Ik Sitam Aur Meri Jaan - Article No. 935

Ik Sitam Aur Meri Jaan

اِک ستم اورمیری جاں - تحریر نمبر 935

کہتے ہیں کہ خوشحال وہ نہیں ہوتا۔جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔بلکہ خوشحال وہ ہوتا ہے جو اپنے حال پر خوش ہوتا ہے اور وہ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھی۔۔۔

پیر 17 اگست 2015

خدیجہ مغل
کہتے ہیں کہ خوشحال وہ نہیں ہوتا۔جس کے پاس پیسہ ہوتا ہے۔بلکہ خوشحال وہ ہوتا ہے جو اپنے حال پر خوش ہوتا ہے اور وہ بھی ان خوش قسمت لوگوں میں سے تھی۔جو اپنے حال پر خوش ہی نہیں بلکہ بہت زیادہ خوش رہتے بھی ہیں اور نظر بھی آتے ہیں ۔مگر اب کچھ بدلا سا تھا۔وہ خوش نہیں رہتی تھی۔اِک کسک تھی جو دل میں جو ٹیس بن کر اٹھتی تو پورے جسم میں پھیلے چلی جاتی۔
اور وہ جو اچھی بھلی مطمئن اور آسودہ حال تھی۔اِک روگ لگائے جا رہی تھی۔۔
روگ۔۔۔یہ روگ ہی تو تھا ۔محبت کا روگ۔
جس کی شادی کو چھ سا ل ہونے کو تھے اسے اب جاکر ولید سے محبت ہوئی تھی
اُسے یہی لگتا تھا اور وہ کہتی بھی یہی تھی کہ اسے ولید سے محبت ہو گئی ہے۔اور یہ اچھی بات تھی۔

(جاری ہے)

شوہر سے محبت عین عبادت ہے اور اطمینان بخش بھی۔
مگر روشانے کے لیے یہی روگ تھا۔

اِک بے سکونی سی تھی جسے وہ ختم کرنا چاہتی تھی۔
وہ اپنے شوہر سے اظہارِ محبت کرنا چاہتی تھی جسکا اسے موقع ملا نہیں تھا۔
#۔۔۔۔۔۔#
روشانے کا بچپن بہت مزے میں گزرا تھا۔بھائیوں سے لاڈ اٹھواتے ہوئے۔باپ کی معمولی تنخوا ہ سے گھر کا گزر بسر اچھے طریقے سے چل رہا تھا۔بی۔اے کرنے کے بعد اس نے تعلیم کو الوداع کہہ دیا اور گھر میں چھوٹی موٹی ٹیوشن کرنے لگی۔
اماں کو اپنی بیٹی کی فکر ہونے لگی تھی۔مگر اس مہنگائی میں وہ کیا کرتیں۔گھر کے اخراجات بمشکل ہی پورے ہوتے تھے ۔
انہی دنوں اسکی پھوپھو اپنے بیٹے ولید کا رشتہ لے آئیں ۔وہ پڑھا لکھا با روزگار اور خوبصورت تھا ۔انہیں انکار کرنے کا کوئی موقع ہی نہ ملا اور یوں جٹ روشانے کا رشتہ طے ہو ا اور شادی ہوگئی۔
اماں کے چہرے پہ سکون دیکھ کر روشانے بھی ہلکی پھلکی ہو گئی تھی۔
اس نے ولید سے کوئی خاص توقعات وابستہ نہ کیں تھیں کہ جن کے پورا نہ ہونے پر اسے کوئی پریشانی ہوتی۔وہ خاموش مزاج تھا۔اس نے اس سے زیادہ گھلنے ملنے کی کوشش نہ کی۔روشانے نے اسکی عادت سمجھ کر اسے چھیڑنے کی کوشش نہ کی اور اسے اپنے حال میں مست ہی رہنے دیا۔
واش روم میں سلپ ہونے کی وجہ سے اسکا پاؤں مڑ گیا تھا۔مگر وہ برداشت کرتے ہوئے کاموں میں مصروف رہی کہ شاید ولید کو احساس ہو جائے۔
رات کو تکلیف بڑھ گئی اسکا کتنا دل چاہ رہا تھا ولید کو آواز دے مگر اس کی ڈسڑبنس کے خیال سے ہی وہ چپ کرگئی ۔اور پاؤں میں ہولے ہولے مالش کرتی وہ رات دیر تک جاگتی رہی۔۔
رات دیر سے سونے کی وجہ سے صبح اسکی آنکھ دیر سے کھلی تو پتہ چلا ولید آفس جا چکے ہیں ۔اس نے چلنے کی کوشش کی مگر چلنے میں بہت دشواری ہو رہی تھی مجبورا اسے بستر پہ رہنا پڑا۔

پھوپھو اپنی بیماری کی وجہ سے چل پِھر نہیں سکتیں تھیں۔وہ انہیں کیا کہتی؟ناچار اسے اٹھنا پڑا اور وہ روز کی طرح اپنے کاموں میں لگ گئی۔
اپنی صحت کا خیال کیے بِنا کے وہ اب ماں بننے والی ہے۔اور آرام اسکے لیے نہایت ضروری ہے۔
#۔۔۔۔۔#
آج ویلنٹائن ڈے ہے۔آپ ولید بھائی کو وِش کریں نا۔مصباح کا بھی زندگی گزارنے کا اپنا ہی انداز تھا
یا ر کیا بچوں والی باتیں کرتی ہو ۔
۔روشانے نے کندھے اچکائے
آخر ایسا کرنے میں حرج ہی کیا ہے۔کچھ بھی لے لو ان کے لیے۔
ارے نہیں۔۔۔وہ اپنی چیزیں خود لیتے ہیں۔اس نے صاف انکار کر دیا
تم بھی نا۔۔۔شام کو میں گھر آؤں گئی تمھاری کلاس لینے سمجھی۔مصباح بھی اپنے پورے ارادے سے تھی۔
روشانے حیران سی نظروں سے اسے سوچتی رہ گئی۔۔۔
شام کے وقت واقعی ہی مصباح اسکے گھر موجود تھی۔
ولید ابھی آنے والے تھے وہ فرش صاف کر رہی تھی جب مصباح آئی۔
ہر وقت صفائی ۔۔۔صفائی۔۔حالت دیکھی ہے اپنی۔مصباح حیران ہو رہی تھی کہ یہ وہی روشانے ہے
میرا گھر ہے ۔میں اسے صاف نہیں رکھوں گی تو کون رکھے گا؟
مانا کہ یہ گھر تمھارا ہے۔۔پر تھوڑا اپنے آپ پر بھی دھیان دو نا ۔جلدی سے چادر لو میں تمھیں پارلر لے جانے آئی ہوں۔ایک ہی سانس میں بولتی چلی گئی۔

نہیں ۔۔ولید آنیو الے ہیں۔۔۔میں نہیں جاؤں گی۔اس نے صاف انکار کردیا
ولید ۔۔۔سے میں خود بات کر لوں گی تم بس تیار ہو جاؤ۔۔
مگر۔۔۔اس نے کچھ کہنا چاہا مگر مصباح نے منع کر دیا۔اور واقعی تھوڑی دیر میں ولید گھر آچکے تھے۔
میں روشانے کو اپنے ساتھ لے جاؤں تھوڑی دیر کے لیے۔۔؟
کہاں جانا ہے؟اسوقت۔اس نے شام کی طرف اشار ہ کیا
بس ابھی تھوڑی دیر میں آجائیں گئے۔
مجھے ذرا کام تھا۔اس نے بہانہ بنایا
اوکے۔مگر جلدی واپس آجایئے گا۔
تھینکس۔۔مصباح مسکراتے ہوئے بولی اور جٹ سے باہر آگئی ۔باہر کھڑی روشانے کا دل سوکھ کر رہ گیا ۔ولید نے کیسے اجازت دے دی؟
چلو۔۔۔ہمیں جلدی واپس آنا ہے۔اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولی
ایک تو تم ہو بہت پیاری ۔۔۔کبھی میک اپ ہی کر لیا کرو۔ولید بھائی کا دل آجائے
پارلر سے واپسی پہ وہ باربار اسے سراہ رہی تھی۔

اب گھر جا کر آپ نے پتہ کیا کرنا ہے۔وہ اسے سمجھانے لگی۔
یقین جانو روشانے ولید بھائی کو تم سے عشق ہو جائے گا۔تمھیں دیکھتے ہی۔
باز آجاؤ۔۔نہ تو میں پیاری ہوں اور نہ ہی مجھے کسی میک اپ کی ضرورت ہے۔سچی بات یہ ہے کہ میرا شوہر خاصا ڈیسنٹ اور سوبر انسان ہے۔انہیں یہ سب پسند نہیں ہے۔
میاں بیوی کی محبت اور مان بھرے رشتے میں یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں تو ہوتی ہی ہیں۔
مجھے تو آپکی سمجھ نہیں آتی۔بہرحال ٹائم بھی ہو رہا ہے ۔جو جو سمجھایا ہے وہی وہی کرنا اور ٹھیک کرنا اسے گیٹ کے پاس چھوڑتے ہوئے بولی۔روشانے زچ ہو کر ہوں ہاں کرتی رہی۔
پتا نہیں یہ محبت بھرا احساس تڑپاتا کیوں ہے؟
محبت جب تک بے نام تھی یو نہی مچلتی تھی،اور آج جب اظہار کا ارادہ کیا تو جیسے اسے بھی سکون مل گیا ۔
اس نے سفید اور فیروزی سوٹ پہن رکھا تھا ایک نظر خود کو دیکھتے وہ چائے کا کپ اٹھا کر اسٹڈی روم کی جانب بڑھ گئی۔

ولید بظاہر کتاب سامنے رکھے بیٹھے تھے۔مگر لگتا تھا ان کا دھیان کہیں اور ہے۔
واقعی! جب انسان کھوجتا ہے تو ایک لمحے میں سب جان جاتا ہے۔روشانے نے کپ ان کے سامنے رکھ دیا۔
ولید نہ صرف کچھ سوچ رہے تھے بلکہ پریشان بھی تھے۔روشانے کا دوسرا خیال بھی با لکل درست تھا
وہ خاموشی سے چائے پینے لگے۔روشانے اس خاموشی کی عادی تھی۔مگر اتنی خاموشی۔
۔۔آج وہ اس جمود سے کوفت زدہ ہونے لگی تھی۔مگر اس جمود کو توڑنا اس کے بس کا کام نہ تھا۔اس نے لٹ کو اڑس کر دوپٹہ درست کیا اور کپ لے کر کھڑی ہوگئی۔
بیٹھو ۔مجھے تم سے بات کرنی ہے
جی!وہ ہمہ تن گوش ہوئی
میری بات حوصلے سے سننا۔ولید کی آواز میں کچھ ایسا تھاکہ اسے لگا جیسے سارا حوصلہ کہیں ادھر ہی بہہ گیا ہے
تم میری بیوی ہو۔میں تمھیں کوئی تکلیف پہنچانے کا سوچ بھی نہیں سکتا ۔
ممانی اور ماموں جان بہت اچھے انسان تھے۔میں ان کی عزت کرتا ہوں۔مجھے آج تک تم سے کوئی بھی شکایت نہیں ہوئی۔میں تمھاری بہت قدر کرتا ہوں۔
قدر۔۔۔اس کا دل چاہا کہ یہ لفظ بد ل جائے اور اسکی جگہ محبت آجائے
مگر محبت بنتی نہیں ،ہوتی ہے اور قدر دل میں بیدار نہیں ہوتی بلکہ کسی کی کچھ نیکیوں یا بھلائیوں کے بدلے میں کی جاتی ہے۔
اور یہ میری بڑی قدر کرتے ہیں۔
آنسو راستہ بنانے کی کوشش کرنے لگے۔
عینش نہ صرف میری کولیگ ہے بلکہ یوں سمجھ لو کہ وہ میری اولین محبت تھی۔حالات کی ستم ظریفی یہ تھی کہ میں اسے حاصل نہ کر سکا ۔
دو سال قبل ہی اس کی شادی ہوئی تھی لیکن اسکا شوہر وفات پا گیا۔اس نے دوبارہ آفس جوائن کیا ۔جب وہ مجھ سے جدا ہوئی تھی تو مجھے صحیح معنوں میں احساس ہوا کہ میں اسکے بِنا ادھورا ہوں۔
تنہا ہوں،اور جب وقت کے پہیے نے ایک بار پھر اسے میرے سامنے لا کھڑا کیا تو مجھے اسے چھوڑنے کا حوصلہ نہ ہوا اور میں نے دو ماہ قبل اس سے شادی کرلی۔
شادی کر لی۔۔۔!ان تین لفظوں کے ادا ہوتے ہی اسکے اندر کیسے سب کچھ ٹوٹ گیا تھا ۔اسکی ساکت نگاہیں اور بکھری کرچیاں شاید اسکے چہرے کو بہت مسخ کر گئیں تھیں۔تب ہی وہ گھبرایا تھا ۔جیسے اندر سے ڈر گیا ہو۔

پلیز تم پریشان مت ہو۔تم اچھی طرح سے جانتی ہو میں آنے والے بچے کے لیے فکر مند ہوں ۔میں تمھیں کبھی اپنے سے الگ نہیں رکھوں گا۔۔
عینش بہت اچھی لڑکی ہے۔وہ تمھارے بارے میں سب کچھ جانتی ہے۔وہ تمھیں با لکل بھی ہرٹ نہیں کرے گی۔شادی تو ہمیں کرنی ہی پڑی کیوں کہ اسکے والدین کہیں اور اسکی شادی کروا رہے تھے۔
تم کسی قسم کی فکر مت کرو۔
وہ یہاں چنددن مہمان کی حیثیت سے رہے گی۔میں اسکے لیے علیحدہ رہائش کا بندوبست کر لوں گا۔
ہم دونوں تمھیں پریشانیوں سے بچانا چاہتے ہیں۔تم میری بیوی ہو۔میری ذمہ داری ہے۔تمھارا تحفظ میرا فرض ہے۔اسی لیے میں نے یہ گھر تمھارے نام کر دیا ہے۔
وہ چپ تھی۔خاموشی نے ایک بار پھر کمرے میں بسیرا کیا
کاش! میں اس جمود کو توڑنے کی خواہش نہ کرتی۔
ولید نے ہاتھ بڑھا کر اسکا ہاتھ تھاما
انسانی ہمدردی کے طور پر انہیں ایسا ہی کرنا چاہیے تھا۔مگر روشانے کو کیا فرق پڑتا تھا۔وہ تو وہاں تھی ہی نہیں۔وہ تو معلق تھی۔
ساکت ،اسکی آنکھوں میں آنسو،نہ ہی حلق میں آواز پھنسی۔سب کچھ تو شاید نیچے ہی کہیں رہ گیا تھا۔
مجھے یقین ہے تم میری مجبوری کو سمجھتے ہوئے میرا ساتھ دو گی۔کیونکہ تم بہت اچھی ہو۔
اس نے اپنے پیچھے آواز سنی مگر رکی نہیں۔۔۔
#۔۔۔۔۔#
خشک آنکھوں میں نید کوسوں دُور تھی۔اسے خداکریم نے بیٹی کی نعمت سے نوازا تھا
روشانے۔۔۔ولید نے اسے پکارا۔وہ چپ رہی
آج میں بہت خوش ہوں۔پتہ ہے کیوں؟
کیوں کہ الله نے مجھے بیٹی عطا کی ہے۔میں ہمیشہ اسے خوش رکھوں گا۔اور تم پریشان مت ہو۔ولید نے اسے اپنے سینے سے لگاتے ہوئے کہا تو اس نے بے دردی سے اپنے آنسو پونچھ ڈالے
آج عینش یہاں آجائے گی۔
تم پلیز خود کو سنبھالنا اور کوئی ہنگامہ نہ کھڑا کرنا۔وہ کہہ کر مڑ گیا
ہنگامہ۔۔۔!اس نے بمشکل ہی لب ہلائے۔اسے کوئی ہنگامہ نہیں کرنا تھا۔
وہ بہت آہستگی سے اٹھی تھی۔دروازے پہ ہونے والی دستک بڑھتی جارہی تھی۔اس نے دروازہ کھول دیا۔سامنے پُروقار،وجہیہ مرد کھڑا تھا ایک قدم کے فاصلے پر ایک متناسب جسم اور کھڑے نقوش والی بے حد پیاری لڑکی تھی۔
ہلکی سی دوستانہ مسکراہٹ کے ساتھ وہ اس سے ملی۔
ولید کی محبتیں،لگاوٹیں،مسکراہٹیں واقعی یہ لڑکی ڈیزرو کرتی ہے۔وہ پورے دل سے حقیقت کو تسلیم کر گئی۔
مقدر کی طرح نید بھی روٹھی جارہی تھی۔وہ جتنا بھی سوچوں سے پیچھا چھڑواتی خیال آسیب کی مانند ذہن سے چمٹے جاتے۔رات یوں ہی گزر گئی۔صبح اپنے وقت پہ اٹھ کر وہ اپنے کاموں میں لگ گئی ۔
ہیلو!السلام علیکم۔
۔۔ہشاش بشاش آواز اسکے کانوں سے ٹکرائی وعلیکم السلام ۔دھیمے لہجے میں جواب دیا
سرخ وسفید رنگت،مسکراتی آنکھیں۔ایک ہنستا ہوا چہرہ وہ اسکے سامنے بیٹھ گئی۔۔۔
ناشتے میں کیا ملے گا؟بڑی بے تکلفی سے پوچھا تھا
جو آپکو چاہیے۔
مجھے ہیوی ناشتہ چاہیے۔۔صبح کا ناشتہ میں خوب کرتی ہوں
پراٹھے بنادوں ؟
ضرور۔۔۔
وہ پراٹھے بنانے میں لگ گئی جبکہ عینش اسے دیکھتی رہی۔
۔
دن پہ دن گزرتے رہے ۔زندگی گزر رہی تھی جب زندگی سے آس کم رکھی جائے تو دن اچھے گزرتے ہیں ۔اس کے دن اچھے گزر رہے تھے ۔عینش اچھی لڑکی تھی وہ ہر بات شیئر کیا کرتی تھی روشانے سے۔
روشانے اسے اچھی دوست سمجھ کر باتیں کر لیا کرتی تھی۔
حسبِ معمول آج ولید جلد گھر لوٹ آئے تھے حیرت کی بات تھی آج عینش ان کے ساتھ نہیں آئی تھی۔
وہ آتے ہی اسٹڈی روم میں چلے گئے۔
روشانے کھانا پوچھنے گئی تو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ تم کھا لو۔۔روشانے واپس آگئی۔۔
تقریبا رات گیارہ بجے گاڑی کی آواز آئی۔شاید عینش ہی ہو گی۔اس نے کروٹ بدلتے ہوئے کہا اور لیٹی رہی۔۔باہر سے آنے والی آوازیں اسے کشمکش میں مبتلا کر رہیں تھیں۔وہ اٹھ کھڑی ہوئی۔
کہاں گئی تھی؟
میں نے آپکو بتایا تو تھا میں گھر گئی تھی۔
میں نے منع کیا تھا نا۔
۔ولید غصے میں لگ رہے تھے۔
آپ کو میں نے کہا بھی تھا کہ مجھے گھر جاناہے تو آپ کیسے روک سکتے ہیں مجھے گھر جانے سے
تمھارے بھائی نے جو میری انسلٹ کی ۔۔۔کیا میں بھول جاؤں اسے؟
آپ شاید بھول رہے ہیں کہ آپ نے اسی کی بہن سے شادی کی ہے۔
تم ان سے نہیں ملو گی۔۔
میں کیوں نہ ملوں! بھائی ہیں وہ میرے۔میرا گھر ہے وہ۔وہ بھی ہٹ دھرمی سے بولی
مما تو میرے جانے سے اتنی خوش تھیں کہ انہوں نے مجھے کافی گفٹ اور کافی سارے پیسے بھی دیے ہیں۔
یہ دیکھو۔اس نے بیگ کی طرف اشارہ کیا
میں نے کہا تم ان سے نہیں ملو گی اور یہ سب چیزیں ان کے منہ پہ مار کر آؤ گی۔۔۔
میں ان سے نہ ملوں صرف تم جیسے شخص کے کہنے پہ! جسکے پاس اپنی بیوی کو دینے کے لیے ایک مکان تک نہیں۔۔
چٹاخ۔۔۔!ولید کا ہاتھ عینش کے گال کو سرخ کر گیا۔۔۔
تم نے مجھ پہ ہاتھ اٹھایا۔
میں نے تمھیں کہا تھا کہ میں تمھیں بہت جلد ایک مکان لے دوں گا۔
ان شاالله ایسا ہی ہو گا۔اچھی طرح سن لو۔بھائی کی تمام چیزیں تمھیں واپس کرنی ہوگئیں۔کیونکہ میرے نزدیک عزت سے بڑھ کر کوئی چیز اہم نہیں۔
تم سے شادی کرنا میری بھول تھی؟
کیا؟؟ولید جیسے ششدرہ گیا
ہاں! تم سے شادی کرکے میں نے بھول کی۔تم نے یہاں اس قید خانے میں لا کر مجھ پہ جیسے بہت احسا ن کیا ہے۔
فائدہ تو صرف تمھارا ہے۔ایک بیوی کو تم نے محض کاموں کے لیے رکھا ہے اور ایک کو دل لبھانے کے لیے۔
تمھیں تو فائدہ ہی فائدہ ہے۔
تم جانتی ہو تم کیا بول رہی ہو۔۔۔؟
ہا ں اچھی طرح سے جانتی ہوں۔میں تمھارے ساتھ نہیں رہوں گی۔
روشانے لزرا گئی۔
سوچ لو۔۔۔!
میں نے کبھی کوئی کام سوچ کر نہیں کیا۔یہ بات تم اچھی طرح سے جانتے ہو۔بس اب مجھے تمھارے ساتھ نہیں رہنا۔۔وہ سامان سمیٹنے لگی
طلاق تمھیں مل جائے گی۔
جلدی بھیجنا ۔
ورنہ مجھے کورٹ جاکر خلع کے لیے کہنا پڑے گا۔
گیٹ لاسٹ۔۔دفعہ ہو جاؤ۔میں تمھاری شکل نہیں دیکھنا چاہتا۔
مائی فٹ۔۔
عینش۔۔پلیز مت جاؤ۔جھگڑے تو ہوتے ہی رہتے ہیں ۔روشانے کمرے سے باہر آگئی
تم پیچھے ہٹو۔تم ہی رہو اس شخص کے ساتھ ۔اسکی غلام بن کر۔وہ کہہ کر جلدی سے باہر چلی گئی
تم جیسی خود پسند عورت اپنی مرضی چلانے والی شاید کسی کے ساتھ بھی نہیں رہ سکتی اور پھر تمھیں رہنے کی ضرورت بھی کیا ہے؟
اب کچھ بھی نہیں بچا تھا۔
سب ختم ہو گیا تھا۔مگر یہ تو شروعات تھی۔
رات گہری ہوتی جارہی تھی ہر طرف خاموشی تھی وہ گیٹ بند کرنے کے لیے باہر کی طرف بڑھی ۔
#۔۔۔۔۔#
روشانے۔۔۔!جلدی کرو مہمان آنے میں کچھ ہی دیر باقی ہے۔ولید کب سے اسے آوازیں دے رہے تھے اور وہ جی جی کر رہی تھی۔اور اس جی جی میں بیس منٹ گزر چکے تھے۔اب مجبورا ولید خود اوپر آگیا تھا جہاں کا منظر ہی کچھ اور تھا۔
۔۔
روشانے۔۔۔آج روشانے لگ ہی نہ رہی تھی۔کیا وہ اتنی خوبصورت تھی؟ولید اسکے قریب آتا سوچ رہا تھا۔خوبصورت تو وہ تھی ہی مگر قصوراسکی نگاہ کا تھا جو کبھی اس طرف آئی ہی نہ تھی اور آج جب ۔۔۔آہی گئی تھی تو لوٹنے کا نام نہیں رہی تھی۔
کب سے بلا رہا ہوں یار ۔۔وہ اسکے پاس آگیا
آپکی بیٹی نے تنگ کر رکھا ہے۔بس ہو گئی تیار۔اس نے رباب کو آئینے کے سامنے کھڑا کرکے دیکھا اور مطمئن سی پیچھے لوٹی۔
۔
ماتھے پہ آئے ،گیلے بھورے بال پیچھے کرتے ہوئے اس نے روشانے کو مزید اپنے قریب کر لیا ۔پھر ہولے سے مسکراتے ہوئے اسکے کان میں سرگوشی کرنے لگا ۔روشانے شرم سے لال ہوتی ہوئی اسکے سینے میں چھپ سی گئی تھی۔
آج آپکی پیاری بیٹی چار سال کی ہوگئی ہے۔اب کچھ تو خیال کر یں۔روشانے نے بچنے کی پوری کوشش کی مگر ناکام رہی۔
موقع ہی آج ملا ہے اظہارِ محبت کا۔
ولید نے اسکا ہاتھ پکڑ کر خوبصورت کنگن اسے پہنا دیے۔یہ اسکے پیار کی نشانی تھی۔آج تمام غم مٹ گئے تھے۔ولید اسکا تھا ۔اسکی محبت تھی اور یہ بات ولید بہ خوبی سمجھتا تھا۔اور وہ اسکی محبت میں واپس لوٹ آیا تھا اسکی سر زمیں میں ۔جہاں صرف وہ دونوں تھے اور ان کی خوشیاں ۔کیونکہ اسکے بغیر کچھ بھی مکمل نہ تھا۔۔سب ادھورا تھا۔اپنی محبت کا یقین دلاتے ہوئے وہ پُر اعتماد تھا۔
ختم شد!

Browse More Urdu Literature Articles