Muhabbat Ka Rang Neela - Article No. 1005

Muhabbat Ka Rang Neela

محبت کا نیلا رنگ - تحریر نمبر 1005

رنگ اُس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ تھے۔ وہ رنگ رنگ کے لوگوں کی اس دنیا میں ہر وقت کچھ اس طرح کھویا رہتا کہ اس کو رنگوں کی شناخت کے سوا کسی کی کوئی نشانی یاد نہیں رہتی تھی۔ اس کی تمام عمر رنگوں اور ان کے اسرار کے گرد گھومتی تھی۔ اس کو سب ہی رنگ عزیز تھے

پیر 15 فروری 2016

عمار مسعود:
رنگ اُس کی زندگی کا سب سے اہم حصہ تھے۔ وہ رنگ رنگ کے لوگوں کی اس دنیا میں ہر وقت کچھ اس طرح کھویا رہتا کہ اس کو رنگوں کی شناخت کے سوا کسی کی کوئی نشانی یاد نہیں رہتی تھی۔ اس کی تمام عمر رنگوں اور ان کے اسرار کے گرد گھومتی تھی۔ اس کو سب ہی رنگ عزیز تھے۔ وہ لوگوں، عمارتوں، چہروں سے نہیں بلکہ رنگوں سے محبت کرتا تھا۔ اُس کی ہر کہانی کسی ایک رنگ سے شروع ہوکر کسی اور رنگ پر ختم ہوجاتی تھی۔

وہ لوگوں کو بھی رنگوں کے پیمانے پر پرکھتا تھا۔ حتیٰ کہ اس نے جذبوں کو بھی رنگوں کے نام دے رکھے تھے۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا کہ محبت کا رنگ نیلا ہوتا ہے۔یہ کہتے سمے اس کی آنکھوں میں ایسی گہری اداسی کا رنگ چھاجاتا جو ہر کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا۔
چھوٹے سے اس شہر کے سب سے بڑے اور مصروف چوک کے کونے پر برسوں سے صدیق رنگ ریز کی دکان اسی رنگ ڈھنگ سے چل رہی تھی۔

(جاری ہے)

ٹھیلے والوں کی آوازیں، رکشوں کا شور، ٹریفک کے سپاہی کی گالیاں، تانگے والوں کی صدائیں اور فقیروں کے ہجوم سے بے خبر، وہ برسوں سے کپڑے رنگنے کا کام بڑی لگن سے کررہا تھا۔ دکان کے باہر دوبڑے کڑاہوں میں تیز آگ پر ہر روز کوئی نیا رنگ چڑھا ہوتا تھا۔ ایک طویل الگنی پر تازہ رنگے ہوئے دوپٹے چوک کے باقی ماحول سے بالکل مختلف نظرآتے تھے۔ دکان میں اس کے سوا کوئی اور کاریگر نہیں تھا۔
وہی تمام رنگوں کا راز داں اور وہی مختار تھا۔ گاہک سے کپڑا وصول کرنے سے لے کر، رنگنے کے آخری مراحل تک وہ ہر کام خود اپنے ہاتھ سے کرتا تھا۔ وہ اکثر مجھ سے کہا کرتا تھا ”کاکا ! رنگ چڑھانا تو بڑی نیکی کا کام ہے۔کسی اور کا ہاتھ لگے تو رنگوں میں برکت نہیں رہتی اور برکت نہ ہوتو رنگ کبھی نہیں چڑھتا۔ “
رنگوں کی دنیا میں اتنے برس سے رہتے رہتے اس نے ہر رنگ کو اپنا ہی مفہوم دے رکھا تھا۔
اسے پتا تھا کہ ہر رنگ کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ جیسے وہ سرخ رنگ سے بہت گھبراتا تھا۔ اس بے باک رنگ کو رنگتے ہوئے ہمیشہ اس کی آنکھیں جھکی جھکی اور گال تمتمائے سے رہتے تھے۔ وہ شرم سے لال ہوجاتا تھا۔جب یہ سرخ رنگ کسی کپڑے پر غالب آجاتاتو وہ جلدی سے اسے نچوڑ کر الگنی پر سوکھنے کے لیے لٹکا دیتا اور دیر تک رگڑرگڑ کر ہاتھ دھوتا تھا۔ کہیں یہ رنگ اس کے ہاتھوں پر نہ رہ جائے۔
اس لیے کہ وہ جانتا تھا کہ یہ رنگ اس کا رنگ نہیں ہے۔ یہ رنگ اگر اس کے ہاتھ پہ رہ گیا تو داغ بن جائے گا۔ درد دے جائے گا۔
صدیق کو جب میں نے پہلی دفعہ دیکھا تو وہ تقریباً چالیس، بیالیس برس کا تھا۔تگڑا جسم، سانولی رنگت اور بھوری آنکھیں۔ چہرے، ہاتھوں اور لباس پر رنگ ہی رنگ تھے۔ وہ بہت آہستہ آہستہ ہر کام کو بڑے نپے تلے انداز سے کرنے کا عادی تھا۔
اسے کبھی کسی چیز کی جلدی نہیں ہوتی تھی۔ کپڑے رنگتے ہوئے اس کے چہرے پر عجیب محرومی کا سا تاثر ہوتا تھا۔ خالی خالی آنکھوں سے دھیرے دھیرے وہ سارے کام بڑے انہماک سے کرتا، جنہیں کرتے ہوئے اسے کئی برس گزر گئے تھے۔ ہاں البتہ اپنے رنگ بھرے ہاتھوں سے جب وہ کڑاہ میں آخری بار کپڑا بھگوکر نکالتا تو اس کی آنکھوں میں بس لمحہ بھر کے لیے ایک چمک ضرورآتی تھی۔
جسے وہ فوراً ہی اپنے آپ سے چھپا لیتا۔ وہ کہتا ” کاکا! کسی بھی ہنر کے غرور کا رنگ بہت کچا ہوتا ہے۔ ایک ہی دھلائی میں اتر جاتا ہے۔“
رنگوں کے متعلق اس کے اپنے ہی اصول تھے۔جب کوئی گاہک اسے اس کے اصول توڑنے کو کہتا تووہ اس کا کام تو کردیتا مگرکبھی بھی وہ رنگوں کو خراب کرکے خوش نہیں ہوتا تھا۔ وہ خالص رنگوں کا قائل تھا۔ وہ سبز کو سبزاور پیلے کو پیلا رنگ ہی رکھنا چاہتا تھا۔
شہر کی سیاست سے لے کر سماج کے روّیوں تک ہر چیز کو وہ رنگوں سے شناخت کرتا تھا۔جب شہر میں زیادہ لوگ سبز پٹکے بنوانے لگتے تو وہ ہمیشہ خوفزدہ ہوجایا کرتا تھا۔ یہ نہیں تھا کہ اس کو سبز رنگ سے محبت نہیں تھی مگر وہ کہتا تھا کہ ” کاکا کچے کپڑے پر پکا رنگ چڑھا بھی دو توکپڑا تو کچا ہی رہتا ہے نا“۔
بسنت کے دنوں میں جب پیلا رنگ اپنی پوری بہار پر ہوتا تو صدیق بھی اس رنگ میں رنگا جاتا۔
ان دنوں میں ہر کپڑا رنگتے ہوئے اس کے دل میں بھی دھمال پڑتی اور سرسوں کی فصل کٹتی۔ وہ دنوں میں جانے کتنی ہی بسنتی چُنریاں رنگ کر سارے شہر میں بانٹ دیتا۔ پھر جامن کی رُت آتی تو اس رنگ کا ذائقہ اس کو دنوں تک اپنے ہاتھوں پر محسوس ہوتا۔ مگر وہ کوئی بھی رنگ رنگتا، اس کی آنکھوں سے اداسی کا رنگ کبھی نہیں اترتا تھا۔
اس کی چھوٹی سی دکان کے اندر چھوٹے چھوٹے ڈبوں میں، بوتلوں میں،رنگ ہی رنگ بھرے تھے وہ جب ان ڈبوں یا پھر درازوں میں رکھی پڑیوں میں سے کوئی رنگ نکال کر کڑاہ میں ڈالتا تو اس کا انہماک کسی بڑے تخلیق کار کا ہوتا۔
جو خود سے ایک نیا رنگ تخلیق کرنے پر قادرہو۔ سارا شہر اس کے ہنرکو مانتا تھا۔ سب جانتے تھے کہ اس کا رنگا ہواکپڑا کبھی رنگ نہیں چھوڑتا۔ لین دین کے معاملات میں بھی وہ یک رنگی کا قائل تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اس کا مقصد پیسے کمانا تو ہے ہی نہیں۔ وہ تو بس رنگ بھرنا چاہتا ہے۔نئے نئے، اُجلے اُجلے۔میں نے اس سے کئی دفعہ کہا کہ ”تم کوئی بڑی دکان لے لو، بڑا سابورڈلگواؤ، چار چھ ملازم رکھو، پیسے کماؤ۔
“ تو وہ بغیرکسی تامل کے بولتا ”کاکا! رنگ کاروبار نہیں ہوتایہ تو محبت کی طرح ہوتا ہے، کسی لالچ کے بغیر کرو تبھی پکا چڑھتا ہے۔“
یوں تو صدیق رنگ ریز کو ہر رنگ سے محبت تھی مگر نیلا رنگ اس کو بہت عزیز تھا۔ یہ واحد رنگ تھا جسے رنگتے ہوئے اس پر عجیب سرخوشی اور مستی کی کیفیت ہوتی تھی۔ نیلے رنگ کو ہاتھ لگاتے ہی اس پرایک سُرور کی سی کیفیت طاری ہوجاتی۔
اس کے ہاتھ دیر تک اس رنگ سے باتیں کرتے اور اس کی انگلیاں اس رنگ سے کھیلتے کھیلتے نیلی ہوجاتی تھیں۔ اس کا جی چاہتا کہ ہر کپڑے کو نیلے رنگ میں رنگ دے۔نیلے رنگ سے کپڑے رنگنے کے بعد وہ کبھی ہاتھ نہیں دھوتا تھابلکہ جان بوجھ کر اپنے ہاتھ کی لکیروں کو نیلے رنگ میں چھپا دیتا تھا۔وہ ہمیشہ کہتا تھا ”کاکا! ہر آدمی کا اپنا اپنا رنگ ہوتا ہے، ہر رنگ ہر کسی کو راس نہیں آتا، نیلا رنگ میرا رنگ ہے۔
پانیوں کا،آسمانوں کا رنگ ہے۔ پرندوں کے پروں کا رنگ ہے، محبت کا رنگ ہے “۔
صدیق رنگ ریز نے تو مجھے نہیں بتایا مگر ارد گرد کے دکاندار بتاتے تھے کہ بہت سال پہلے ایک بڑی نیلی گاڑی میں نیلم رنگ کی عینک لگائے، لاجوردی ساڑھی میں ملبوس،کانوں میں آسمانی رنگ کے آویزے سجائے، نازک سی انگلی میں فیروزے کی انگوٹھی پہنے بہت ہی لمبے بالوں والی میڈم اس کی دکان پر آئی تھی۔
صدیق جو کبھی کسی کو آنکھ اٹھا کر نہ دیکھتا سحر زدہ سا اس کو دیر تک دیکھتا رہا۔ اُس نے کچھ کپڑے رنگنے کے لیے دئیے اور دوہفتے کے بعد آنے کا کہہ کر چل دیں۔ جب اُس نے پورے احترام سے وہ کپڑے تھامے تو اس کی انگلی کی پور اس نیل پری کی سفید کلائی سے ٹکرا گئی۔ لمس کے اس ایک لمحے نے صدیق کا رنگ ہی بدل دیا تھا۔کپڑے تو اس نے دو دن میں ہی رنگ دئیے پھر باقی دن اس نے بڑی بے چینی میں گزارے۔
دوہفتے گزر گئے لیکن کپڑے لینے کوئی نہ آیا۔ اس بات کو کئی برس گزر گئے وہ کپڑے آج بھی اُس کی دکان پر اُسی طرح تہہ کئے نیلے رنگ میں رنگے پڑے ہیں۔دن میں جب بھی کبھی اس کی نظر ان کپڑوں پر پڑتی تو ضبط کے مارے اس کا سیاہی مائل رنگ سفید پڑجاتا۔ آج بھی وہ چوک میں سب سے پہلے دکان کھولتا اور چوک کے خاموش ہونے تک اس میں بیٹھا رہتا ہے۔ تب سے آج تک وہ محبت کے رنگ کو نیلا رنگ کہتا ہے۔

میں وہ شہر چھوڑ کر کئی سال کے لیے ملک سے باہر چلا گیا مگر ان برسوں میں بارہا مجھے اس رنگ ریز کا خیال آتا رہا جو محبت کے رنگ کو نیلا رنگ کہتا تھا۔وطن واپس آکر جب میں چوک میں گیا تو پتہ چلا کہ وہ رنگ ریز تو پارسال سانپ کے کاٹے سے مرگیا ہے۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ مرنے سے پہلے صدیق کا سارا بدن نیلا ہوگیا تھا۔

Browse More Urdu Literature Articles