Makhiyon Ka Basdsha - Article No. 2027

Makhiyon Ka Basdsha

مکھیوں کا بادشاہ - تحریر نمبر 2027

پیر 22 اپریل 2019

ایک دن سقراط گاؤں کے ا سکول میں آیا۔ سب لوگ اسے جانتے تو تھے ہی۔

جونہی بچے بچیوں نے اس کی صورت دیکھی، ان کے چہرے خوشی سے چمک اٹھے۔

(جاری ہے)

پڑھنا لکھنا بھول گیا۔ اور سب کی نظریں دروازے پر گڑ گئیں۔
جہاں بڈھے میاں کھڑے بڑے غور سے بچوں کی صورتیں دیکھ رہے تھے۔

سقراط نے کچھ کہے سنے بغیر کمرے کا ایک چکر لگایا۔

پھر اپنے آپ سے منہ ہی منہ میں باتیں کرنے لگا۔
”نہ کسی کے کانوں میں مُرکیاں دیکھیں نہ ناک میں نتھ، نہ کسی کے چہرے پر میل، نہ کسی کی ناک بہہ رہی ہے، نہ ناخن بڑھے ہوئے ہیں (ایں، یہ کیا؟ اس بچی کے ناخن تو بڑھے ہوئے ہیں۔
کیسے افسوس کی بات ہے! لیکن نہیں یہ کوئی نئی لڑکی ہو گی) اور ہاں نہ کسی کا پیٹ بڑھا ہوا ہے، نہ چہرے پر زردی ہے، نہ آنکھیں خراب ہیں، نہ کپڑے میلے ہیں۔
سب کے چہروں پر خوشی اور مسکراہٹ ہے۔ معلوم ہوتا ہے اصلاح اور ترقی کے لئے جو ہم نے کوشش کی تھی وہ بے نتیجہ ثابت نہیں ہوئی“۔

چوتھی جماعت کے ایک شوخ لڑکے نے کہا۔ ”بڑے میاں یہ ہم پر منتر پڑھ پڑھ کر کیا پھونک رہے ہو؟“۔

سقراط یوں چونک اٹھا گویا وہ کوئی خواب دیکھ رہا ہو۔

بولا ”سلام اے لوگو! ہاں میں ایک خواب دیکھ رہا تھا“۔

”تو بڑے میاں! اس میں حیرانی کی بات ہی کیا ہے۔

ابا جان کہتے ہیں کہ تم خواب دیکھنے کے عادی ہو۔
لیکن ہم تو خواب نہیں دیکھ رہے ہم تو سب جاگ رہے ہیں“۔

”تو پھر ضرور میرے خواب میں سے ایک خواب سچا ثابت ہوا ہے“۔

ایک ننھے سے لڑکے نے کہا۔ ”واہ وا۔ لو اب سقراط میاں ہمیں ایک کہانی سنائیں گے“۔

سقراط کے آنے سے ماسٹر صاحب کا چہرہ بھی اپنے شاگردوں کی طرح خوشی سے دمکنے لگا تھا۔

انہوں نے پوچھا ”کہئے آپ کو کون سا خواب سچا ثابت ہوا؟“۔

”میں چھوٹے لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ایسا ا سکول دیکھ رہا ہوں جس میں گندگی نام کو بھی نہیں، جہاں نہ کوئی بچہ بیمار ہے، نہ کسی نے سونے چاندی کے زیور پہن رکھے ہیں۔

یہی خواب میرا سچا ثابت ہوا ہے“۔

ماسٹر صاحب نے کہا۔

”یہ تو کچھ بھی بات ہیں۔ مہینوں سے ہمارے ا سکول کی یہی حالت ہے کبھی کبھی کوئی نیا بچہ ا سکول میں داخل ہوتا ہے تو ہمیں تھوڑی سی تکلیف ہوتی ہے لیکن ہم جلدی ہی اسے بھی راہ پر لے آتے ہیں“۔

عین اس موقع پر ایک عورت داخل ہوئی۔ وہ چپ چاپ اور شرمائی ہوئی تھی لیکن تھی چست چالاک اور اکثر یہاں آیا کرتی تھی اس کے ہاتھ میں ایک کتاب اور کچھ کاغذ تھے۔

اسے دیکھ کر سب لڑکے اور لڑکیاں اٹھ کھڑے ہوئے اور جگہیں بدلنے لگے تھوڑی دیر میں سب لڑکے ایک طرف ہو گئے اور سب لڑکیاں دوسری طرف۔
تب اس عورت نے لڑکیوں کو سلائی کا ایک سبق پڑھانا شروع کر دیا۔
سقراط نے کمرے سے نکل جانا چاہا۔ مگر لڑکے اسے کب چھوڑنے والے تھے۔
سب کے سب چلا اٹھے۔ ہیں، ہیں بڑے میاں کہاں چل دیئے ٹھہرو تم ابھی نہیں جا سکتے۔
تم پہروں بیٹھے بڑی عمر کے لوگوں سے باتیں کرتے رہتے ہو۔
کیا ہم نے کچھ قصور کیا ہے؟

سقراط نے کہا۔

”یہاں میری ضرورت بھی کیا ہے جو کچھ تمہیں بتا سکتا ہوں۔
تم اور تمہارے استاد اس سے بہت زیادہ جانتے ہیں۔ میں کسی ایسی جگہ جاؤں گا جہاں میری ضرورت ہو“۔

استاد نے کہا۔ ”نہیں آپ نہیں جا سکتے۔ ہم نے سب کچھ آپ ہی سے سیکھا ہے۔

کچھ دیر یہاں ٹھہرئیے اور کوئی نئی بات بتائیے“۔

سقراط نے کہا۔

”میں کیا بتا سکتا ہوں؟ میں استاد تھوڑا ہی ہوں“

اسی شوخ لڑکے نے پھر کہا ”اچھا تو کوئی کہانی ہی سنا دو“۔

کہانی کا نام سننا تھا کہ سب لڑکے چلا اٹھے۔ ”ٹھیک ہے کہانی بھئی کہانی“۔

سقراط نے کہا۔ ”میں کہانیاں وہانیاں نہیں سنایا کرتا“۔

اس پر کئی لڑکے بول اٹھے۔ ”ہم نہیں مانتے تم بچوں والے ہو۔

اپنے بچوں کو تو ضرور کہانیاں سناتے ہوں گے“۔

سقراط نے کہا۔

”یہ کام میرا نہیں۔ ان کی ماں انہیں کہانیاں سنایا کرتی ہے لیکن تمہاری ماؤں کو اپلے تھاپنے ہی سے فرصت نہیں ملتی“۔

اس پر ننھی لڑکیوں نے ایک زبان ہو کر کہا۔

”ہر گز نہیں۔ تمہیں ہماری ماؤں پر الزام لگاتے شرم نہیں آتی“۔
انہوں نے تو یہ کام برسوں سے چھوڑ رکھا ہے۔

سقراط نے کہا۔

”خوب خوب، مجھے بہت ہی افسوس ہے کہ میں نے تمہاری ماؤں پر یہ جھوٹا الزام لگایا ہے۔
مجھے امید ہے تم معاف کر دو گے“۔

”معاف تب کریں گے جب تم ہمیں کوئی کہانی سناؤ گے“۔

”اچھا تو سنو، ایک تھا مگرمچھ بہت ہی بڑا… “۔

”رہنے دو، ہم ایسی بے ہودہ کہانی نہیں سننا چاہتے۔

سنانی ہے تو کوئی کام کی کہانی سناؤ“۔

”دیکھو میاں سقراط! عقل کے ناخن لو اور ہمیں اچھی کہانی سناؤ، جس میں بادشاہ ہوں، شہزادوں شہزادیوں کا ذکر ہو، اگر تم چاہو تو ایسی کہانی سنا سکتے ہو“۔

اچھا تو سنو، ایک تھا بادشاہ۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ، وہ ایک چھوٹی سی ریاست پر حکومت کرتا تھا۔

رعایا اس سے بہت خوش تھی۔ جہاں بادشاہ کا پسینہ گرتا وہاں رعایا اپنا خون بہانے کو تیار ہو جاتی“۔

لڑکوں نے کہا۔ ”اب آئے نا راہ پر، ہاں تو پھر کیا ہوا؟“

”اس چھوٹی سی ریاست سے ملی ہوئی ایک بہت بڑی ریاست تھی جس پر ایک بہت ظالم بادشاہ حکمران تھا۔

اس بادشاہ کی بڑی آرزو یہ تھی کہ کسی طرح اس چھوٹی ریاست پر قبضہ جما لوں۔
اس چھوٹی ریاست کے بادشاہ کے ہاں کوئی بیٹا تو نہ تھا ہاں ایک خوبصورت بیٹی تھی۔
بڑے بادشاہ نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر میرے بیٹے کی شادی اس بادشاہ کی بیٹی سے ہو جائے تو بادشاہ کے مرنے کے بعد اس کی سلطنت پر میرا قبضہ ہو جائے گا۔

لیکن چھوٹا بادشاہ اور اس کی رعایا اس کی نیت سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے اس کے بیٹے کی شادی اپنی شہزادی کی شادی کرنے سے انکار کر دیا۔

اس پر بڑا بادشاہ بہت ہی جھنجھلایا اور اپنے وزیروں کو بلا کر ان سے صلح مشورہ کیا۔
وزیروں نے کہا۔ اس چھوٹے بادشاہ نے ہماری ہتک کی ہے۔
ہمیں اس پر چڑھائی کر کے اس کی ریاست پر قبضہ کر لینا چاہئے۔
چنانچہ انہوں نے چڑھائی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ جب چھوٹے بادشاہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ اپنے دل میں بہت ڈرا کیونکہ اس کی فوج بڑے بادشاہ کی فوج کے مقابلے میں ایک چوتھائی بھی نہ تھی۔

اس چھوٹے بادشاہ نے اپنے امیروں وزیروں کو بلایا اور کہا ”اگر ہم لڑے تو یہ بادشاہ ہماری سلطنت پر قبضہ کر لے گا۔

اور اگر میں نے اپنی بیٹی اس کے بیٹے سے سے بیا دی تب بھی وہ ہماری سلطنت پر قبضہ کرے گا ہم کریں تو کیا کریں؟“

اس کی رعایا نے جواب دیا۔

”ہم لڑیں

Browse More Urdu Literature Articles