Judaii K Roog - Article No. 1462

Judaii K Roog

جدائی کے روگ - تحریر نمبر 1462

میرا بیٹا جارہا تھا ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا کہتا تھا! اماں میں ہرسال چکر لگاؤں گا لیکن ایسا بے وفا نکلا کہ پلٹ کر ماں کی خبر بھی نہ لی

منگل 29 اگست 2017

مسرت واحد خان:
اماں آج پورے دس برس ہوگئے ہیں نومان کو باہر گئے ہوئے دس برس پہلے آج کے دن میرا بیٹا جارہا تھا ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا کہتا تھا! اماں میں ہرسال چکر لگاؤں گا لیکن ایسا بے وفا نکلا کہ پلٹ کر ماں کی خبر بھی نہ لی۔ جمیلہ بیگم نے روتے ہوئے کہا! تمہیں بہت شوق تھا نہ باہر کے ملک بھیجنے کا۔ میں کتنی بار منع کیا تھا نہ بھیج بیٹے کو باہر ایک ہی تو میرا بیٹا ہے پر تونے میری بات نہ مانی اب پچھتا رہی ہے۔
اماں نے بیزاری سے کہا۔ اماں تمہیں پتہ ہے کہ کرنل صاحب کی آخری خواہش تھی مرتے وقت انہوں نے کہا تھا کہ جمیلہ بیگم بیٹے کا اعلیٰ تعلیم دلوانا بے شک اس کے لئے اسے ملک سے باہر ہی کیوں نہ بھیجنا پڑے۔ اب اماں کیا مرنے والے کی آخری خواہش پوری نہ کرتی تو قیامت والے دن ان کو کیا منہ دکھاتی۔

(جاری ہے)

جمیلہ بیگم نے کہا۔ ارے مرنے والا تو مرگیا کہہ کر اب تو اس کی آخری خواہش کے نتائج بھگت روتی کیوں ہے؟ ڈاکٹر تو بن ہی گیا تھا اپنے دیس میں تعلیم تو اس کی ہوگئی تھی مکمل پر کیا کریں جی جب تک باہر کی ہوانہ لگے اعلیٰ تعلیم کا معیار ہمارے دلوں کو مطمئن نہیں کرتا۔

اماں نے کہا۔ اماں تو زخموں کے اوپر پھایا رکھنے کی بجائے نمک چھڑکتی ہے ۔ تیرا کوئی بیٹا نہیں ہے اگر تیرا بیٹا ہوتا تو تجھ سے جدا ہوتا تو تجھے پتہ چلتا کہ جدائی کا روگ کتنا رن ہوتا ہے جمیلہ بیگم نے شکوہ کیا۔ میں کہتی ہوں کہ قدرت جو بھی کرتی ہے بہتر کرتی ہے میں دن رات بیٹے کی خواہش میں ترپا کرتی تھی پر کتنا اچھا ہوا کہ اللہ نے تجھ جیسی بیٹی دی جس نے مجھے سینے سے لگایا ہوا ہے۔
ورنہ مجھ ستر برس کی بوڑھی کو کیا بہو سنبھال کے رکھتی۔ ارے ہمارے نومان کو قصور ہے ہمیں بہلانے کیلئے ہر ماہ خط لکھ دیتا ہے بیوں بچوں میں الجھ گیا ہوں جلد ہی وقت نکالوں گا اے لو یہ بھلا کوئی بات ہوئی ماں نانی کے لئے ایک ہفتہ بھی نہیں نکال سکتا۔ بیٹی اب وہ دنیا دار ہوگیا ہے۔ ہمیں بہلاؤں میں رکھا ہوا ہے اچھا اماں بس کرو میں جا رہی ہوں جمیلہ بیگم نے اکتاہٹ سے کہا۔
کہاں جاری ہو؟ڈاکٹر کے پاس ذرا دل چیک کروانے جاری ہوں دل پہ بوجھ سالگتا ہے جب سے تمہیں یہ موئی دل کی بیماری لگی ہے ہر وقت تیرا دل گھٹا رہتا ہے۔ میرن مان بیٹی اپنے آپ کو خوش رکھا کر پائیدار رشتہ اپنا اللہ سے لو لگا دل کا بوجھ خود بخود ختم ہوجائے گا تجھے سکون ہی سکون ملے گا۔ یہ سب فانی رشتے ہیں۔ اس دنیا میں جب بندہ جاتا ہے تو کورالٹھا اور اچھے اعمالوں کی پوٹلی ساتھ جاتی ہے نیک اعمالوں کو بوٹلی جتنی وزنی ہوگی اتنی بندے کی آسانی ہوگی۔
کہنا اماں آسان ہے کرنا بہت مشکل کیسے بھلادوں بیٹے کو بہت مشکل ہے بہت مشکل یہ کہتے ہوئے وہ باہر نکل گئی۔ چند روز بعد نومان کا خط آیا تو جمیلہ بیگم خط ہاتھ میں پکڑے ہانپتی ہوئی اماں کے پاس آئی تو اماں نے کہا بیٹی سانس درست کر پھر خط پڑھنا اماں آپ تو بس ہر وقت طنز کرتی رہتی ہیں۔ جمیلہ بیگم نے خفگی سے کہا اور خط کا لفافہ چاک کرکے خط پڑھنا شروع کردیا جب وہ پورا پڑھ چکی تو اس کے چہرے پہ اداسی چھاگئی۔
اماں نے اس کی اداسی کو محسوس کرلیا پھر نہ آنے کا بہانہ کیا ہوگا جمیلہ؟ ہاں اماں وہ لکھتا ہے کہ اس سال بھی نہی آؤں گا کیونکہ بچوں کو سکول سے چھٹی نہیں ملتی۔ بیوی کو پاکستان کا نام سن کر بخار ہوجاتا ہے اور مجھے کلینک سے فرصت نہیں۔ مریضوں سے بھرا کلینک میری راہ کا رکاوٹ بنے ہوئے ہے جمیلہ بیگم نے بتایا ارے وہاں خدا کی شان مان دل کے مرض میں مبتلا ہے اور بیٹا دوسرے ملک کے مریضوں کی ہمدردی میں مرا جارہا ہے۔
اماں نے کہا نہیں اماں اس نے ایک بہت ہی مشہور ڈاکٹر کے بارے میں لکھا ہے کہ اس کو میرانام بولو وہ تمہارا علاج کرے گا جمیلہ بیگم نے ماں کی بات کاٹی۔ بس جمیلہ بہت ہوچکی اب مت بن بے وقوف اس ہرجائی کو بھول جا وہ تجھے بھول گیا ہے تو بھی دل پہ پتھر رکھ لے اور ختم کر یہ رونا دھونا۔ اماں ایک بات بتا تو بھی تو اس کی نانی ہے اسے گود میں کھلایا ہے تجھے یاد نہیں آتا کیا؟ جمیلہ بیگم نے ماں سے سوال کیا تو اماں کا جمیلہ کا سوال سن کر پورا وجود لرزنے لگا اس کا دل بھر گیا اس کااندر چیخنے لگا جمیلہ مجھے تو وہ پل پل یاد آتا ہے اس کی باتیں اس کی شرارتیں میں کیسے بھول سکتی ہوں۔
اس کا چہرہ اب بھی میری نظروں کے سامنے رہتا ہے۔ پر میں کیا کروں؟ تو بھی میری بیٹی ہے ۔ تو بھی میرے وجود کا ایک حصہ ہے اگر میں بھی تیری طرح ہمت ہاردوں تو پھر ہم دونوں کو کون سنبھالے گا۔ لیکن اس کے دل کی چیخیں اس کے دل میں رہیں اس نے اپنے چہرے پر بے نیازی کی کیفیت پیدا کی اور دل پہ صبرکرکے کہا پہلے تو بہت یاد آتا تھا لیکن اب وہ ہماری طرف اس قدر لاپرواہ ہوگیا ہے تو ہمیں بھی پتھر رکھنا پڑے گا یہ سانسوں کی ڈوریاں پتہ نہیں کتنی لمبی ہیں جو اس کے انتظار میں گزاردوں تو بھی میری بچی اب یہ سوچ لے کہ اب وہ بڑا ہوگیا ہے اسے ہماری ضرورت نہیں رہی اسے بار بار خط لکھ کر مت تنگ کیا کرتمہارے خط پڑھ کر وہ ضرور اداس ہوتا ہوگا اب وہ بے چارا کیا کرے۔
مجبوریاں اس کے پاؤں کی زنجیریں بن گئی ہیں۔ اماں نے اسے سمجھایا۔ہاں اماں میں تو یہ سوچا بھی نہیں نجانے میرے خطوں کو پڑھ کر وہ کتنا اداس ہوتا ہوگا۔ آئندہ میں اسے خط نہیں لکھوں گی تاکہ وہ بھرپور زندگی گزارے میں اپنی محبت کو آج سے اپنے سینے میں دفن کر دیتی ہوں۔ اب میں کبھی بھی اس کی یاد میں نہیں روؤں گی ۔ کبھی بھی نہیں․․․․ یہ کہتے ہوئے جمیلہ بیگم کمرے سے باہر نکل گئی۔
اس کے جانے کے بعد اماں پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اس روز کے بعد جمیلہ بیگم کو چپ لگ گئی۔ نہ وہ نومان کا نام لیتی اور نہ ہی اس کے خطوں کا ذکر کرتی صحت دن بدن گرتی جارہی تھی۔ اماں کو اس کی طرف سے پریشانی لاحق ہوگئی ایسے ہی دن پر دن گزرنے لگے ایک روز دوپہر کو نومان کا خط آیا جمیلہ بیگم بیٹے کی محبت سے لاتعلق نظر آتی تھی بیٹے کے خط کی جھلک پاکر ایسی بے قرار ہوئی کہ خط کو یوں چومنے لگی جیسے بیٹے کا منہ چوم رہی ہو اماں کتنے دنوں کے بعد جمیلہ بیگم کے خاموش وجود کا تلاطم ریکھ رہی تھی جیسے گہرے سمند ر میں طوفان کی لہر آگئی ہو اور خط پڑھتے ہی جمیلہ کے چہرے پہ خوشی کی لہریں چمکنے لگیں اور بے اختیار ہو کر بولی اماں میرا نومان دس تاریخ کو آرہا ہے ۔
بیوی بچوں سمیت وہ خوشی سے بے قابو ہو رہی تھی اچانک ان خوشی کے لمحات میں اس کے چہرے پہ ایک دم درد کی لہر چھا گئی وہ اس وقت دھڑم سے زمین پہ گری اماں چارپائی سے ہانپتی ہوئی اُٹھی۔لڑکھڑاتی ہوئی بیٹی کے پاس آئی وہ دل پکڑے بُری طرح تڑپ رہی تھی اور پھر اپنے نوکر نور محمد کو آوازیں دینے لگی نور محمد کے آنے اور ڈاکٹر کو لانے میں چند ہی منٹ لگے لیکن جمیلہ بیگم بے سدھ ہوگئی تھی اور امان چیخ چیخ کے اسے پکار رہی تھی۔
ڈاکٹر نے چیک کرنا شروع کیا۔ بیٹا ڈاکٹر بس اسے ہوش دلا دو باقی اس کا علاج نومان آکے کرے گا۔ وہ بہت بڑا ڈاکٹر ہے وہ اسے بالکل تندرست کردے گا۔ اماں ڈاکٹر کو روتے ہوئے کہنے لگی تب ڈاکٹر جمیلہ بیگم کا معائنہ کرکے فارغ ہوچکا تھا۔ اماں ہمت کریں اب جمیلہ بیگم اس دنیا میں نہیں رہیں۔ نہیں بیٹا ایسا مت بول․․․․․ میری بیٹی تو دس سال سے خوشیوں کو ترس رہی تھی غموں سے کھیل رہی تھی ایک اس لمحے کے لئے اس نے دس سال گزاردیئے اور اس ایک لمحے نے اس کی جان لے لی۔
بیٹا خوشی کواس نے کڑوی دوا کی طرح آہستہ آہستہ نہیں پیا ایک دم حلق میں اتار دیا اور پگلی نے یہ نہیں دیکھا کمزور دل پہ خوشی سہار بھی سکے گا کہ نہیں جمیلہ جاتے جاتے مجھے بھی ساتھ لے جاتی پگلی تجھے میں نہ نظر آئی کہ تیرے بنا میں کیسے جیوؤں گی توتو بیٹے پہ قربان ہوگئی ارے مجھ کرموجلی کو دیکھ کیسی ماں ہوں جو تمہارے سامنے کھڑی تمہاری میت دیکھ رہی ہوں۔
اماں بیٹی کی لاش سے لپٹ کر رونے لگی پھر میت اٹھی سوئم ہوا لیکن وہ بے سدھ ہی رہی اور پھر دس تاریخ آگئی۔گھر میں شور ہوا نور محمد بھاگتا ہوا آیا بی بی چھوٹے صاحب آ گئے لیکن وہ یہ سن کر خاموش رہی نور محمد ایک طرف کو بیٹھ گیا۔ نومان امی جان کی آوزیں لگاتا ہوا پورے گھر میں ماں کو تلاش کر رہا تھا اور جب وہ اماں کے کمرے میں آیا تو بھاگتا ہوا نانی سے لپٹ گیا۔
اماں بھی اس کی بلائیں لینے لگی نانی سے مل کر ماں کا پوچھنے لگا وہ تو بیٹا چلی گئی۔ تو نے بہت انتظار کروایا، بے چاری تو کمزور تھی حوصلہ ہار بیٹھی دس سال کا ایک ایک پل اس نے تمہارے انتظار میں کاٹاتمہیں بیرون ملک بھیج کر تمہاری شادی کے خواب دیکھا کرتی تھی پگلی کہیں کی۔ تمہارے سہرے کے پھول دیکھنا چاہتی تھی۔ بڑا ارمان تھا تمہیں بیاہنے کا ایک دن کہنے لگی اماں میں چاند سی بہو کیسے تلاش کروں گی میری ٹانگوں میں تو ہمت ہی نہیں لیکن پھر کود ہی کہتی نہیں میں اپنے بیٹے کے لئے چاند سی دلہن لانے کے لئے دنیا چھان دوں گی۔
اور اس وقت اس کے چہرے پہ بے پناہ عزم چھلکتا تھا اور جب تمہارے ایک خط میں یہ لکھا کہ تم نے شادی کرلی تو میں یہ سن کر ہنس پڑی وہ رورہی تھی اور میں خوش ہورہی تھی کہ نومان نے تمہیں تکلیف ہی نہیں دی شادی جیسے بکھیڑے کو خود ہی سنبھال لیا ۔ پتہ ہے اس دن وہ میرے ساتھ خوب لڑی کہ میری خوشیوں کو تم بکھیڑا کہتی ہو اس پگلی کویہ پتہ نہیں کہ میرے بس میں کیا ہے سوائے تمہیں تسلی دینے کے پر میں بھی تو کامیاب نہ ہوئی اس کے دل میں تمہاری محبت نکالنے کے لئے میں جتنا اسے کہتی کہ اسے بھول جاوہ بے وفا تجھے بھول گیا ہے وہ میری باتیں سن کر تڑپ اٹھتی۔
نور محمد جا نومان کو قبرستان لے جا اس کی تو ہڈیاں بھی اس کے انتظار میں سلگ رہی ہون گی جا اس کے پاس لے جاتا کہ اسے سکون ملے بڑی دکھی تھی میری جمیلہ جا بیٹا اماں کے پاس جا نومان روتا ہوا اٹھا اور نور محمد کے ساتھ روبوٹ کی طرح چل پڑا اور اماں کو یوں لگا جیسے اس کے سینے کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہو اس نے تکیے کے اوپر سر رکھا اور لیٹ گئی اس نے جونہی لمبی سانس لی تو اس کے وجود سے روح نکل گئی اور اس کی گردن ایک طرف ڈھلک گئی۔

Browse More Urdu Literature Articles