Lahasil Se Hasil Tak Ki Justuju - Article No. 2306

Lahasil Se Hasil Tak Ki Justuju

لاحاصل سے حاصل تک کی جستجو - تحریر نمبر 2306

میں جانتا ہوں کہ یک طرفہ محبتیں بڑی بدنصیب ہوتی ہیں؛ یہ ان قبروں کی مانند ہوتی ہیں؛ جن کا کوئی والی وارث نہیں بنتا۔ جو سہہ رہا ہوتا ہے وہی جانتا ہے کہ وہ کس قدر اذیت میں ہے؛ باقی سب قیاس آرائیاں ہی کر سکتے ہیں

صفیہ ہارون منگل 14 اپریل 2020

میں نے اُسے کافی عرصہ پہلے دیکھا تھا۔ سفید رنگت اور تیکھے نقوش۔ میک اپ سے عاری چہرہ اور لمبی سیاہ پلکیں جو کہ کاجل سے محروم تھیں۔ وہ بالکل عام سی سادہ سی لڑکی تھی اور مجھے اُس کی سادگی ہی تو پسند تھی۔ وہ عام لڑکیوں سے بالکل مختلف تھی۔ ہجوم میں بھی اس کی انفرادیت قائم رہتی۔ اس کو دیکھ کر لگتا کہ وہ اپنے اندر کوئی کہانی، کوئی راز چھپائے ہوئے ہے۔
رفتہ رفتہ اُس کے بارے میں سوچنے لگا تو یہ خیال آنا شروع ہوا کون ہے وہ جس کا اثر روز بروز مجھ پر بڑھتا جا رہا ہے، جس کی محبت کی دلدل میں، میں سر تا پا دھنستا جا رہا ہوں اور فرار کی کوئی راہ نظر نہیں آ رہی۔ جس کے عکس کے سائے تلے میں خود کو محسوس کر رہا تھا، اُس تک پہنچنے کی جستجو روز بروز بڑھتی جا رہی تھی۔ میں اُس تک پہنچنا چاہتا تھا وہ اب میرے سامنے محبت کے رتبے پر فائز ہو چکی تھی۔

(جاری ہے)

شاید جس کا علم مجھے بھی نہیں تھا اُس نے مجھے یکسر بدل کر رکھ دیا تھا۔ میں ایسا تو نہیں تھا تو پھر میری ذات میں یہ بیخودی و بیقراری کہاں سے آ گئی تھی۔ میں مسلسل اس کے سحر میں تھا۔ میں خود سے محروم ہوتا جا رہا تھا شاید یہ وہی چہرہ تھا جو کئی سالوں سے میرے سامنے آ رہا تھا جس کے بارے میں، میں اکثر یہ کہا کرتا تھا کہ وہ واقعی دنیا کی سب سے خوب صورت لڑکی ہے۔
آج وہ خوابوں کی دنیا سے نکل کر میرے سامنے آ گئی تھی۔ مجھے قدرت کے نظام پر تعجب اور حیرت ہو رہی تھی میں جو سوچتا تھا یہ وہی تھی وہ واقعی دنیا کی سب سے خوب صورت لڑکی تھی۔ اُس کے قریب پہنچنے پر محسوس ہوا کہ یہ وہ قدرت کا خاص تحفہ ہے جو شاید قسمت والوں کو ملے گا اور جس کے لیے شاید اپنی قسمت خود بنانا پڑے گی۔ جس کے لیے تنہا زمانے سے لڑنا پڑے گا اور پھر جب عشق کے درجے پر وہ فائز ہوئی تو اُس نے دیوانہ کر دیا۔
اُس کا حصول دن بدن میرے عزم کو بڑھاتا چلا گیا۔میں اس کے بغیر رہ نہیں سکتا تھا۔ جیسے ہی اس سے دور جانے کا سوچتا، میرے آس پاس گھٹن بڑھنے لگتی اور مجھے لگتا کہ اس سے دوری میری جان لے لے گی۔ میں اس سے دور نہیں رہ سکتا تھا۔ میں مکمل اُس میں ڈوب چکا تھا۔ جب اس کے سامنے اظہار کیا تو اس نے لاتعلقی کا اظہار کیا۔ میں نے ہر ممکن کوشش کی اس کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی۔
وہ میری لاکھ کوششوں کے بعد بھی مجھے مل نہیں رہی تھی میں دیوانہ وار مجنوں بن کر گھٹنوں کے بل اس کے سامنے بیٹھا تھا۔ ناکامی روز بروز میرے عزم اور حوصلے کو بڑھا رہی تھی۔ میں جب بھی محبت کا اظہار کرتا، اس کی بیرُخی مجھے اندر تک توڑ دیتی۔ میں منتیں کر رہا تھا، عزتِ نفس جا رہی تھی،میں ٹوٹ رہا تھا، بکھر گیا تھا، اس کے قدموں میں گر گیا تھا، وہ مان نہیں رہی تھی۔
میں نے اس کے لیے خود کو گرا لیا تھا دنیا کے سامنے بھی اور اس کے قدموں میں بھی لیکن وہ میری آخری منزل اور امید تھی مجھے کھڑے ہو کر اُس تک پہنچنا تھا۔ میں زخموں سے چور ہو چکا تھا وہ زخم جو جسم پر عیاں نا تھے لیکن اندر ایک ناسور بن چکے تھے وہ ایک لاحاصل چیز تھی جسے حاصل کرنے کی جستجو میں، میں نکل پڑا تھا۔ میری یہ جستجو آج بھی قائم ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یک طرفہ محبتیں بڑی بدنصیب ہوتی ہیں؛ یہ ان قبروں کی مانند ہوتی ہیں؛ جن کا کوئی والی وارث نہیں بنتا۔ جو سہہ رہا ہوتا ہے وہی جانتا ہے کہ وہ کس قدر اذیت میں ہے؛ باقی سب قیاس آرائیاں ہی کر سکتے ہیں۔ میں اسے بے انتہا چاہتا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ میری چاہت کی آگ اس کے دل پر جمی سرد مہری کی برف کو ضرور پگھلا دے گی۔

Browse More Urdu Literature Articles