Jane Kis Jurm Ki Pai Hai Saza Yaad Nahi - Article No. 1913

Jane Kis Jurm Ki Pai Hai Saza Yaad Nahi

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں - تحریر نمبر 1913

شروع سے ہی محنت مزدوری کا عادی ہوں نہ کسی پر بوجھ بننا گواراہ ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کاعادی ہوں،دن بھر کی محنت سے جو کچھ بھی ملتا اسی پر صبر شکر کرتاہوں

 Nasir Alam ناصرعالم جمعہ 15 فروری 2019

اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر بتایاکہ ہوش سنبھالنے سے لے کراب تک دکھ درداورتکالیف کے سواکچھ نہیں دیکھا،جوانی میں والدین کے سائے سے محروم ہوا،سرپرستی نہ ہونے کے سبب صرف سات جماعتیں ہی پڑھ سکا،پھر شادی ہوئی رشتہ داروں نے خوشیاں منائیں گھر میں پہلا بچہ پیداہوا تو یہ خوشیاں دوبالا ہوگئیں،گھر کا چولہا جلانے اور پیٹ کی دوزخ کو ٹھنڈارکھنے کیلئے محنت مزدوری کرتاتھا، حالات اطمینان بخش تھے سکون ہی سکون تھا مگر مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ سکون میرے لئے کسی بڑے طوفان اورپے درپے حادثات کا خیمہ ثابت ہوگا۔
قارئین بتاتاچلوں کہ شیناجسے میں عرصہ درازسے پہچانتاہوں وہ مجھے اپنادکھڑااوردکھ ودردبھری داستان سنا رہاتھا، چند دن قبل شام کو حسب معمول بجلی چلی گئی تو گرمی کی شدت کی وجہ سے میں آفس کی چھت پر چڑھ گیا، ٹھنڈی ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھیں جس سے کافی طمانیت محسوس ہورہی تھی اتنے میں شینا بھی چھت پر آکر میرے پاس بیٹھ گیا، شینا دن بھر محنت مزدور ی کرتا ہے اورشام کو ہمارے آفس آکر کسی کونے میں بیٹھ جاتا ہے وہ ہمیشہ گم سم رہتا ہے،اس سے اگر کوئی سوال نہ کیا جائے تو وہ مسلسل خاموش ہی بیٹھا رہتا ہے،اس دن چھت پر آیا تو میں نے لاشعوری طورپر اس سے پچھلی زندگی کے بارے میں پوچھا جس پر اس نے ایک لمبی اورٹھنڈی آہ بھری اور کہنے لگا،کیا بتاؤں لڑکپن،جوانی اور اب زندگی کے اس حصے کے بارے میں سوچتاہوں تو خودحیران رہ جاتاہوں،نہ معلوم مجھے کس جرم کی سزا مل رہی ہے؟ اس نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا،زندگی میں وہ وقت خوشی کا تھا جب گھر میں بچوں کی چہل پہل تھی اور اس کے بعد حادثات پہ حادثات رونما ہونے لگے،غربت،تنگدستی اورگھریلو مسائل نے جنم لیا جس کے سبب بیوی ان حالات کا بوجھ برداشت نہ کرسکی اورمجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے جداہوگئی اوریہ پہلی قیامت تھی جو مجھ پر ٹوٹ پڑی،دوبچے ننھیال میں رہتے ہیں میرے ذمے تین بیٹوں اوردو بیٹیوں کی دیکھ بال اورتعلیم وتربیت کی ذمہ داری آگئی جن میں ایک شیر خوار بیٹی بھی شامل تھی جسے دل پر پتھررکھ کر ایک بے اولاد جوڑے کے حوالے کردیا،یہی پر رک کر اس نے سیگریٹ کا ایک لمبا کش لیا اور داستان غم کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاابھی بیوی کی جدائی کا غم تازہ تھا کہ ایک دن میری آٹھ سالہ بیٹی اچانک گھر سے نکل گئی۔

(جاری ہے)

کافی دیر گزرنے کے باوجود نہیں آئی تو میں خود ڈھونڈنے نکلا پورا علاقہ چھان مارامگرتلاش بسیار کے باوجود بھی اس لاپتہ کا کوئی پتہ نہ چل سکااوریہ دوسری قیامت تھی جو مجھ پر ٹوٹ پڑی، میں رات گئے بوجھل قدموں اورجھکے کاندھوں کے ساتھ گھر آیااورعین دروازے کے سامنے پڑی چارپائی پربیٹھ کر اورٹکٹکی باندھ کرگلی کی طرف دیکھتارہا اس امید پر کہ وہ آکرمیرے گلے میں ہاتھ ڈالے گی انتظارکے وہ لمحات انتہائی تکلیف دہ تھے اورمیں انہی تکلیف دہ مراحل سے گزررہاتھا،روتے روتے اورآنسوبہاتے بہاتے میر ی آنکھیں سوجھ گئیں اتنے میں فجر کی اذان شروع ہوئی مگرمیری پھول سی بیٹی واپس نہیں آئی جس کی جدائی کی تکلیف برداشت نہ کرسکا اورمجھ پر دل دورہ پڑگیا دل کی تکلیف ایک نئی مصیبت تھی جو میرے گلے پڑگئی اوریہ تھی تیسری قیامت جس نے میری دنیااجاڑکررکھ دی اس وقت کے بعد میں نے اپنی بیٹی کا منہ نہیں دیکھاوہ نہ جانے کہاں اورکیسے ہوگی اورزندہ بھی ہے یا نہیں مگر وہ ہروقت میری آنکھوں کے سامنے رہتی ہے۔
شیناکہہ رہاتھا کہ ابھی بیٹی کی جدائی کاغم اور زخم تازہ تھا کہ اس دوران سوات میں سیلاب آیا جس نے ضلع بھر میں تباہی مچائی کسی کا گھر کسی کی دکان اورکسی کا قیمتی سامان بہاکر لے گیا اس تباہ کن سیلاب نے مجھ سے میراپھول سابیٹابھی چھین لیا،اس وقت میرامعصوم بیٹاکھیل رہاتھا کہ سیلاب کی بے رحم موجوں کی لپیٹ میں آ کر مجھ سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے بچھڑگیا جس کی میت بھی ابھی تک نہیں ملی۔
یہ چوتھی قیامت تھی جو مجھ پر ٹوٹ پڑی،کہہ رہاتھاکہ میں اس پورے عرصہ میں مینگورہ شہر کے ایک مضافاتی علاقہ میں کھلے میدان تلے رہتاجس میں چارپائی اور بستربھی نہیں تھے۔ بچوں کیلئے کھانااورناشتہ بھی خود تیار کرتاجووہ خاموشی کیساتھ کھاتے شائد بچوں نے بھی حالات کیساتھ سمجھوتہ کرلیاتھا، دن کوکسی فٹ پاتھ پر چادربچھاکر جرابیں اوربنیان فروخت کرتاتھا مگر ان چیزوں کی مارکیٹ ڈاؤن ہوگئی لہٰذہ اب چاقو،چھریاں اورناخن تراش لگانا شروع کردیا زندگی کا پہیہ بڑی سست رفتاری کیساتھ گھوم رہاہے،ایک طرف لاپتہ بیٹی کی یادیں تو دوسری طرف سیلاب کی نذرہوجانے والے بیٹے کا غم،تیسری طرف دل کی بیماری اورچوتھی طرف غربت اورکسمپرسی وزندگی کا پہیہ رواں دواں رکھنے کی فکر کھارہی ہے۔
چاروں طرف موجودغم والم،تکلیف اورپریشانیاں کسی کروٹ چین سے نہیں رہنے دیتیں،یہاں پر آکر شینا خاموش ہوگیا، میں بھی خاموش تھا اوریہ خاموشیاں رات کے سناٹے کو اوربھی خوفناک بنا رہی تھیں۔بھلا ہوا اس نوجوان کا جس نے میرے تین معصوم بیٹوں کی تعلیم اوران کی رہائش کی ذمہ داری اپنے سر لی،اس بار شینا بولا تو اس کی آوازمیں کافی بھاری پن آگیا تھا وہ نوجوان میرا قریبی دوست ہے جس نے کسی کے سامنے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی تاکید کی ہے۔
اس نے میرے تینوں بیٹوں کو نہ صرف سکول میں داخل کرادیا بلکہ ہاسٹل میں ان کی رہائش کا بھی انتظام کروادیا ہے مگر میں انہیں دیکھنے کیلئے روز سکول یا ہاسٹل جاتاہوں،شروع سے ہی محنت مزدوری کا عادی ہوں نہ کسی پر بوجھ بننا گواراہ ہے اور نہ ہی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کاعادی ہوں،دن بھر کی محنت سے جو کچھ بھی ملتا اسی پر صبر شکر کرتاہوں،دل کی تکلیف میں مسلسل اضافہ ہورہاہے مگراس کے باوجود بھی معمول سے زیادہ محنت شروع کی ہے کیونکہ رمضان کا مہینہ ہے اور عید بھی آنے والی ہے اس لئے چند دن قبل ایک کچامکان کرایہ پر لیاہے کوشش کرتاہوں کہ بیس پچیس ہزارروپیہ اکھٹاکرسکوں تاکہ اس کچے مکان میں دروازہ اور پنکھا لگاؤں اورکچھ برتن خرید لوں تو یہ مبارک مہینہ بچوں کے ساتھ اس مکان میں آرام سے گزارسکوں گا۔
زندگی کے کٹھن اوردلخراش مراحل سے گزرنے والاشیناپھرخاموش ہوگیامیں نے اس کی طرف دیکھا تو چاند کی روشنی میں اس کی نیلی آنکھوں میں سفید آنسواور چھریوں بھرے چہرے پرمایوسیوں کے سائے صاف دکھائے دئے،شینا کی کتھااوردکھ بھری داستا ن سنتے ہوئے مجھے وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوا، داستان ختم ہوئی تودور کہیں کسی مکان یا بند دکان کی گھڑیال نے ایک بجنے کا اعلان کردیا،میں نے شینا کو آفس ہی میں رات گزارنے اور اپنی حالات پرآنسوبہانے کیلئے چھوڑدیا اور خود بوجھل قدموں کیساتھ گھر کی طرف روانہ ہوا۔
گھر پہنچ کر سونے کی بجائے قلم اٹھاکر شینا کی داستان ِغم کو الفاظ میں قید کرنے بیٹھ گیا تحریرکے اختتام پر پہنچا تو فجر کی آذان شروع ہوئی اس وقت میری کیفیت یقیناشینا کی اس کیفیت کی طرح تھی جو کئی سال قبل پھول سی بیٹی کے گم ہوجانے اور صبح تک واپس نہ آنے پراس پر طاری ہوگئی تھی،جاتے جاتے ساغر صدیقی کا ایک کلام شینا کے ساتھ پیش آنے والے دردناک،المناک اوردلخراش حالات کی نذر کرتاہوں۔
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں میرے نغمات کو اندازِنوا یادنہیں ہم نے جن کیلئے راہوں میں بچھایا تھا لہو ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں میں نے پلکوں سے درِیار پہ دستک دی ہے میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدایادنہیں کیسے بھرآئیں سرشام کسی کی آنکھیں؟ کیسے تھرائی چراغوں کی ضیایاد نہیں صرف دھندلائی ستاروں کی جھلک دیکھی ہے کب ہواکون ہوا مجھ سے جدا نہیں زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں؟ آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدایادنہیں۔

Browse More Urdu Literature Articles