Momin - Article No. 2060

Momin

مومن - تحریر نمبر 2060

پیر سید سعید بھٹی شریف اعتکاف میں بیٹھے تھے ، رمضان کی چھبیس تھی۔ گھر میں بڑی رات کی تیاری ہو رہی تھی۔ محلے کی ساری عورتیں ،ہر سال کی طرح بڑی رات میں یہاں ہی عبادت کریں گی۔

رعنا کنول جمعہ 31 مئی 2019

پیر سید سعید بھٹی شریف اعتکاف میں بیٹھے تھے ، رمضان کی چھبیس تھی۔ گھر میں بڑی رات کی تیاری ہو رہی تھی۔ محلے کی ساری عورتیں ،ہر سال کی طرح بڑی رات میں یہاں ہی عبادت کریں گی۔ سارے انتظامات ٹھیک ہونے چاہیے۔ میں نہیں چاہتا ، کسی کو بھی کوئی بھی شکائت ہو۔ سید سعید بھٹی شریف صرف اس گھر کے ہی نہیں بلکہ اس علاقے کے بڑے ہیں اور میں صرف ان کا بیٹا ہی نہیں ،ان کی گدی کا وارث بھی ہوں ۔
مومن نے اپنے والد کو دیر تک امی سے بات کرتے ہوئے دیکھا تھا،تو تجسس اور حیرت سے دیکھتا رہا۔
مومن کی امی نے مومن کو دیوار کےپیچھے چھپا ہوا دیکھ لیا تھا۔ مومن اُس وقت صرف سات سال کا تھا۔جب والد چلے گئے تو مومن دیوار کے پیچھے سے باہر نکلا۔اس نے امی سے پوچھا ، امی یہ اعتکاف کیا ہوتا ہے۔

(جاری ہے)

مومن کی امی نے مسکرا کر کہا،بیٹا رمضان کے آخری دنوں میں مسلمان یکسو ہو کر مسجد وں میں اعتکاف کے لیے چلے جاتے ہیں ۔

مومن نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ کیوں؟ امی کیا گھر میں اللہ نہیں ہوتا۔ مومن کی امی نے کہا۔ ایسا نہیں ہے بیٹا ،رب تو ہر جگہ موجود ہوتا ہے۔ مسجد اللہ کا گھر ہے نا۔ اس لیے۔ اور فرمان رسول ﷺہے کہ رمضان کی آخری راتوں میں اعتکاف کرو۔مومن نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ، امی تو آپ مسجد میں اعتکاف کیوں نہیں کرتیں ۔ مومن کے سوالوں سے اس کی امی پریشان تھیں چونکہ گھر میں پہلے ہی بہت کام تھے۔

امی نے مسکرا کر کہا،بیٹا مساجد میں مرد اعتکاف کرتے ہیں ،عورتوں کا اعتکاف گھروں میں ہی ہوتا ہے۔ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ والد صاحب گھر میں داخل ہو چکے تھے ۔ ان کو دیکھتے ہی مومن قریب پڑی کرسی پر آرام سے بیٹھ گیا۔ ان کی انکھوں میں آنسو تھے ،مومن نے امی کو پریشان ہوتے ہوئے پوچھتے سنا۔ کیا ہوا ؟خیریت تو ہے۔
والد صاحب کی آواز بھرائی ہوئی تھی۔
اس لیےمومن کو لگا وہ رو رہے ہوں ۔ وہ فوراً سے اُٹھا اور اپنے والدکی متضاد سمت جا کر دیکھنے کی کوشش کرنے لگا ۔ اس نے کبھی اپنے والد کو روتے نہیں دیکھا تھا۔ یہ کام تو امی کا ہے۔ آج ابا کو کیا ہوا؟مومن نے سوچا۔
جلد ہی مومن کو پتہ چل گیا۔ اس کے ابا کیوں رو رہے تھے۔ پیر سید سعید صاحب کا انتقال ہو گیا۔ جب ان کا سجدہ بہت طویل ہو گیاتو لوگوں کو حیرت ہوئی کہ وہ سر سجدہ سے کیوں نہیں اُٹھاتے۔
جب انہیں سجدہ سے اُٹھایا گیا تو ان کی روح اس دنیا فانی سے کوچ کر چکی تھی۔مومن بہت اداس تھا ۔اس کے دادا اسے بہت پیار کرتے تھے۔
امی یہ لوگ کیوں مر جاتے ہیں ۔ مومن نے امی سے پوچھا۔ امی نے افسردگی سے کہا، زندگی کے سفرکی منزل یہی ہے بیٹا۔ مومن نے تجسس سے پوچھا۔ کیا میں بھی مر جاوں گا۔ امی نے مومن کو پیار سے دیکھااور بولیں ''اللہ نہ کرئے۔
''مومن نے سوچتے ہوئے کہا۔ امی میں اعتکاف کروں کا ہی نہیں کہ مر جاوں۔ میں کبھی نہیں مروں گا۔ وہ خوش ہوتا ہوا امی کے کمرے سے چلا گیاجبکہ امی کی آواز اس کے کانوں سے ہلکی سی ٹکرا رہی تھی۔ موت سے فرار ممکن نہیں ۔ کل نفس ذائقہ الموت۔
مومن ان کا اکلوتا بیٹا تھا ،جو بہت منتوں ،مرادوں کے بعد شادی کے آٹھ سال بعد پیدا ہوا۔ اس کے دادا نے اس کی پیدائش پر فوراً دو نفل شکرانے کے ادا کرنے کے بعد محلے میں مٹھائی بٹوائی تھی۔
مومن کا نام بھی اس کے دادا نے یہ کہہ کر رکھا تھا کہ میں چاہتا ہوں یہ دین کے کام آئے ۔ اسے حافظ قرآن بنائیں گئے۔ مومن کے والد نے اثبات میں خوشی سے سر ہلایاتھا۔امی ماضی کی یادوں میں گم تھیں کہ مومن کی آواز نے انہیں چونکا دیا۔ امی میں گلی میں کنچے کھیلنے چلا جاوں؟وقت کے ساتھ اس کے والد اور دادا جی کی خواہش پوری ہو چکی تھی ۔ مومن نے تیرہ سال کی عمر میں پورا قرآن حفظ کر لیا تھا۔

وقت کسی کے لیے نہیں رُکتا ۔ مومن جوان ہو چکا تھا۔اسے اپنا نام پسند نہیں تھا۔مومن کالج میں بیٹھا سگریٹ پھونک رہا تھا، اس کے گرد اس جیسے ہی مذہب سے بے زار لڑکوں کا ایک گروپ موجود تھا ۔جو دولت کے علاوہ ہر شے کو بے کار سمجھتے تھے،خواہ وہ معاشرتی اقدار ہوں یا مذہبی رسومات ۔وہ دل کھول کر ان کا مذاق اُڑاتے۔ مومن کو شعر لکھنے پڑھنے کا شوق تھا وہ اپنے دوستوں کو اپنا نیا کلام سنا رہا تھا۔
جو ہر شعر کو سنے بغیر ہی واہ واہ کا راگ آلاپنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔
مومن نے پھر سُر لگایاٍ۔
آرٹیفشل دنیا ہے ،آرٹیفشل لوگ ہیں
آرٹیفشل عشق بیماریاں، آرٹیفشل روگ ہیں
دنیا عجب تماشا ہے ، مداری کا کچھ پتہ نہیں
مذہب ، دین ، دھرم کے نام پر پھیلے ہوئے یہاں روگ ہیں
ہم نے سب کچھ کر کے دیکھا ،سکون کی چڑیا کسی شاخ نہیں
جو سچ میں انساں کو سچ سے جوڑے ایسا بنا کوئی راگ نہیں
آنکھ میں اگرچہ سچائی بھی ہے، زبان مسلسل مگر جھوٹ بولتی ہے
ہر رشتے کی کشتی میں چھید ہے ، ہاتھ ہٹا لو ذرا تو ڈولتی ہے
خوشی میں تو یاد رہتا نہیں ،غم میں تیری طرف دوڑتے ہیں
مرتے وقت تجھے سوچتے ہیں ،خود کو تجھ سے جوڑ تے ہیں
ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جھومے بندر بولے تبدیلی آئی ہے
جیسا چلتا ہے چلنے دو، کڑوی بڑی دوائی ہے
واہ واہ کے سلسلے کے بعد معمول کی طرح مومن نے سب کو کھلایا پلایا۔
ساجد نے سموسے کو چباتے ہوے ،تمسخر خیز لہجے میں کہا۔''مومن یار یہ دھاڑی کٹوا دو۔ اسے دیکھ کر تو تم واقعی مومن لگتے ہو۔ایسے لگتا ہے کو نمازی ،پرہیز گار بندہ'' ۔۔۔۔۔۔ابھی وہ کچھ بولنے والا ہی تھاکہ مومن نے بُرا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔ ''دھاڑی کٹوائی تو میرے والد صاحب میری گردن کٹوا دیں گئے۔ وہ پاگل ہیں۔ مدرسے کے پڑھے ہوئے بنیاد پرست مولوی ۔
شکر ہے میری ماں نے مجھے مدرسے کی بجائے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھوایا ،نہیں تو آج تیرا یہ بھائی کبھی مسجد میں ہوتا تو کبھی مدرسےمیں اور باقی کا وقت قبرستان میں ۔''
ساجد نے کہا ''قبرستان میں ،اللہ نہ کرے۔''
مومن نے دانت پیستے ہوئے کہا۔'' اللہ کچھ نہیں کرتا یا ر ،جو کرتے ہیں یہ باپ دادا ہی کرتے ہیں ۔ میرے دادا پیر سید سعید بھٹی شریف نے میرے ابا کو اپنی گدی دی۔
''حارث نے ہنس کر کہا، ''اپنی گدی دینے کی کیا ضرورت تھی ،نئی لے دیتے ،آج کل تو ہر سال فیشن ہی بدل جاتا ہے۔ میں تو پُرانی چیز استعمال نہ کروں۔ ''
سارے دوست ہنستے رہے۔ مومن اپنے باپ دادا کو کوستا ہوا ،وہاں سے اُٹھ کھڑا ہوا۔وہ ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ پانچ سا ل کا تھا تو اس کی امی اسے نماز کے لیے جگا دیتی اور وہ اپنے والد کے ساتھ نماز پڑھنے جاتا۔
والد کی سختی نے اسے دین سے متنفر کر دیا تھا۔ وہ جس قدر اپنے بیٹے کو دین کے قریب دیکھنا چاہتے تھے مومن اسی قدر دین سے دور بھاگنے کی سوچتا تھا۔ اس نے ایک دفعہ اپنی امی سے بات کرتے ہوئے کہا ، امی میں بڑا ہو کر فلموں کے لیے گانے لکھوں گا۔مومن کو خبر بھی نہیں تھی کہ اس کے والد قبرستان کی حاضری سے واپس آچکے ہیں اور دروازے پر کھڑے اس کی باتیں سن رہے ہیں۔
انہوں نے مومن کو اپنے پاس بلایا ۔وہ پریشانی اور گھبراہٹ کے ساتھ ،والد صاحب کی طرف بوجھل قدموں کے ساتھ گیا۔ والد صاحب نے اس کے ہاتھ سے لکھا ہوا صفحہ چھین لیا۔ اسے پڑھا۔
دل جو دھڑکے کا تو دھڑکنے کا مزہ آئے گا
دیکھنا یہ ہے کہ دیوانہ کدھر جائے گا
کچھ تو سنوریں گئے ہم اُن سے ملنے کے لیے
کچھ دل بھی تو ان سے مل کر سنور جائے گا
والد صاحب نے گھور کر مومن کی طرف دیکھا ،آگے پڑھنا انہیں مناسب نہیں لگا۔
غصے میں ضبط کرنے والے لہجے میں بولے ۔ ''یہ پڑھ کر کون کہہ سکتا ہے کہ تم حافظ قرآن ہو۔ اس قدر بے ہوہ میرا بیٹا ۔''انہو ں نے کاغذ مومن کے منہ پر مارا۔
مومن کو ایسی شرمندگی محسوس ہوئی کہ اس نے گردن اوپر نہیں اُٹھائی ۔ اس کی والدہ نے باہر آ کر دھیمی آواز میں کہا ۔بچہ ہے ،ابھی معاف کر دیں ۔ میں بولوں گی اسے،آئند ہ گانے نہیں لکھے گا۔
والد صاحب نے غصے سے کہا ،بچہ چودہ سال کا نہیں ہوتا۔ مومن نے دانت پیستے ہوئے اس وقت کو کوسا جب وہ والدہ کو اپنی خواہش کا بتا رہا تھا۔
مومن کے والد نے اپنے لہجے کو برقرار رکھتے ہوئے کہا۔''یہ دنیا نظر کا دھوکا ہے ۔اگر لکھنا چاہتے ہو تو نعتیں لکھو۔ اگر عشق کا من ہو تو چوٹی کا عشق کرو، وہ عشق مجازی نہیں ،عشق حقیقی ہے۔ انسان کو اس کی اصل سے جوڑتا ہے۔
یہ جوانی چار دن کی ہے بیٹا ،انکھوں پر ایک پٹی سی ہوتی ہے۔دماغ پر ایک نشہ سا مگر اگرقابو کھو دیا تو جہنم سے کیسے بچو گئے۔ ''والد صاحب دیر تک سمجھانے کے بعد جا چکے تھے۔ان کے جاتے ہی مومن نے گردن کو اوپر کیا اور انکھو ں کو اپنے پیروں سے ہٹاکر اپنی ماں کی طرف دیکھ کر کہا۔ امی ،ابا تو ایسے جہنم ،جہنم کرتے ہیں ۔جیسے رہ کر آئے ہو وہاں ۔والدہ نہ چاہتے ہوئے بھی ہنس پڑی ۔
مومن نے منہ بناتے ہوئے کہا۔کاش امی میں یہاں پیدا نہ ہوتا۔ اسے ایک ماہ پہلے کھائی ہوئی مار یاد آ گئی ،والد صاحب کو گھورنے کی سزا کے طور پر اسے ملی تھی۔

مومن بستر پر لیٹا ماضی کی یادوں سے الجھ رہا تھا کہ دروازے پر دستک نے اسے چونکا دیا۔ امی نے دستک کے بعد اندر آتے ہی کہا۔ رمضان آ رہا ہے ۔تمہارے والد صاحب بلا رہے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اس بار مسجد میں ان کی جگہ تراویع تم پڑھاو۔
مومن نے حیرت سے کہا ،کیوں ۔امی نے اس کے پاس بستر پر بیٹھتے ہوئے کہا ،اس لیے کہ اب وہ وقت آنے والا ہے جب وہ اپنی ولایت تمہیں دیں ۔ آخر تم ہمارے اکلوتے بیٹے ہو۔مجھے امید ہے کہ تم۔۔۔۔۔مومن نے اپنی ماں کی بات کو کاٹتے ہوئے کہا۔ امی میں آپ کے بیٹے کے ساتھ ایک انسان بھی ہوں ۔ جیتا جاگتا انسان۔ جو خود سوچتا ہے ،سمجھتا ہے۔ کاش میں کوئی بکرا ہوتا ،آپ لوگ مجھے حلال کر کے کھا بھی جاتے تو اف تک نہ کرتا۔

امی نے اس کے سر پر چپت لگا ئی کسی باتیں کرتے ہو۔ کتنا پیار کرتے ہیں ہم سب تم سے اور تمہارے ابا وہ تو جانے کیسی کیسی امیدیں رکھتے ہیں تم سے ۔ تمہیں کیوں ایمان کی روشنی محسوس نہیں ہوتی مومن۔ مومن 'کیسا پیارا نام رکھا ہے ،ہم نے تمہارا۔
مومن نے امی کو افسردگی سے دیکھ کر کہا۔ یہ نام ہے مومن ۔ سکول میں بچے مجھے چڑھاتے تھے۔ وہ کہتے تھے ، یہ فقط نام کا ہی مومن ہے اور آپ کو پتہ ہے اس نام کو بتاتے ہوئے بھی مجھے اب شرم آتی ہے ۔
بندہ کیا بتائے ۔میں مومن ہوں۔ہاہا ہا۔
امی نے ایک اور ہلکی سی چپت سر پر لگائی۔ نہ جانے کب سدھرے گا تو۔مگر میں جانتی ہوں ۔ گلاب کے ساتھ گلاب لگتے ہیں اور کیکر کے ساتھ کیکر ۔اللہ تعالیٰ ہماری دعاوں کو قبول ضرور کرئے گا۔ ہمارے نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ نماز جنت کی کنجی ہے۔ تمہاری نماز تمہیں ضرور ایمان نصیب کروائے گی۔ مومن نے ہنس کر کہا امی بُرا نہیں منانا مگر یہ جو سارا دن ٹخنے دھوتے ہیں نا اس سے اندر کی گندگی صاف نہیں ہوتی۔
ایمان صرف مصلے پر بیٹھنا ہی نہیں ہے۔کیا کبھی ابا نے آپ سے پوچھا ہے کہ آپ کیا چاہتی ہیں ۔ مجھ سے بھی کبھی نہیں پوچھا۔ یہ کیسا ایمان ہے جو انسان کو انسان سے نہیں جوڑتا ۔یہ ایمان انسان کو خدا سے کیا خاک جوڑے گا۔
امی نے منہ بناتے ہوئے کہا۔ تمہاری باتیں میری سمجھ کی نہیں ۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں ۔نماز فرض ہے اور صفائی نصف ایمان ۔
تم ظاہر کو صاف رکھو ۔ باطن کو رب ضرور پاک کر دے گا۔ مومن نے ہنس کر کہا۔ باطن کو پاک رکھنا میری زمہ داری نہیں ہےکیا؟امی نے نفی میں سر ہلایا اور کمرے سے باہر جانے کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔مومن اکیلے ہی اکیلے مسکراتا رہا۔
کالج میں اس کی دوستی جن لڑکوں سے تھی سب کے سب بُری شہرت کے حامل تھے۔ مومن ان میں واحد ایسا تھا جو چہرے پر دھاڑی سجائے تھا۔
مومن چونکہ انہیں کھلاتا پلاتا تھا تو وہ اس سے بہت محبت جتاتے۔ اس کے ابا جان کے رویے پر افسوس کا اظہار کرتے ۔ یوں مومن انہیں اپنا سب سے بڑا ہمددر سمجھتا تھا۔
رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا تھا۔ مومن دیر تک رات مسجد میں ہی ہوتا تھا۔ وہ لوگوں کے چہروں کا بغور جائزہ لیتا ۔ جن پر سمیٹ لینے کی چاہ ،حد درجہ ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ عبادت کرنے کی طلب۔
وہ دل ہی دل میں سوچتا۔جو لوگ گن گن کر عبادت کرتے ہیں انہیں کیا خبر آگے کی گنتی کیا ہے۔ اگر رب کے نزدیک ہمارا جمع کردہ سمندر قطرہ ہوا تو۔ اگر رب کو وہ قطرہ بھی گندہ ہی محسوس ہوا تو۔ ان لوگوں کے چہرے تب کیسے ہوں گئے۔
والد صاحب درس دینے میں مصروف تھے۔وہ ایمان کی حلاوت کا ذکر کر رہے تھے۔ ایمان کا بھی ذائقہ ہوتا ہے۔ یہ ذائقہ وہ محسوس کرتا ہے جو دنیا کی لذات کو ترک کر دیتا ہے۔
مومن کے چہرے پر تمسخر خیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا، اب رب نے ایسی خوبصورت دنیا مذین کی ہے ،یہاں لذات کی بھرمار ہے ایسے میں کیسے ممکن ہے کہ ایک ذائقہ کے لیے ہر ذائقہ کو فراموش کر دیا جائے۔ اس کے دماغ میں گانا اپنی مکمل تصاویر کے ساتھ چلنے لگا۔ والد صاحب کی جلالی آواز نے اس کے تصور کو درمیان سے چیر کر رکھ دیا۔
''میرا رب کہتا ہے کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔
موت کی کوئی عمر نہیں ،نہ ہی وقت مقرر ہے۔ جسم سے جب روح کھینچ لی جاتی ہے تو بچتا ہے کیا ؟ مٹی کا یہ جسم ۔ اس مٹی کے جسم کے لیے ہم لذات کا ایک ڈھیر جمع کرتے ہیں مگر روح کھینچ لیے جانے کے بعد یہ مٹی کا پتلا ایک ہلکی سی جنبش بھی نہیں کر سکتا ۔ انسان پھر کیسے اس ذائقہ کو فراموش کرنے کی کوشش کرتا ہے جواذل سے ہے جو ابد تک رہے گا۔ جس کے لیے حضرت ابراہیم ؑ نے آگ میں کود جانا گوارا کیا۔
جس کے لیے حصرت اسماعیل ؑنے گردن کٹوانے کے لیے رضامندی ظاہر کی۔ ایمان کی حلاوت کیا ہے ؟کیسی ہے یہ تو بس محسوس کی جاتی ہے۔ نہ سمجھائی جا سکتی ہے نہ بتائی جا سکتی ہے۔ سوچو ! سوچو ! بلال حبشی ؓ نے کیوں جلتی ریت پر ایمان کو نہیں چھوڑا ۔ کیونکہ جو ایمان کا ذائقہ چکھ لے وہ پھردنیا کی کسی شے میں لذت محسوس نہیں کرتا۔ ''
مومن نے گھور کر والد صاحب کی طرف دیکھا۔
وہ ان کی انکھوں میں اُتر جانے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ پھر تمسخر خیز مسکراہٹ کو چہرے پر سجائے ، سوچوں کی دنیا میں غوطہ لگا رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ ابا سچ میں ایمان کی لذت کو جانتے ہیں یا پھر ایسے ہی۔ سچ میں ایمان کی لذت محسوس ہو جائے تو دنیا کی کسی شے میں لذت محسوس نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہے تو ابا کو تو چنے کی دال کا حلوہ بڑا پسند ہے۔
ذرا سا اگر فرق رہ جائے تو امی کو کیسی کیسی باتیں سناتے ہیں ۔ اس نے دل ہی دل میں کہا۔پھر ایک گرج دار آواز نے اس کی سوچوں کے دھارے کو توڑ دیا۔
یہاں تک کہ مومن اپنے خیالوں سے نکل کر اپنے والد صاحب کے درس کو سننے پر مجبور ہو گیا۔ اس کے والد نے پرجوش لہجے میں کہا'' مومن جب اپنے رب کی طرف متوجہ ہو کر اس سے رجوع کرتا ہے تو میرا رب اس کے دل میں القا کرتا ہے وہ اسے سیدھی راہ دیکھا دیتا ہے۔
۔۔۔میرا رب اپنے مومن بندے کو کبھی مایوس نہیں کرتا۔ میرےبھائیوں یہ رمضان سال میں ایک بار آتا ہے۔ برکتیں سمیٹ لو۔ اعتکاف کرو ،اس رب سے قربت لازمی ہے ،جو اپنے بندوں سے ستر ماوں سے بڑھ کر محبت کرتا ہے۔''درس ختم ہونے کے بعد مومن کچھ دیر مسجد کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھا رہا،طرح طرح کی سوچیں ،شعروں کی صورت اس کے اذہان سے ٹکرا رہی تھیں۔

مومن تھکے تھکے ذہن اور بوجھل قدموں کے ساتھ گھر لوٹ آیا ۔بستر پر سو نے کے لیے لیٹا ہی تھا کہ اسے عجیب سی آوازیں سنائی دیں ۔اس نے ہر آواز کو نظر انداز کیا اور سونے کے لیے کروٹ لی ۔ رات کے دو ہو چکے تھے۔ ابھی وہ سویا ہی ہوا تھا کہ کسی نے بہت ذور کا اس کے منہ پر طمانچا مارا۔ وہ اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ ایک پولیس والا اس کے سر پر کھڑا تھا۔
اس نے انکھیں ملتے ہوئے کہا۔ کیا ہوا؟ دوسرا طمانچہ پڑا ہی تھا کہ وہ سیدھا کھڑا ہو گیا۔
پولیس والوں نے مار مار کر اسے پولیس جیپ میں ڈالا اور تھانے لے گئے۔ مومن کو اتنی مار کے بعد اب ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ کوئی سوال پوچھے۔ اس نے جیل میں بیٹھے آدمی سے کہا ، ''وقت کیا ہے ؟ مجھے روزہ رکھنا ہے۔ ''وہ آدمی ہنسا اور بولا ۔''روزہ ؟تم نے روزہ رکھنا ہے۔
''
وہ پھر ذور سے ہنسنے لگا۔ مومن نے اپنے چہرے کے زخموں کو ہلکے سے چھو ا ، جو درد کر رہے تھے۔ مومن کے قریب ہوتے ہوئے اس مجرم نے کہا ۔''کیا جرم کیا ہے تم نے'' مومن کچھ دیر اسے گھورتا ہی رہا ۔ وہ تو خود نہیں جانتا تھا کس جرم کی پاداش میں اسے اس قدر مار مار کر یہاں لایا گیا ہے ۔ وہ تو مسجد سے درس سن کر بستر پر لیٹا تھا۔وہ خاموش ہی رہا ۔ ابھی وہ سوچ ہی رہا تھا کہ انسپکٹر نے اپنے ساتھی سے بات کرتے ہوئے کہا۔
''اوہ اس کانام مومن ہے۔ دور بدل گیا ہے یار اب کافر اور مومن میں فرق نہیں رہا۔'' مومن کو گھٹن محسوس ہو رہی تھی۔ سلاخوں کے پیچھے رہنا کس قدر بھیانک ہوتا ہے ۔اسے اس کا احساس پہلی بار ہو رہا تھا۔ وہ چاہ کر بھی پوچھنے کی ہمت نہیں کر پا رہا تھا ۔
کچھ دیر گزری ہی تھی کہ ایک بھاری بھرکم پولیس والا سلاخوں کے باہر کھڑا تالا کھول رہا تھا۔ مومن کو اپنے ہاتھوں و پاوں میں کپکپاہٹ محسوس ہوئی ۔
کاش کہ زمین کھلے اور وہ زمین میں دھنس جائے ۔اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ اتنے میں وہ پولیس والا اس کے نزدیک پہنچ چکا تھا۔ مومن دھیرے دھیرے پیچھے کی جانب چلتا ہوا دیوار تک جا پہنچا۔
پولیس والے نے مومن کو گریبان سے پکڑ لیا۔ مومن کے دل کی دھڑکن بہت تیز ہو چکی تھی۔ پولیس والے نے دو تھپڑ مارنے کے بعد غصے سے گرج کر کہا۔'' ابھی بڑا خوف آ رہا ہے قتل کرتے خوف نہیں آیا۔
معصوم لڑکی کا حشر بگاڑ دیا تو نے۔'' مومن نے حیرت سے پولیس والے کی طرف دیکھا۔ اس نے کوشش کی کہ پوچھے کون لڑکی مگر بولنے سے پہلے ہی پڑھنے والی لات نے اسے رکوع کرنے پر مجبور کر دیا۔آہ ، کی ذور دار آواز اس کے وجود سے نکلی۔
پولیس والے نے چیخ کر کہا۔ تیرے ساتھ کون کون تھا۔ نام بول۔ مومن نے فقط نفی میں سر ہلایا ہی تھا کہ پولیس والے نے اب کی بار گردن پر اس ذور سے ہاتھ مارا کہ مومن کو لگا اس کی گردن کی ہڈی ٹوٹ گئی۔
اس نے ذور دار آواز میں ''اللہ ''کہا۔
پولیس والا کافی دیر تک مارتا رہا ،جب تھک گیا تو باہر سے کرسی منگوا کر بیٹھ گیا۔ مومن کو سانس لینا بھی دشوار لگ رہا تھا۔ پولیس والے نے ایک پیپر اور پن مومن کو تھما دیا اور اس کے منہ کو اپنے ہاتھ سے دبوچ کر نفرت بھرے لہجے میں بولا۔''جو جو کتا تیرے ساتھ اس کام میں تھا ،اس کا نام لکھ اور اپنا جرم قبول کر ، ایک معصوم لڑکی کو کس طرح تم لوگ وہاں لے کر گئے۔
کیسے قتل کیا۔ سب کچھ ۔ اگر سیدھے طریقے سے قبول نہیں کیا تو تیرے جسم کی ساری ہڈیاں توڑ دوں گا۔''
پولیس والا گالیاں دیتا ہوا باہر جا چکا تھا۔ مومن نے بڑھی مشکل خودکو گھسیٹ کر دیوار سے ٹیک لگا دی۔ اس نے کاغذ پر لکھنا شروع کیا۔
''سر آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے ، میں تو مسجد میں تراویع پڑھا کر''
پولیس والا اس کے سر پر آ موجود ہوا ۔
اس نے کاغذ دیکھا تو غصے سے ایک لات مومن کی کمر پر دے ماری ۔مومن نے دروازے کی طرف دیکھا جو کھلا تھا۔ مومن کاجی چاہا کہ وہ کسی طرح بھاگ کھڑا ہو۔ بھاگنا تو دور کی بات تھی وہ اُٹھ کر کھڑا ہونے کے قابل نہ تھا۔
پولیس والے نے گرجتے ہوئے کہا۔''مجھے غلط فہمی ہوئی ہے۔ ہاں (ایک لات اورماری ) مجھے غلط فہمی ہوئی ہے( ایک لات اورماری)۔مومن نے روتے ہوئے کہا۔
''سر میں آپ کو کیسے یقین دلاوں ،میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ ''
پولیس والے نے اسے گھور کر دیکھا اور نفرت بھرے لہجے سے بولا۔ ''شاعری کرتا ہے تو''
مومن کو اپنے منہ میں خون کا گندہ ذائقہ محسوس ہو رہا تھامگر وہ خوف کے مارے تھوکنے کی بجائے تھوک نگل رہا تھا۔ اس نے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا ۔'' جی سر۔''
پولیس والے نے تمسخر خیز ہنسی ہنستے ہوئے کہا۔
'' چل سچ بولنا تو شروع ہوا۔ اب یہ بھی بتا کہ قتل کیسے کیا ۔ اور کون کون تھا تیرے ساتھ۔''
مومن نے اپنے پیٹ پر ہاتھ سے رگڑتے ہوئے کہا۔ سر آپ مجھ سے کسی کی بھی قسم لے لیں ۔ میں کسی لڑکی کو نہیں جانتا ۔ نہ ہی کبھی کسی لڑکی سے ملا ہوں ۔ پولیس والے نے مومن کو گھورتے ہوئے کہا۔''اچھا ۔''
پولیس والا باہر جا چکا تھا ۔واپس آنے کے بعد اس پولیس والے کے ہاتھ میں کاغذ تھے ۔
اس نے لا کر مومن کے ہاتھ میں دیتے ہوئے کہا۔ یہ شاعری تیری ہے۔ مومن نے لکھے ہوئے صفحات کو غور سے دیکھا۔
اب تو صنم یہ حال ہے میراپل پل تم کو سوچوں میں
میرے دل کو نہ جانے ہوا کیا؟ہر پل تم کو کھوجوں میں
***
میری بے چینی کچھ کم ہو کوئی انتظام کرو
میری سوچوں میں جو آنا ہو تو اہتمام کرو
میں کیا ہوں ، کیا کروں یہ سوچنے دو مجھ
ابھی مومن اپنے لکھے ہوئے شعروں کو دیکھ ہی رہا تھا کہ پولیس والے نے کاغذ مومن سے کھینچتے ہوئے کہا۔
'' کچھ یاد اشت واپس آئی ۔ یہ کاغذ اس لڑکی کے پاس ملے ہیں ،جس کا تم نے قتل کیا ہے۔ ''
مومن نے اپنے سوجھے ہوئے ہونٹ پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔'' سر یہ کاغذ واقعی میرے ہاتھ کے لکھے ہیں لیکن ۔۔۔۔۔۔مومن نے روتے ہوئے ،سر اپنے گھٹنوں پر رکھ لیا۔یہ میرے دوست نے لے لیے تھے''
پولیس والے نے گھورتے ہوئے کہا۔''کیا نام ہے تمہارے اس دوست کا''
مومن نے دھیمی سی آواز میں کہا ''ساجد۔
''
پولیس والے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ ''پتہ بتاو ، ساجد کا اور فون نمبر بھی دو۔''
مومن نے پولیس والے کو ''ساجد کا پتہ اور فون نمبر دیا۔''
مومن کو اب تک یقین نہیں آ رہا تھا کہ اس کا دوست ساجد کسی لڑکی کا قتل بھی کر سکتا ہے۔ وہ کسی لڑکی سے محبت کرتا تھا ۔یہ بات اس نے مومن کو بتائی تھی۔ ''امثال ''اس نے اپنے ذہین میں نام کو دہرایا ۔
مومن کے درد کی وجہ سے آنسو نکل رہے تھے۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ۔ صرف شعر لکھنے کی اتنی بڑی سزا۔
اسے یاد آیا کیسے مومن کی لکھی ہوئی شاعری کے بہت سے صفحات ساجد نے پھاڑ لیے تھے۔ جب اس نے مومن کا رجسٹر دیکھا تو خوشی سے اُچھل پڑا تھا۔'' ارے واہ یار ۔ اس نے خوش ہو کر کہا۔تم تو کمال کا لکھتے ہو۔ اتنی اچھی لکھائی اور ایسی شاعری۔مجھے یقین ہے کہ وہ خوش ہو جائے گی۔
'' مومن نے ہنس کر کہا تھا۔''ارے یہ تمہاری امثال کے لیے نہیں ہے۔ مجھے واپس کرو''
ساجد کاغذ لے کر بھاگ گیا۔ مومن ،کو اپنے کان میں ہلکی سی آواز سنائی دی ۔اسے ایسے لگا ، جیسے اسے اس کی امی نے پکارا ہو۔ مومن کے آنسو ٹپ ٹپ گِر رہے تھے۔ اسے اپنے والد کا خیال آیا ،جو اس سے جانے کیسی کیسی امیدیں رکھتے تھے۔ کیا ؟ انہیں پتہ ہو گا کہ میرے ساتھ یہاں کیا ہو رہا ہے۔
اس نے بے چینی میں ارد گرد دیکھا۔ اس نے دروازے سے باہر دیکھا۔ پولیس انسپکٹر کی ٹیبل پر پانی کا آدھا گلاس پڑا تھا۔ وہ حسرت سے کافی دیر تک پانی کو دیکھتا رہا۔ ذور سے آواز دے کر پانی مانگنے کی نہ اس میں ہمت تھی اور نہ ہی طاقت۔
کبھی وہ اس وقت کو کوستا ،جس میں وہ شاعری کرتا رہا تھا اور کبھی ساجد کو کوستا ۔کب اسے نیند آ گئی ۔ اسے پتہ بھی نہیں چلا۔
خواب میں وہ تلاوت قرآن کر رہا تھا۔اس نے تلاوت ختم کی ہی تھی کہ اسے اپنے والد کی آواز سنائی تھی ۔ اللہ پاک فرماتا ہے کہ ہم اپنے بندے کو تنہا نہیں چھوڑتے۔ اللہ کی دد سے مایوس تو کافر ہوتا ہے۔ مومن کبھی اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتا۔ اچانک کسی کے رونے ،چیخنے کی آوازوں سے اس کی انکھ کھل گئی ۔ پولیس والے اب ساجد کو پکڑ کر لا ئے تھے۔
مومن دیوار سے ایسے ڈر کر چپک گیا ،جیسے اسے بھی مار پڑنے لگی ہے۔
ساجد کو اسی انسپکٹر نے بُرے طریقے سے مارنا شروع کیا۔ ساجد روتا جاتا اور کہتا جاتا ۔ ''میں اس کا قتل کیوں کروں گا ۔سر ۔میں تو اسے بہت پسند کرتا تھا۔پولیس انسپکٹر نے اس کی گردن مڑوڑتے ہوئے کہا۔''تو نے جو اپنے دوست سے شعر لکھوائے تھے نا!اس کے منہ میں ٹھنسے ہوئے ملے ہیں ۔
بول اور بتا ۔ تم دونوں نے مل کر اسے مارا ہے نا۔ زبان تو میں کھلوا لو ں گا۔ سیدھے سے نہیں تو الٹے سے۔اس کی پوسٹ ماٹم رپوٹ آ جائے ۔ پھر دیکھنا۔''
مومن خاموشی سے ساجد کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ، شاہد ساجدبھی میری طرح بے قصورہو۔ ساجد کو ابھی کم مارپڑی تھی ۔ انسپکڑ کے فون کال کی وجہ سے وہ ساجد کو چھوڑ کر باہر جا چکا تھا۔
مومن کے پاس آ کر ساجد نے افسردگی سے کہا۔''پتہ نہیں یہ لوگ ہمارا کیا کرنے والے ہیں ۔''مومن نے مایوسی سے سوچا ، پورا دن ہو گیا ۔کوئی بھی میرے لیے نہیں آیا۔ ابا کو مجھ پر یقین ہو گا یا نہیں ،کیا پتہ۔پولیس والے اندر آ چکے تھے ۔ انہوں نے ساجد اور مومن کو دبوچ لیا اور دروازے سے باہر لے آئے ،گھسیٹ کر انہیں پولیس جیپ میں ڈالا ہی تھا کہ ساجد تیزی سے بھاگنے لگا ۔
دونوں پولیس والے اسے پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے بھاگے ، مومن بھی سوچے سمجھے بغیر بھاگ پڑا۔ایک ہوٹل میں جا کر چھُپ کر بیٹھ گیا۔
منہ نیچے کر کے وہ ارد گرد دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تا کہ وقت کا اندازہ ہو سکے ۔اس کی نظر ٹی وی پر پڑی ۔ خبر دیکھ کر اسے پسینہ آگیا۔ ایک نوجوان نے گاڑی کے آگے آ کر خود کشی کر لی۔ وہ نوجوان کوئی اور نہیں ساجد تھا۔
مومن کو پورے جسم پرکپکپی محسوس ہوئی۔
ساجد کا شوخ مزاج ہونا ،ہنسنا بولنا،اس کے ساتھ گزاراہوا وقت مومن کی نظروں میں گھوم گیا۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر بچوں کی طرح رونے لگا۔ہوٹل کے مالک نے آ کر مومن کا سوجھا ہوا منہ اور گرتے ہوئے آنسو دیکھ کر کہا۔ بیٹا کیا بات ہے؟ مومن کچھ نہ بولا ،بس چپ چاپ روتا رہا۔ اس کے دل و دماغ میں قرآن کی آیت گونج رہی تھی۔
کل نفس ذائقہ الموت۔ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ وہ روتا رہا۔
ہوٹل کے مالک نے مومن کے لیے کھانا بھجوایا تو مومن نے دھیرے سے کہا۔'' میرے پاس پیسے نہیں ہیں ۔'' تھوڑی دیر بعد ہوٹل کا مالک پھر آیا اور مسکرا کر بولا ۔'' کوئی بات نہیں بیٹا رمضان ہے۔ ہم پیسے کے لیے تو پورا سال کھانا کھلاتے ہیں ۔ آج نیکی کے لیے کھلا دیتے ہیں ۔''
ہوٹل کا مالک جا چکا تھا۔
مومن کو پہلی بار اپنی ذات اس قدر حقیر معلوم ہوئی تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا ، ابا ٹھیک کہتے تھے ۔یہ دنیا نظر کا دھوکا ہی تو ہے۔ ساجد کی جگہ میں بھی ہو سکتا تھا۔ اوہ میرے مالک ۔ وہ جیسے جیسے لقمہ اندر کرتا جاتا۔ آنسو اس کی انکھوں سے گرتے جاتے۔ بھوک کی شدت اسے کھانے پر مجبور کر رہی تھی۔ رات کے آٹھ بجے تھے۔اس نے کل سے کچھ نہیں کھایا تھا۔
زندگی اور موت پر تفکر کرتے ہوئے وقت کب گزرا اسے پتہ بھی نہ چلا ۔ سحری کا وقت تھا۔ ہوٹل میں پھر سے رش ہو چکا تھا۔ مومن کو بھی سحری دی جا چکی تھی مومن نے منہ دھویا اور سحری کرنے بیٹھ گیا۔ اس نے سحری کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دُعا مانگی۔''اے میرے مالک تیرا وعدہ ہے کہ تو اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا ہے ۔ میری توبہ بھی قبول فرما ۔ بے شک میں گمراہ ہو گیا تھا۔
اے میرے مالک مجھے اس دلدل سے نکال لے ۔ بے شک تو ہی عزت دینے والا ہے اور تو ہی ذلت دینے والا ہے۔''
مومن روزہ رکھنے اور نماز ادا کرنے کے بعد ہوٹل کے مالک کا شکریہ ادا کر کے ہوٹل سے نکل گیا۔ چلتے چلتے راستے میں قبرستان آیا تو وہ رُک گیا۔ زندگی میں پہلی بار وہ اپنی مرضی سے قبرستان کے اندر داخل ہوا ۔ وہ دیر تک وہاں بیٹھا روتا رہا۔اسے بہت سے خیالات نے گھیرے رکھا۔
روشنی پھیل چکی تھی۔
قبرستان سے نکل کر وہ گھر کی طرف روانہ ہوا ہی تھا کہ ایک بزرگ پریشان حال کھڑے نظر آئے گاڑیوں کی وجہ سے وہ سڑک کراس نہیں کر پا رہے تھے ۔ ان کے ساتھ ان کی اہلیہ بھی تھیں ۔ مومن نے فوراً سڑک کراس کی اور ان بزرگ کی مدد کے لیے ان کے پاس آیا ہی تھا کہ دو آوارہ قسم کے لڑکوں نے بھپتی کسی ۔'' رمضان ہے بھئی ہر کوئی مومن بن رہا ہے۔
''
مومن نے گھور کر ان کی طرف دیکھا اور اونچی آواز میں کہا۔''میں مومن ہی ہوں ۔''
وہ لڑکے اس کی رعب دار آواز سن کر وہاں سے جلدی سے چلے گئے۔مومن نے ان کا سامان اُٹھایا اور ان کی مدد کرنے کے بعد وہاں سے چل پڑا۔ وہ پھر دیر تک چلنے کے بعد دن کے وقت اپنے گھر پہنچا۔ دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ ایک پولیس والے نے اسے پکڑ لیا ۔مومن اس کے ساتھ خاموشی سے چل پڑا۔
اسے اپنے اندر عجیب سا اطمینان اُترتا ہوا محسوس ہوا۔
اسے اپنے والد کی آواز کان میں گونجتی ہوئی محسوس ہوئی۔دنیا کچھ بھی نہیں ۔یہاں اگر کچھ دن آرام کے نہ بھی ملے تو کوئی بات نہیں ۔ خاتمہ ایمان پر ہونا چاہیے۔ آپ کسی کے نزدیک اچھے ہوں نہ ہوں ۔ آپ کا دل پاک ہونا چاہیے۔ اور سن لو! مومن وہ نہیں جس کی محفل پاک ہو ۔ مومن وہ ہے ، جس کی تنہائی پاک ہو۔
قرآن کہتا ہے کہ مومن کیاسمجھتے ہیں کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گئے؟ پولیس والے نے اسے تھانے میں لا کھڑا کیا۔ جہاں اس کے والد وکیل کے ساتھ موجود تھے۔
مومن نے اپنے والد کی طرف دیکھا۔ وکیل نے کہا۔'' دیکھیں جی آپ کو اصل قاتل مل چکا ہے اور ہمارا لڑکا مومن توجس وقت اس لڑ کی کاقتل ہوا ہے مسجد میں تھا ۔ اس بات کی گواہی آپ کو بہت سے لوگ دیں گئے۔
ویسے بھی یہ لڑکا بہت شریف گھر کا ہے ۔اسے چھوڑ دیں ۔ ''پولیس والے نے کاغذ دیکھنے کے بعد کہا۔ ہم تو اسے پہلے ہی چھوڑ دیتے ۔ یہ بھاگ گیا تھا۔ مومن نے پولیس والے سے پوچھا ۔''قتل کس نے کیا تھا؟ ''
پولیس والے نے بتایا ، ''اس لڑکی کے منگیتر نے۔ اسے ساجد اور اس لڑکی امثال کا تعلق پسند نہیں تھا۔ اس نے پہلے امثال کو اور پھر ساجد کو قتل کیا اور پھر خود کشی کر لی ۔
خود کشی سے پہلے اس نے ایک کاغذ پر سب کچھ لکھا تھا۔ ''
مومن کی انکھوں میں آنسو آ گئے۔ شکر ہے میرے مالک ۔ تو نے مجھے ذلت سے بچا لیا۔ مومن نے دل ہی دل میں کہا۔
مومن اپنے والد کے ہمراہ گھر آ رہا تھا ۔ اس کی والدہ نے اسے آتا ہوا دیکھا تو خوشی سے روتی ہوئی اس سے لپٹ گئی۔
مومن نے وضو کیا اور شکرانے کے نفل پڑھے۔ وہ نماز پر بیٹھا رو رہا تھا اس کے والد اور والدہ کی انکھوں میں بھی آنسو تھے۔

شعر تو اب بھی اس کے دماغ کی دیواروں سے ٹکرا رہے تھے مگر اب ان کی نوعیت بدل چکی تھی۔
ایسے اُترا ہے مجھ میں تیرا وجود
سانس کوئی جسم میں اُتر آیا ہو
ایسے سرشار ہوا ہے دل تجھ سے
قطرہ جیسے پنکھڑی میں سمایا ہو
کیا کہوں تجھ سے ہمکلامی کیا ہے
گیت جیسے خاموشی نے گنگنایا ہو
مومن کی امی نے اس کے سر پر پیار سے ہاتھ پھیرا اس نے آنسووں بھرا منہ صاف کرتے ہوئے کہا۔'' امی اس بار میں بھی اعتکاف کروں گا۔ ''مومن کھڑا ہوا تو اس کے والد نے اس کے پاس آ کر مسکراتے ہوئے کہا۔''یہ ساری رمضان کی برکت ہے ۔ میرے رب نے میری دُعا قبول کر لی۔''سب کی انکھوں میں نمی تھی مگر دل اطمینان سے بھرے تھے۔

Browse More Urdu Literature Articles