Normal - Article No. 2098

Normal

نارمل۔۔تحریر:انصر علی - تحریر نمبر 2098

میں نے پورے وثوق سے جلتی زمینوں کے سامنے اعتراف کیا ”ییس آئی ایم نارمل ہیومین بینگ۔“

منگل 16 جولائی 2019

یہ جان کر بھی کہ اس کی بلاک لسٹ میں صرف میرا نام ہے، میں نارمل تھا۔۔۔ بالکل نارمل۔۔۔دن بھر مجال تھی کہ اس کا خیال بھی آتا، میں تو چھچھورا تھا وہ نہیں تو کوئی اور سہی۔۔۔فلرٹ ہی کرنا تھا نا۔۔۔ رات گئے کبھی اپنی گود پر نظر پڑ جاتی تو اس کا خیال آ جاتا تھا پھر گھنٹوں دیوار کے سامنے کھڑا ہو کر اس سے فرضی شکوے کرتا رہتا تھا۔ مجھے پتہ تھا وہ مجھے ان بلاک کر دے گی، بڑی نویلی دوست تھی میری، میرے بغیر دل کیسے لگ جاتا اس کا۔
وہ اکثر مجھے اپنی محبت کے قصے سناتی تھی، شاید اس لیے بھی کہ میں اس سے جل جاؤں۔ بھلا میں کیوں جلتا بھئی، اس کی مرضی وہ جسے چاہے۔۔۔ میں تو محبت سے زیادہ فلرٹ کرتا تھا۔ پھر بھی میرا دل چاہتا تھا کہ اس خوبرو کو دیکھوں، اس سے ملوں، آخر وہ کیسا ہے جس سے اس پاگل عورت کو محبت ہوگئی ہے۔

(جاری ہے)

وہ بھی کچھ ہی دنوں میں فیس بک پر فرینڈ بن گیا۔ پوری وال چھان ماری مگر اس کی کوئی تصویر مجھے پسند نہ آئی۔

دل سے آواز آئی ”یار محبت اندھی ہوتی ہے“۔ نا چاہتے ہوئے بھی اس کے عاشق کی پروفائل پکچر میں نے اپنے فون میں سیو کر لی۔ دل چاہا اس سے بات کروں، میسنجر پر بات شروع ہوئی، پتہ چلا کہ محبت ابھی پھوٹی ہے۔ میسج کرتے ہی میرا نام، کام سب کچھ خود مجھے بتانے لگا، اپنی طرف سے محبت کا ثبوت دے رہا تھا کہ اپنی محبوبہ کے سارے عزیزو اقارب کی خبر رکھتا ہے۔
بالکل بچہ تھا۔ محبت کی الف،ب سے بھی بے خبر۔ ۔۔ ”میرے بارے میں اتنا کچھ جانتے ہو؟“ میں نے سوال اچھالا۔ ”جی ہاں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس سے جڑے ہر رشتے کی خبر ہے مجھے“۔ محبت کی دلیل دے رہا تھا۔ ”ارے واہ! اتنی محبت کرتے ہو؟ یار مجھے تو اس کے بہن بھائیوں کے نام بھی اچھے سے نہیں یاد جبکہ میں اس کا کزن ہوں اور تم تو ایسے ہی اسے کہیں رستے میں ملے تھے“۔
”بس یہی تو فرق ہے محبت نہ کرے والوں میں اور محبت کرنے والوں میں“ اس نے مزید دلیل گاڑھی۔ بندہ پوچھے یار محبت میں مرشد کے علاوہ کسی کو تکنے کی فرصت نہیں ہوتی اور تم آدھی قوم کے اٹھنے بیٹھنے پر پہرے دے رہے ہو۔ اس سے بات کر کے مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس ابنارمل عورت پر رشک کروں یا جا کر دو چماٹ لگاؤں۔۔۔ کہ اس قدر ظاہری محبت کی پجاری ہو تم۔
اگلی صبح ہی میرے پاس آئی اور کہنے لگی ”یار تم میری ہیلپ کرو گے؟ میرے گھر والے اس سے میری شادی کے لیے راضی نہیں ہوں گے، کسی طرح ان کو راضی کر دو۔“ ”ارے پگلی یہ بھی کوئی کام ہے تو کہے تو تجھے اس کے ساتھ بھگا بھی دوں گا۔“ اتنے میں ہی باچھیں کھل اٹھیں، مجھے اور کیا چاہیے تھا کلیجہ ٹھٹھر گیا۔ کہنے لگی۔۔۔ ”تم شادی کے بعد بھی میرے ساتھ ایسے ہی رہنا، بلکہ میں حق مہر میں بھی اپنے شوہر سے تمہارا ساتھ مانگوں گی۔
“ ”ارے باولی ہوگئی ہے کیا، کون پاگل شوہر ہے جو تمہیں اس بات کی اجازت دے گا کہ تم شادی کے بعد بھی مجھ سے تعلق رکھو۔“ ”تم منہ بند رکھو، اس کے بغیر میں اس سے شادی ہی نہیں کروں گی، کیوں کہ میں تمہارے بغیر نہیں رہ سکتی۔“ ”یہ شادی سے پہلے کی باتیں ہیں۔ شادی کے بعد تم ایسی فرمانبردار بیوی بنو گی کی اگلے زمانوں کی بیویاں تمہارا کردار کتابوں میں پڑھیں گی۔
“ ”دفا دور۔۔۔۔۔تم مجھے انڈر ایسٹیمیٹ کر رہے ہو۔۔۔“ اس نے اپنا روایتی جملہ دوہرایا۔ ہاہاہا۔۔۔میں ہنس دیا۔ ”اچھا سنو کبھی سگریٹ پی ہے؟“ جواب جاننے کے باوجود اس نے سوال پوچھا۔ ”اوں ہوں۔۔۔کبھی نہیں۔۔۔ مگر اب سوچ رہا ہوں پینا شروع کر دوں۔“ اب کیوں؟“ ۔۔۔۔اس کے بال اس کے آدھے چہرے کو ڈھانپے ہوئے تھے۔ ”کیوں کہ جو لوگ سگریٹ پیتے ہیں مجھے اچھے لگتے ہیں۔
“ ”اچھا مگر مجھ سے ایک وعدہ کرو گے؟“ میرا جواب سننے سے پہلے ہی اس نے اپنا داہنا ہاتھ میری رخسار پہ رکھا، آنکھوں میں حسرت نمایاں تھی۔۔۔۔ خوفناک حسرت۔۔۔ میں جھٹ سے بولا ”ہاں بتاؤ، کیسا وعدہ؟“ ”ہم دونوں ایک ساتھ سگریٹ پیئں گے، کیوں کہ مجھے بھی سگریٹ پینے والے لوگ اچھے لگتے ہیں۔“ ” ہاں وعدہ'' میں بولا، اور اس نے میرے دونوں ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں بھینچ لیا۔
”پاگل عورت تیرا عاشق میرے ہاتھ کاٹ دے گا، چھوڑ دو۔“(میں اسے عورت کہہ کر چڑاتا تھا، اور وہ بضد رہتی کہ میں اسے لڑکی کہوں) وہ بجائے چڑنے کے میرے سینے سے لپٹتی جا رہی تھی۔ ”کیا بچپنا ہے؟ ابنارمل عورت۔۔۔“ اس کے بعد لپٹنے کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا، ہم ملتے بہت کم تھے مگر میسجز میں گفتگو جاری رہتی تھی۔۔۔ صبح وشام۔ وہ ڈر جاتی تو میسج میں ہی میرے سینے سے چمٹ جاتی۔
۔۔ یہ سچ ہے۔ پہلے میں بھی ہنستا تھا کہ یار لوگ میسج میں ایک دوسرے کا سر کیسے دبا لیتے ہیں۔ مگر اس کے لمس نے مجھے یقین دلایا کہ سچ میں میسجز کے ذریعے میں اس کا خوف دور کر سکتا ہوں، وہ گھنٹوں میری گود میں سر رکھ کر لیٹی رہتی تھی اور میں اس کو محسوس کرتا تھا۔۔۔ میرے بالوں میں اس کا ہاتھ ۔کنگھی سے زیادہ تیز چلتا تھا۔ میری گود تھک جاتی تو میں اسے جان بوجھ کر کہتا چل اٹھ جا موٹی عورت، وہ چڑ کر لڑنے لگتی، گود سے اٹھ کر بھاگ جاتی پھر گھنٹوں آن لائن نہ ہوتی تھی۔
ان سب باتوں کو سال ہو گیا تھا، ابنارمل عورت بدل کر ایک نارمل لڑکی بن گئی تھی۔۔۔ مگر بالکل سہمی ہوئی ”ریڈی میڈ نارمل“۔ میں ابھی بھی ویسا ہی ”نارمل“تھا جیسا پہلے۔۔۔بالکل بدھو، پکا پجاری، اور الجھے بالوں والا۔ کئی بار سگریٹ کی طلب ہوئی مگر سگریٹ جلانے کے لیے ابنارمل عورت نہیں رہی تھی۔ ”میں اب نارمل ہوں یا پہلے نارمل تھا۔۔۔ یا ہمیشہ سے ابنارمل؟“ عجیب سوال میرے ذہن میں اٹھا۔
”ابنارمل۔۔۔۔ ہاں شاید ہمیشہ سے ہی ابنارمل تھا۔“ میں نہیں میرے اندر سے کوئی اور بولا۔ مگر کب تک؟ ہر چیز کو ثبات نہیں۔۔۔۔پھر۔۔۔۔وائے آئی ایم ابنارمل۔۔۔۔ سٹل ابنارمل۔۔۔ میں چلایا۔ فضا گرد آلود ہونے کے ساتھ ساتھ منجمد ہو گئی تھی۔ گرمی شدید تھی، لہذا سبزے کی جگہ جلتی ہوئی زمین ہی نظر آ رہی تھی۔ پسینہ نہیں آ رہا تھا، ایک اور ثبوت ملا ”میں نارمل نہیں ہوں“۔
۔۔۔ قریب تھا کہ میں ایک پتھر کو موبائل سے زور دار ضرب لگاتا، موبائل کی سکرین بلنک ہوئی، نوٹیفیکیشن۔۔۔۔ واٹس ایپ کھولا۔۔۔ وہی نارمل لڑکی۔۔۔ اس نے ایک تصویر بھیجی تھی، اپنے عاشق کے ساتھ ”کپل فوٹو“۔۔۔۔ عاشق سالا اس کے گلے میں بانہیں ڈال کر بیٹھا تھا، اور لڑکی نارمل ہونے کا ناٹک کر رہی تھی، اپنے عاشق کی بانہوں کو گلے کا طوق سمجھ رہی تھی۔
”واؤ امیزنگ کپل“۔۔۔ خود ہی ٹائپ ہو گیا تھا۔ ”ارے لڑکی! بہت حسن چڑھ آیا ہے تیرے اوپر“۔۔۔میں نے مزید کمنٹ کیا۔ ”بدھو! اب جا کر تو میں تیرے لفظوں پہ پورا اتری ہوں۔۔۔۔ اب میں لڑکی نہیں رہی عورت بن گئی ہوں۔۔۔۔ نارمل عورت۔۔۔“ ”آر یو شور یو آر نارمل ناؤ؟“میں نے بھر پور تجسس سے پوچھا۔ ”ییس آئی ایم۔۔۔“ فوراً اس نے جواب دیا۔ میرے دماغ کی بتی جلی ”نارمل۔۔۔۔ پھر تو میں بھی بالکل نارمل ہوں۔“ میں نے پورے وثوق سے جلتی زمینوں کے سامنے اعتراف کیا ”ییس آئی ایم نارمل ہیومین بینگ۔“

Browse More Urdu Literature Articles