Main Kaun Hun - Article No. 1450

Main Kaun Hun

میں کون ہوں - تحریر نمبر 1450

”میں ایک عورت ہوں؟“ہاں سچ بھئی تم ایک عورت ہو۔

بدھ 23 اگست 2017

مسرت واحد خان: عجیب بات ہے کہ مجھ میں یہ احساس ہی ختم ہو گیا کہ میں واقعی ایک عورت ہوں۔ آخرکیوں یہ احساس ختم ہوگیا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں مردوں کی طرح جو کماتی ہوں۔ صبح سے شام تک جو کام کرتی ہوں اس لئے شاید مجھ میں عورت پن کا احساس ختم ہوگیا ۔ ارے تمہارے دو بچے ہیں۔گول مٹول پیارے سے بچے ہیں۔ہاں اب مجھے یاد آیاکہ میں ایک عورت ہوں۔ سوکھا سڑا جسم،کھچڑی سے بالوں اور یرقان زدہ جیسے چہرے والی ایک عورت۔
تم تو پہلے ایسی نہ تھی۔ لیکن وقت نے ایسا کردیا۔ آخر کیوں؟ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ تمہیں کیوں اتنا لالچ ہے؟ زیادہ پیسے کے لئے اوور ٹائم کیوں لگاتی ہو؟ بھئی یہ بھاگ دوڑ چلناپھرنا دھیرے کرو۔ اگر میں اتنا زیادہ کام نہ کروں تو گھر نہیں چلتا۔ ارے خدانخواستہ تمہارا شوہر نہیں ہے کیا؟ ایسی باتیں مت کرو۔

(جاری ہے)

خداکرے اس کا سایہ ہمیشہ ہمارے سر پرسلامت رہے۔

تو پھر وہ کیوں نہیں کماتا؟ اسے نوکری نہیں ملتی۔ ہماری شادی ہوئی تو ہم دونوں نے نوکری کی تلاش شروع کی مجھے مل گئی۔ اس کو ملی بھی تو اس کے معیار کے مطابق نہیں تھی۔ اس کا معیار کیا ہے؟ اس کے معیار میں تنخواہ بے شک کم ہو لیکن اوپر کی آمدنی زیادہ سے زیادہ ہو۔ اب اس طرح کی نوکری چھ برس ہوئے نہیں ملی۔ اب جب تک نہیں ملتی تو گھر مجھے چلانا پڑے گانا․․․․ اب تو خیر اس نے نوکری کی تلاش ختم کردی ہے کیونکہ میں جو نوکری کررہی ہوں ۔
ویسے میرا شوہر اپنے آپ کو مغربی مرد کی طرح سمجھنے میں فخر محسوس کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا چاہیے یہ نہ کہ مرد کماتا رہے اور عورتیں اس کی کمائی کو گھر بیٹھ کر عیش سے اڑاتی رہیں۔ اس لئے وہ میری نوکری کے بالکل خلاف نہیں لیکن جب میں گھر میں قدم رکھتی ہوں تو پھر وہ مجھے مشرقی بیوی کی طرح دیکھنا پسند کرتا ہے۔
گھر کاکام کرتی ہوئی، بچے سنبھالتی ہوئی اور اس کی ماں کی خدمت کرتی ہوئی۔ وہ یہ نہیں پسند کرتا کہ میں دفتر سے آکر بستر پہ آرام کرتی نظر آؤں۔ کیا تم اس کے حکم مانتی ہو؟ ہاں اس لئے کہ وہ طاقتور ہے اس کا حکم نہ مانوں گی تو نقصان میں رہوں گی۔ کیونکہ اب مجھ میں مار کھانے کی سکت بھی بالکل نہیں رہی۔ پتہ ہے اس دن میرے بچے کیا کہہ رہے تھے کہ امی آپ کون ہیں؟ امی ہیں کہ ابو؟ میں کہا یہ سوال تم نے کیوں پوچھا؟ اس لئے کہ ہمارے دوستوں کے ابو دفتر جاتے ہیں اور ان کی مائیں گھر سنبھالتی ہیں لیکن آپ دونوں کام کرتی ہیں۔
گھر بھی سنبھالتی ہیں اور دفتر بھی جاتی ہیں۔ پھر آپ کو کیا کہیں اور پھر یہ شخص کون ہے جو ہمارے گھر میں رہتا ہے نہ یہ کام کرتا ہے صرف ہم پر رعب ہی جماتا ہے۔ نہیں ایسے نہیں کہتے وہ آپ کے ابو ہیں اور میں آپ کی امی۔ لیکن ان کی سمجھ میں نہیں آیا آخر میں نے کہا جب تم بڑے ہوجاؤ گے تو خود سمجھ جاؤ گے۔ تو وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ آج تو حد ہوگئی۔ کیا ہوا؟ میں شام کو تھکی ہاری گھر آئی میری ساس نے نظر بھر کر مجھے دیکھا اور پاس بیٹھے میرے شوہر سے کہا”فرزانہ تو بالکل بوڑھی ہوگئی ہے تمہاری بیوی تو بالکل نہیں لگتی۔
رنگ روپ خزاں کے پتے کی طرح ماند پڑ گیا ہے مجھے تو لوگوں کے سامنے اسے بہو کہتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بیٹا تو کوئی ڈھنگ کی نوکری تلاش کرلے میں تمہارے لئے خوبصورت چٹی گوری لڑکی ڈھونڈ لاؤں گی۔ تمہارا دوسرا بیاہ کروں گی۔“”اچھا ماں“۔ میرے شوہر نے خوش ہوتے ہوئے کہا۔ اس کی آنکھوں میں چھلکتی ہوئی خوشی دیکھ کر میں نے سوچا کہ میں کون ہوں؟

Browse More Urdu Literature Articles