ترقی کا وہ آب حیات نہیں چاہیے جو میری ماں کے دکھ کے پیالے میں دیا جائے، کل میں نے شہر کے سب گنبدوں کو بے کبوتر دیکھا ہے، میری ماں نے مجھے کہا تھا جب تک دل چاہے شہر میں رہنا مگر جب گنبد بے کبوتر اور پرندوں سے ویراں ہو جائیں واپس لوٹ آنا، ویران گنبد آسمان کو اچھے نہیں لگتے۔
ہر دور کا اپنا ایک سچ ہوتا ہے اور میرے دور کا سچ جھوٹ ہے، فطرت سے دوری جھوٹ کا نام ہے۔ مجھے کاغذ کے پھول اچھے نہیں لگتے۔ بچپن میں اکثر سنتا تھا کسی مزدور کا ہاتھ مشین میں آ کر کٹ گیا پھر مجھے مشینوں سے نفرت ہو گئی، شہروں میں یا تو مشینیں ہوتی ہیں یا روبوٹ نما انسان۔ ماں کہتی ہے تو تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے باپ کی زمینیں کاشت کرنا۔
مفلسی سے نہیں گھبرانا، خزانوں پر تو صرف سانپ بیٹھا کرتے ہیں۔ ماں کہتی ہے جہاں امیر محلات میں اور ساغر فٹ پاتھ پر سوئے وہاں رحمت کب آ سکتی ہے۔ جب سے انسان نے رب کو چھوڑ کر اپنی عقل پر بھروسا کیا ہے اور دولت کو اپنی دانشمندی اور کوشش کا حاصل قرار دیا ہے اللہ نے ان پر شہروں کے عذاب مسلط کر دیے ہیں۔ شہروں میں لوگ نہیں لباس رہتے ہیں، لباس بدلتے رہتے ہیں، اس لیے یہاں کسی کی کوئی پہچان نہیں ہے، فطرت کو خاموشی پسند ہے مگر یہاں انسانی ضمیروں کا شور حد سے بڑھ گیا ہے۔
اس لیے فطرت پسند یہاں سے ہجرت کرنے لگ گئے ہیں۔ یہاں سفر کی حکومت ہے مگر یہاں ہر راستہ جمود کی منزل کی طرف جاتا ہے۔ یہاں کے آئینے بھی آسیب زدہ ہیں، یہاں کسی کو بھی اپنی صورت کا عیب نظر نہیں آتا۔
اور پھر میں گاﺅں چلا آیا، میری ماں کی خوشی دیکھنے والی تھی، کہنے لگی پتر تم نے صحیح فیصلہ کیا، شہروں میں ہر شخص گفتگو کی حسرت لیے عمر بھر اپنی ہی ذات کے حجرے میں معتکف رہتا ہے۔
میری دعاﺅں سے تجھے وہ بھی ملے گا جو تُو چاہتا ہے۔ میں ماں کو کیا بتاتا ہجر کا ایک ایک سانس سینے میں کنکر کی طرح لگتا ہے۔ سمندر کے ہجر میں صحرا پہ کیا گزرتی ہے مجھے وہ بڑھیا یاد آ گئی جو اپنے بھوکے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے برسات کی شب اپنی ٹپکتی ہوئی جھونپڑی کی چھت کو دیکھ کر اپنے بیمار خاوند سے پوچھ رہی تھی یہ قیامت جیسی لمبی رات کب گزرے گی۔

ماں کی دعائیں رنگ لائیں اور ایمان اپنے ماں باپ کے ساتھ گاﺅں پہنچ گئی اور پھر میری زندگی کے سفر میں شامل ہو گئی۔ دعاﺅں میں کتنا اثر ہوتا ہے یہ بات مجھے اب معلوم ہوئی۔ ایمان نے یہاں گاﺅں میں اپنا سکول کھول لیا اور میں نے ایک بہت بڑا Goat Farm بنا لیا تھا۔
میری ماں بہت خوش تھی، اُس کا ہر دن عید کا دن تھا اور ہر رات شب برات، وہ مجھ سے بھی زیادہ ایمان سے پیار کرتی، ایمان اور میرے بچوں کا ایک پل بھی ماں جی کے بغیر نہیں گزرتا تھا۔

اور پھر ایک دن اچانک ماں جی ہمیں سوگوار چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملی، پچھلی شب وہ مجھ سے کہہ رہی تھی پتر زندگی اور موت ایک اونٹ پر رکھی دو پالکیاں ہیں۔ وہ ایک پالکی سے دوسری پالکی میں چلی گئی تھی، وہ آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہو گئیں جن کی پلکوں کا آنچل ہمیشہ فرض اور قربانی کی ہوا میں لہراتا رہتا تھا۔ مجھے اُس دن پتہ چلا جب چمن سے خوشبو رخصت ہو جائے تو اسے خزاں کہتے ہیں، مگر جب دنیا سے ماں رخصت ہو جائے تو اُسے قیامت کہتے ہیں، مجھے اس دن معلوم ہوا ماں حیات ہو تو انسان ساکت رہتا ہے مگر سفر جاری رہتا ہے، ماں کے بعد انسان بھاگتا رہتا ہے مگر سفر رکا رہتا ہے۔
مجھے اُس دن پتہ چلا ہر مرنے والا فانی نہیں ہوتا کچھ لوگ فنا ہونے کی بجائے فتح یاب ہو کر دوسروں میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ میرے بچوں کی ماں اور دادی اب صرف ایمان ہی تھی۔ یہ واحد موت تھی جس میں سارا گاﺅں اشک بار تھا، میں نے پہلی بار کسی کی موت پر گورکن کو روتے دیکھا تھا۔
ماں کو ہم سے جدا ہوئے دس سال ہو چکے ہیں، ماں کے بعد بھی میں عید مناتا ہوں مگر گونگے بہرے بچوں کی طرح، میں ماں جی کی تصویر پر لب رکھ کر سارا دن روتا رہتا ہوں۔
مگر زبان سے الفاظ نہیں نکلتے۔ ایمان اور اپنے بچوں کی سوجی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر اندر سے کٹ جاتا ہوں مگر ساعتیں نوحہ گر رہتی ہیں۔
آج عیدالاضحیٰ کی شام ہے اور میں ماضی کی کتاب سے بہت سال پہلے کے صفحات کو پڑھ رہا ہوں، جب میں تعلیم مکمل کر کے گاﺅں واپس آیا تھا، اس عید کو میں نے ماں جی کے سامنے خواہش رکھی تھی کہ میں ایک بہت بڑا Goat Farm بنانا چاہتا ہوں، ماں جی بہت خوش ہوئیں اور کہنے لگی پتر یہ تو بہت برکت والا کام ہے۔
قدرت کو افزائش نسل سے بہت دلچسپی ہے اور پھر مجھے گھر کی ساری بھیڑ بکریاں، جو ایک درجن کے قریب تھیں، ذبح کرنے کا حکم دیا، میں بہت حیراں ہوا، میں نے کہا ماں جی ایک دو کی قربانی کر لیتے ہیں ایک درجن ہی کیوں؟ ماں جی بولی تم فلسفہ قربانی سے واقف نہیں ہو اس لیے کہ تمہیں چیزوں کی فطرت کا علم نہیں، میں نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی طرح سر جھکا دیا۔

ماں جی بولیں سنو:
فلسفہ جہاد کیا ہے۔ جو چیز اللہ کی راہ میں ذبح کی جاتی ہے وہ بڑھ جاتی ہے، دنیا میں مسلمانوں کی تعداد جو بڑھ رہی ہے اس کے پیچھے فلسفہ جہاد ہے ورنہ جب سے دنیا میں مسلمان آیا ہے وہ کینیا ہو، فلپائن ہو، ہندوستان ہو، افغانستان ہو، بوسنیا ہو، فلسطین ہو یا عراق، شام ہو یا کشمیر یا کوئی اور ملک مسلمان ہر جگہ کٹتا نظر آ رہا ہے مگر اس کی آبادی آج بھی دنیا میں بڑھنے کو ہے، اس کی بنیاد اس بات پر ہے کہ وہ اللہ کے لیے جان دیتا ہے۔

جنگِ بدر کے 313 آج اربوں ہو چکے ہیں، فطرت کا اصول ہے جو چیز اللہ کی راہ میں قربان کی جاتی ہے یا ذبح کی جاتی ہے وہ بڑھ جاتی ہے، کیا کبھی کسی نے کتوں کے ریوڑ دیکھے ہیں۔ کتا کبھی ذبح نہیں ہوتا حالانکہ اُس کے تو دس دس بچے ہوتے ہیں۔ بکریوں کو دیکھ لیں، بکریوں کے ریوڑ ہوتے ہیں، جن کو روزانہ ذبح کر کے کھاتے ہیں، لاکھوں بکریاں، گائیں، بھینسیں، بھیڑیں عید قربان پر ذبح کی جاتی ہیں، وہ سب اللہ کی راہ میں خرچ ہوتی ہیں اس لیے ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے۔
میں سوچ رہا ہوں!
ماں تو صحیح کہتی تھی، جس کو اشیاء کی فطرت کا علم آ جائے اس کو قربانی کا فلسفہ بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles