Mere Dard Ko Jo Zuban Miley - Article No. 1920

Mere Dard Ko Jo Zuban Miley

میرے درد کو جو زباں ملے۔۔تحریر: طیبہ ثناء - تحریر نمبر 1920

ابھی میں کچھ اور بولنے کے لیے لب کھولنے ہی لگا تھا کہ اس شخص نے جو کہ ایک سردار تھا، گرجدار آواز میں غصے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا

منگل 19 فروری 2019

"صاحب ! صاحب !۔۔۔اب نہیں کروں گا صاحب۔۔۔بس آخری بار۔۔۔ غلطی ہوگئی۔۔۔۔صاحب معاف کردو صاحب۔ یہ درد ناک آواز سن کر میرے چلتے قدم یکدم رک گئے۔لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی تھی سب ایسے خاموش تھے جیسے کوئی تماشائی تماشا دیکھا رہا ہو میں لوگوں کے درمیان میں سے گزرتا ہوا آگے بڑھنے لگا تو کیا دیکھتا ہوں اس بھیڑ کے بیچ و بیچ مجھے دو معصوم بچے التجائیں کرتے ہوئے نظر آگئے۔
میرے دل کو کچھ ہوا۔میں آگے بڑھا اور اس شخص سے پوچھا کہ ایسا بھی کیا کردیا ان معصوموں نے، جو تم ان پر اتنا ستم ڈھا رہے ہو ان معصوم بچوں کے نازک ہاتھ تک تم نے بے رحمی سے رسیوں میں جکڑ دئیے ہیں آخر اتنی اذیت، اتنا تشدد کیوں کر رہے ہو؟ تمہارا دل ہے کہ پتھر ! ابھی میں کچھ اور بولنے کے لیے لب کھولنے ہی لگا تھا کہ اس شخص نے جو کہ ایک سردار تھا، گرجدار آواز میں غصے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا کہ ،" شہری بابو لگتے ہو جو اس طرح بڑھ چڑھ کر ان چوروں کی وکالت کر رہے ہو۔

(جاری ہے)

تمہارے حق میں بہتر یہی ہے کہ ہمارے ذاتی معاملے سے تم دور رہو اور جس مقصد سے آئے ہو جاکر وہ کام کرو "۔ میں ضبط کے گھونٹ پی کر رہ گیا۔ اس کا ناگوار لہجہ بچوں کی خاطر بہت مشکل سے برداشت کیا اور کہا کہ دیکھو ! اگر ان بچوں سے کوئی غلطی سرزد ہوئی ہے تو مجھے بتاو۔ان کی آنکھوں میں انتہائی بے بسی تھی۔ سردار نے کہا،" ان دونوں نے میرے ہفتے بھر کی کمائی پر ڈاکہ ڈالا ہے ایسے کیسے چھوڑ دوں ان کو؟یہ سن کر میں حیران رہ گیا اور کہا ،"مجھے ایک منٹ بچوں سے پوچھنے دو کہ آخر وہ چوری کرنے پر کیوں مجبور ہوئے تھے"۔
سردار کا لہجہ اب تھوڑا نرم پڑا اور مجھے بچوں سے بات کرنے کی اجازت دے دی۔ بچوں نے روتے روتے اپنی داستان غم سنانا شروع کر دی کہ انہوں نے اپنی ماں جو کہ ٹی بی کے مرض میں مبتلا ہے اس کی ادویات کی خاطر چوری کی تھی۔ یہ سننا تھا کہ سب لوگ جو کہ صرف خاموش تماشائی تھے اب افسوس سے بچوں کی جانب دیکھ تھے۔میں نے اپنے آنسو صاف کیئے۔ سردار کو مطلوبہ رقم دی اور بچوں کو اپنے ہمراہ لے کر ان کے گھر روانہ ہوگیا۔
ان کی ماں نحیف و نزار چارپائی پر لیٹی اپنے بچوں کا انتظار کر رہی تھیں۔مجھے بچوں کے ہمراہ دیکھ کر حیران رہ گئی۔میں نے ادب سے ماں جی کو سلام کیا۔انہوں نے مجھے وعلیکم السلام کہا اور بیٹھنے کے لیئے چارپائی کی دوسری طرف اشارہ کیا۔میں نے بیٹھ کر انہیں تسلی دی ان کے علاج معالجے کے بارے میں ڈھارس بندھائی کہ میں ان کا مکمل علاج کرواوں گا۔یہ موذی مرض لاعلاج نہیں ہے۔آپ جلد ٹھیک ہو جائیں گی۔ میں بچوں کو جلد سکول میں داخل کروا رہا ہوں۔نجانے کتنے ہی معصوم روز کسی نہ کسی کے در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوں گے اور کسی ایسے شخص کی تلاش میں ہوں گے جو ان کو اندھیرو ں سے نکال کر روشنی کے سفر پر لے چلے۔

Browse More Urdu Literature Articles