Qaatil Kaun - Article No. 972

Qaatil Kaun

قاتل کون - تحریر نمبر 972

علینہ تو مر چکی تھی اور مرے ہوئے کبھی زندہ نہیں ہوتے ،علینہ نے جلد ہی یہ بات سمجھ لی تھی وہ قاتل تھی لیکن اپنے ساتھ ساتھ اس کے تو بہت سارے قتل تھے،عزت،محبت،مان ،چاہت،اعتبار سبھی کو قتل کر ڈالا تھا اس نے ۔

ہفتہ 17 اکتوبر 2015

خدیجہ مغل:
علینہ تو مر چکی تھی اور مرے ہوئے کبھی زندہ نہیں ہوتے ،علینہ نے جلد ہی یہ بات سمجھ لی تھی وہ قاتل تھی لیکن اپنے ساتھ ساتھ اس کے تو بہت سارے قتل تھے،عزت،محبت،مان ،چاہت،اعتبار سبھی کو قتل کر ڈالا تھا اس نے ۔
بھائی مجھے معاف کردیں پلیز۔وہ رو رہی تھی
سبھی اس سے بے پناہ محبت کرتے تھے لیکن ایک ہی پل میں سب کچھ بدل گیا تھااس کا دل چاہا زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائے مگر یہ ممکن کیسے تھا اس جیسی لڑکیوں کو نہ تو زمین جگہ دیتی ہے اور نہ آسمان،اس نے بے بس نظروں سے چاروں جانب دیکھا مگر سب اپنوں کو اس نے خود ہی اپنے لیے بیگانہ بنا دیا تھا اسے نہیں لگ رہا تھا کہ اس کی کوئی بھی سنے گا۔

اس نے ایک آس بھری نظر وں سے پپا کو دیکھا آخر وہ ان کی اکلوتی بیٹی تھی مگر پپا کی آنکھوں میں اسوقت سب سے زیادہ بیگانگی تھی وہ پھر بھی ہمت کرکے ان کی طرف بڑھی اور ان کے پیروں میں گر گئی۔

(جاری ہے)


پپا مجھے معاف کردیں ۔پلیز پپا۔اس کی آواز پورے کمرے میں گونج رہی تھی مگر پپا نے منہ پھیر لیا اور پاؤں پیچھے کر لیے۔سب بت بنے اس کا تماشا دیکھ رہے تھے۔


سکندر بھی وہیں تھا،وہ اسے ہی دیکھ رہا تھاایک عجیب سی خوشی جو اسکے آتے ہی اسکے ہونٹوں پہ سجتی تھی آج اس کے ماتھے پہ شکنیں تھیں اور ہونٹوں پہ سا کت خاموشی ۔جو اس بات کی گواہ تھیں کہ وہ بے حد غصے میں ہے۔اس کی ہمت ہی نہ ہوئی کہ وہ ان کے پاس جا سکے ۔وہ مکمل طور پہ لٹ چکی تھی کس کس سے معافی مانگتی ؟
اچانک ہی سکندر اسکی جانب بڑھا تھا اور پوری طاقت کے ساتھ اس کے چہرے پہ تھپڑ مار اتھا
وہ درد سے چلا اٹھی تھی۔

بھائی ۔۔۔مجھے معاف کردیں۔مجھ سے غلطی ہوگئی۔وہ رو رہی تھی
لیکن سب ظالم بن چکے تھے۔خبردار جو تم نے اپنی زبان پہ میرا نام بھی لیا تو۔نہیں ہوں میں تمھارا بھائی۔جب ہماری عزت مٹی میں ملا کر اسدکے ساتھ بھاگ گئی تھی تب تمھیں خیال نہیں آیا تھا اپنے بھائی کا۔۔۔بھائی کی آنکھوں میں غصہ تھا
بھائی مجھ سے غلطی ہوگئی ۔۔معاف کردیں مجھے۔
آنسو روانی سے جاری و ساری تھے ۔
ایک طرف کھڑے عدیل کی جانب اٹھتی اس کی نظریں ایک پل کو کانپ گئیں
کس قدر وہ اس سے محبت کرتا تھا۔ایک پل بھی دوری نہیں برداشت کر سکتا تھا ۔لیکن اب اسکی آنکھوں میں اس کے لیے کس قدر نفرت تھی۔اس کے ساتھ کھڑی اقرا۔۔۔
وہ جانے بغیر ہی سمجھ گئی تھی اس رشتے کو ۔وہ جہاں تھی وہیں کھڑی رہی۔
کہہ دو اس سے چلی جائے یہاں سے۔
۔۔کوئی نہیں ہے یہاں اس کا ۔پپا کی آواز پہ وہ چونکی تھی
پپا۔۔۔پلیز ایسا مت کریں۔مجھے۔۔۔مجھے معاف کردیں۔وہ ان کی طرف پلٹی تھی
علینہ مر چکی ہے۔سب لوگ جانتے ہیں ۔
اقرا کو لے گئی تھی تم اپنے ساتھ ۔یہی کہہ کر کہ تمھیں اپنی پسند کا سیٹ چاہیے۔اور ہم نے تم پہ بھروسہ کیا،
ہم نے تمھاری بات مانی۔ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ تم ہمیں دھوکہ دے دو گی۔
اور ہم نے عدیل کی شادی اقرا سے کروا دی کہ لوگ کیا باتیں کریں گے۔خالہ بولیں تھیں
ان کے الفاظ اسے کاٹ رہے تھے۔
پپا پلیز ایک بار مجھے معاف کردیں۔خدا کے لیے۔وہ رو رہی تھی کسی کو بھی اس کی حالت پہ رحم نہیں آرہا تھا
آخر سب نے اتنی بڑی مشکل جو کاٹی تھی ۔
پپا خاموشی سے کمرے سے جا چکے تھے۔وہ انہیں جاتا دیکھتی رہ گئی ۔
ان کے پیچھے عدیل اور اقرا بھی کمرے سے جاچکے تھے۔
سب اس سے نظریں چرا رہے تھے۔
گھر سے بھاگی ہوئی عورت کو کبھی اس کا مقام واپس نہیں ملتا۔خالہ کہتے ہوئے کمرے سے جا چکی تھیں
وہ چپ کی چپ تھی۔تم اب جا سکتی ہو۔کیونکہ اب یہاں تمھارا کسی کو بھی خیال نہیں ہے،بھائی بھی کہتے ہوئے کمرے سے جا چکے تھے۔
کمرے میں کھڑے ہوئے اسے کتنی ہی دیر ہو گئی تھی۔اس نے خاموشی سے اپنے آنسو صاف کیے اور چپکے سے کمرے سے باہر آگئی۔اب اس گھر میں اس کا کوئی مقام نہیں تھا۔یہی سوچتے ہوئے وہ گیٹ عبور کر گئی۔
اس کے کانوں میں خالہ کی کہی بات گونج رہی تھی گھر سے بھاگی ہوئی عورت کو اس کا مقام کبھی واپس نہیں ملتا۔
آخر قاتل کون تھا؟اسکا با پ یا وہ خود۔۔۔۔؟
ختم شد!

Browse More Urdu Literature Articles