Gongay Ka Khaab - Article No. 1420

Gongay Ka Khaab

گونگے کا خواب - تحریر نمبر 1420

تعبیر بتانے والا تفصیل مانگتا ہے۔ گونگا جب بتا نہیں سکتا تو اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ خواب دیکھنے سے بھی خوفزدہ ہونے لگتا ہے

Tariq Baloch Sehrai طارق بلوچ صحرائی پیر 7 اگست 2017

گونگے کا خواب اُسے بڑی اذیت دیتا ہے، خواب تعبیر کا تقاضا کرتے ہیں۔ تعبیر بتانے والا تفصیل مانگتا ہے۔ گونگا جب بتا نہیں سکتا تو اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ خواب دیکھنے سے بھی خوفزدہ ہونے لگتا ہے۔ فرعون کو خاموشی کے مجرم اچھے لگتے ہیں یا وہ مائیں جو گونگے بچوں کو جنم دیتی ہیں۔
میں بھی عجیب ملک میں رہتا ہوں جہاں سوچنے والے کا سر اُس کے جسم کا حصہ نہیں رہنے دیا جاتا۔

اگر دربار اور کلیسا کی رفاقت بہت پرانی ہے، تو ملوکیت اور ملائیت بھی دو جڑواں بہنیں ہیں اقتدار کے ایوانوں میں اگر ان کا رقص طویل ہو جائے تو طاقت سچ کا نعم البدل بن جاتی ہے۔ لوح و قلم کی بولیاں لگنا شروع ہو جاتی ہیں نوشتّے انسان لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور بولنے کی اجازت صرف دستار والوں ہی کو ملتی ہے ایسے گھٹن اور حبّس زدہ موسم میں صرف مامتا کی سسکیاں ہی سنائی دیتی ہیں۔

(جاری ہے)

فضا خاموش ماتمی دُھنوں سے گونجنے لگتی ہے جنازے اتنے پڑھنا پڑتے ہیں کہ لوگ جوتا پہننا ہی بھول جاتے ہیں کفن مہنگے اور تابوت نایاب ہونے لگتے ہیں۔ علم کا نور پھیکا پڑنے لگتا ہے مذہب کو دنیا کے لیے استعمال کیا جانے لگتا ہے اور لوگ فلم کی کامیابی کے لیے قرآن خوانی کروانے لگتے ہیں اور پھر اس ملک کا دانشور یہ سمجھنے لگتا ہے کہ تندور ایجاد کرنے سے بھوک کو دفن کیا جا سکتا ہے اور پانی میں نمک ملانے سے سمندر تخلیق کیا جا سکتا ہے مگر میرے قلم کا وجدان تو کہتا ہے اس کرہٴ ارض کی سب سے بھاری چیز تابوت ہوا کرتی ہے۔

میری زندگی کی مثلث میں میری ماں کے علاوہ بابالارنس بھی شامل ہے مجھے نہیں معلوم ان کا نام کیا ہے مگر لارنس گارڈن کے حوالے سے میں نے ان کا نام بابا لارنس رکھا ہے میں نے سدا اُسے لارنس گارڈن کی پہاڑی کے اوپر برگد کے نیچے بنچ پر آنکھیں بند کیے کچھ سوچتے ہوئے دیکھا یہاں سے بابا تُرت مراد شاہ کا مزار صاف نظر آتا ہے۔
مجھے اب بھی یاد ہے جب میں پہلی دفعہ بابا لارنس کے ساتھ والی بنچ پرجا کر بیٹھا تو انھوں نے ہلکی سی آنکھیں کھولیں پھر مسکراتے ہوئے آنکھیں بند کر لیں پھر ایک لمبے عرصے کی خاموشی کے بعد بابا لارنس بولا:
صحرا نورد قیامت کے انتظار میں بیٹھے ہو؟ جاؤ جا کر سو جاؤ جب تک فاختہ کا گھونسلہ محفوظ ہے۔
قیامت نہیں آئے گی۔ بابا لارنس مجھے کبھی بھی اجنبی نہیں لگا میری ماں کہتی ہے اجنبی لوگ نہیں لہجے ہوا کرتے ہیں شاید اسی لیے مجھے یہ اپنوں کا دیس بھی اجنبی سا لگنے لگ گیا ہے۔
میں نے اپنے باپ کو نہیں دیکھا میری ماں کہتی ہے وہ بچپن ہی میں ہمیں چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ میں نے ہمیشہ اپنی ماں کو اُن کا نام بڑے احترام اور عقیدت سے لیتے دیکھا۔
جب بھی ذکر کبھی میرے باپ کا ہوتا میری ماں کی آنکھوں کا کاجل پھیلنے لگتا۔ وہ جب تک اس کی یاد کی نماز ادا کرتی رہتیں اُن کی آنکھیں باوضو رہتیں میں نے ہمیشہ اُن کی آنکھوں کے محراب پر اپنے والد کے چراغ کو روشن دیکھا بابا لارنس کہتا ہے ”رب کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہو تو مخلوق خدا کو ماں کی نظر سے دیکھو۔“
مجھے میری ماں سے صرف ایک بات پر اختلاف تھا جو شخص میری فرشتہ صفت ماں کو چھوڑ کر چلا گیا اور کبھی واپس لوٹ کر بھی نہیں دیکھا کیا وہ کوئی اچھا انسان ہو سکتا ہے۔
ایک میری ماں تھی کہ اب بھی اس کا ذکر نہایت ادب و احترام سے کرتی تھی مجھے اس بات پر بہت غصہ آتا تھا مگر میں ماں سے لڑنا نہیں چاہتا تھا بابا لارنس کہتا تھا مائیں بچپن کے اجلے پن اور معصومیت کی وجہ سے انعام کے طور پر عطا کی جاتی ہیں اور جوانی کے کھٹے پن، خود غرض، سخت اور شفقت سے عاری رویے پر سزا کے طور پر واپس بلالی جاتی ہیں۔
یہ مائیں بھی عجیب ہوتی ہیں بچوں کے بغیر شامیں اُنھیں کاٹنا شروع کر دیتی ہیں شام کو جب تک بچے گھر نہ لوٹ آئیں ماں کرب میں مبتلا رہتی ہیں ماں بچوں کے بغیر تنہا ہوتی ہیں چاہے ایک ہجوم ہی اُن کے ساتھ کیوں نہ ہو بابا لارنس کہتا ہے رب کو اِن ماؤں سے بہت پیار ہے ماں دنیا میں بھیجا گیا رب کا ایک جھوٹا سا روپ ہے۔
رب تمام جہانوں کا پالنے والا ہے ماں اپنے بچوں کو پال کر سنت رب پوری کر رہی ہے رب کائنات سب سے زیادہ خدمت کرنے والا ہے ماں بھی ہر لمحہ اولاد کی خدمت میں لگی رہتی ہے۔
رب نہ کھاتا ہے نہ پیتا ہے نہ سوتا ہے ماں بھی خود کو بھوکا رکھ کر اپنے بچوں کو کھلاتی پلاتی ہے جب تک بچے نہ سوئیں ماں نہیں سوتی میں نے تمام عمر اپنی ماں کو سوئے ہوئے نہیں دیکھا جب میں سوتا تھا تو وہ کاموں میں مصروف ہوتی تھی اور جب میں اُٹھتا تھا وہ نماز سے فارغ ہو کر گھر کے کاموں میں مصروف ہوتی تھی۔
جنت ماؤں کے پاؤں کے نیچے ہے یہ نہیں کہا گیا کہ مسلمان ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے۔ ماں کی دعاتو سات ولیوں کی دُعا سے بڑھ کر ہے۔
میں جب بھی فارغ ہوتا بابا لارنس کے پاس جا کر بیٹھ جاتا وہ مجھے موجود پاکر ہلکی سی آنکھیں کھول کر مجھے دیکھ کر مسکراتا اور پھر سوچوں میں گم ہو جاتا جب اس کا دل چاہتا کوئی فقرہ بول کر خاموش ہو جاتا میں اس سے سوال کرتا جب اس کا دل چاہتا جواب دے دیتا کبھی مسکرا کر خاموش ہو جاتا۔

میں نے ایک دن پوچھا بابا اس ملک کی تقدیر کب بدلے گی یہ ملک کس کی ذمہ داری ہے۔
لمبی خاموشی کے بعد وہ مسکرایا اور بولا:
اے صحرانورد اپنی ذات سے جو کشید ہو سکتا ہے اس ملک کے نام کر دو عجیب سادہ لوگوں کا نگر ہے ہر آدمی گنتی کرتے ہوئے خود کو شمار نہیں کرتا۔ گنتی میں خود کو شمار کرنا پڑتا ہے، ورنہ تمھیں گننے کے لیے کوئی باہر سے آئے گا۔
اللہ سے مانگا کرو مخلوق سے مانگنے میں صرف بھیک ملتی ہے۔ پاکستان تو ایک راز ہے پر اسرار راز۔ نہ سمجھ آنے والا راز۔
پھر وہ اُداس ہو گیا۔
لمبے وقفے کے بعد وہ بولا:
اے صحرانورد (وہ مجھے ہمیشہ آشرارمانی کی بجائے صحرانورد ہی کہتا تھا) اس ملک میں سب سے زیادہ جرم خاموشی کا ہے۔ ظلم کو دیکھ کر خاموش رہنا ظلم کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔
رب کو خاموشی کے مجرم اچھے نہیں لگتے وہ انھیں سزا کے طور پر بے حس بنا دیتا ہے بے حسی انسانی صفات میں شامل نہیں ہے یہ حیوانات کی خاصیت ہے۔شیر جب ریوڑ پر حملہ کرتا ہے تو ریوڑ سے الگ کر کے ایک بھیڑ یا گائے کو شکار کر لیتا ہے۔ ریوڑ کچھ دیر بھاگنے کے بعد دور کھڑا اپنے ساتھی کو دیکھتا ہے اور پھر اپنے ساتھی کے سانحے کو چند لمحوں میں بھول کر پھر سے گھاس چرنا شروع کر دیتے ہیں اسے بے حسی کہتے ہیں بے حس انسان سے اشرف المخلوقات کا اعزاز واپس لے کر اُسے چوپائیوں کی صف میں شامل کر دیا جاتا ہے۔

کبھی کبھی بابا لارنس کی باتوں میں اُلجھ سا جاتا ہوں میری ماں مسکراتی ہے کہتی بیٹا یہ دنیا بڑی تھکا دینے والی اور Complicated ہے۔ اس کو صرف پاکیزگی ہی سے فتح کیا جا سکتا ہے۔ میں جب بھی کہتا ماں وقت کہاں گیا اب تو کسی کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ بڑے شہروں میں تو بالکل ایک دوسرے کے لیے وقت ہی نہیں ہے۔ ماں کہتی پتر زیادہ نہ سوچا کر۔ فاصلے زمین کے ہوں یا دلوں کے وقت کو کھا جاتے ہیں۔
میں سوچتا ہوں میں عجیب شہر میں رہتا ہوں جہاں دن کو رات سو جاتی ہے مگر رات کو دن نہیں سوتا۔ ہم صحرائی لوگ موسموں کا جبر سہتے سہتے اپنوں کا جبر سہنا بھی سیکھ جاتے ہیں ہم اکثر اپنے بدن کے صحرا میں جھلستے رہتے ہیں ہم اندر سے ایک نا معلوم مسافت میں رہتے ہیں ہم سفر بھی روز کرتے اور جانا بھی کہیں نہیں ہوتا۔
بابا لارنس کہتا ہے جب تم بلاوجہ خوش ہوتو سمجھ لینا تمھاری ماں تمھارے لیے دعا گو ہے۔

اُس دن زندگی میں پہلی بار میں اپنی ماں سے اونچی آواز میں بولا تھا۔ ماں تم اُس شخص کے لیے آنسو بہاتی ہو جو تمھیں چھوڑ گیا جس نے تمھیں عمر بھر پلٹ کر نہیں دیکھا جس نے اپنے بیٹے کا بھی خیال نہیں کیا، کیا ایسے خود غرض آدمی کے لیے اپنی زندگی کو اذیت دینا کہاں کی عقلمندی ہے۔
ماں نے غصے سے میری طرف دیکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تم سچ سننا چاہتے ہوناں تو سنو۔

تمھارا باپ مجھے چھوڑ کر نہیں گیا اسے ایک اندھی گولی نے شہید کر دیا تھا مرنے سے پہلے اُس نے مجھے کہا تھا مجھے خوشی ہے میں نے ہمیشہ سچ لکھا میں خاموشی کا مجرم نہیں ہوں۔ میں گونگے کے خواب کی طرح اذیت میں رہنا نہیں چاہتا تھا ہو سکے تو میرے بیٹے کو بھی اسی راستے میں ڈالنا گونگے کا خواب بڑا دکھ دینے والا ہوتا ہے، اور پھر وہ اس جہاں میں چلا گیا جہاں صرف سچ ہی سچ ہے وہاں کوئی گونگا نہیں ہے۔
پتر میں بے حوصلہ عورت تھی مجھے اچھا نہیں لگتا کوئی اسے مرا ہو کہے۔ جب کوئی اسے مرحوم کہہ دے تو میں ایک ہفتہ سو نہیں سکتی میں اسی لیے کہتی ہوں وہ مجھے چھوڑ کر چلا گیا۔
میں لارنس آ کر بابا لارنس کے پاس بہت رویا بابا میں زندگی میں پہلی بار اپنی ماں سے اونچی آواز میں بولا ہوں، میرا بابا میری ماں کو چھوڑ کر نہیں گیا بلکہ شہید ہوا ہے وہ سچ کے راستے کا مسافر تھا وہ گونگے کا خواب نہیں بنا وہ خاموشی کا مجرم نہیں بنا اس لیے موت کو شکست دے گیا۔
میری ماں کو اچھا نہیں لگتا کوئی اُسے مرحوم کہے۔
بابا لارنس پریشان ہو گیا میں نے اسے زندگی میں پہلی بار پریشان دیکھا تھا کہنے لگا بھاگ کر واپس جا اپنی ماں سے بھی معافی مانگ اور اپنے رب سے بھی اے صحرانورد رب کو مائیں بڑی پیاری ہوتی ہیں، یہ تتلی کے پروں سے بھی زیادہ نازک ہوتی ہیں کوئی اُن سے اونچی آواز سے تو کیا اُف بھی کہے اللہ برداشت نہیں کرتا وہ انعام واپس لے لیا کرتا ہے ماں سے رب کی محبت کا اندازہ لگائیں ماں اپنے بیٹے کے لیے پانی کی تلاش میں دوڑ رہی ہے ماں کی اس محنت اور اس جذبے کا رب العزت نے اتنا احترام کیا کہ صفا و مروہ کو اپنی نشانی قرار دے دیا وہ سعی جو بی بی حاجرہ علیہا السلام نے کی اُس کو حج و عمرہ کا رُکن بنا دیا۔

میں بھاگ کر گھراپنے پہنچا ماں زندگی کی آخری سانسیں لے رہی تھی میں نے کہا ماں مجھے معاف کر دو میں کبھی آپ سے اونچی آواز میں بات نہیں کروں گا میں کبھی اُف بھی نہیں کہوں گا۔ ماں واپس لوٹ آؤ مجھے تمھاری ضرورت ہے۔ میرا اس دنیا میں تمھارے سوا کوئی نہیں۔ یہ دنیا پہلے سنگ پرست تھی اب سنگ دل ہو گئی ہے۔
ماں نے میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا بولی پتر رب کو مائیں بہت پیاری ہوتی ہیں یہ تتلی کے نازک پروں سے بنی ہوتی ہیں کوئی اُن سے اونچی آواز میں بولے رب برداشت نہیں کرتا پتر تم سے غلطی ہو گئی۔
سزا کے طور پر وہ اپنا انعام واپس لے رہا ہے۔ یاد رکھنا تمھارا باپ سچا تھا، سچ سے پیار کرتا تھا، اسے یقین تھا زندگی اور موت صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے سچ سے گریزاں لوگ گونگے کے خواب کی طرح اذیت میں رہتے ہیں پھر ماں نے کلمہ پڑھا اور مٹی کی مہمان بن گئی۔ ماں باپ سے اونچی آواز میں بات کرنے والا عمر بھر اس کا تاوان ادا کرتا رہتا ہے۔
برسوں بیت گئے ماں کو جدا ہوئے برسوں سے خود کو اذیت دے رہا ہوں زبان گنگ ہو گئی ہے گونگے کے خواب کی طرح صرف اذیت ہی اذیت ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles