Riyazii - Article No. 1595

Riyazii

ریاضی - تحریر نمبر 1595

لائق تو ہم پہلے دن سے تھے،مگر ریاضی میں نہیں ، ہم نے جب قسم اٹھا رکھی تھی کہ ریاضی کو ہاتھ نہیں لگانا۔۔۔۔۔۔۔ریاضی سے ایسے بھاگتے تھے جیسے چوہا بلی کو دیکھ کر بھاگتا ہے

جمعہ 17 نومبر 2017

عزیر الطاف:
کم بخت ریاضی ہمیں شروع سے ہی نا بھاتی تھی پتا نہیں کون اس منحوس مضمون کا موجد،پہلی سے پانچویں تک ریاضی کا حساب تو ہمیں آتا تھا اور استاد کو ہم خوب پہاڑے سنایا کرتے تھے،بھلے دن تھے تب مگر ہماری بدقسمتی پانچویں کے بعد شروع ہوئی پانچویں تک بڑے سکون کے دن تھے،لڑکے لڑکیوں کا اکٹھا سکول تھا،چھوٹے چھوٹے بستے اور چھوٹی چھوٹی وردیاں بہت یاد ہیں ہمیں،استانیاں پڑھایا کرتی تھیں جو ہم سے پہلے کلاس میں آجایا کرتی تھیں،ہم دعا مانگا کرتے تھے آج اسمبلی لمبی ہوں تاکہ وقت برباد ہوں اور کلاس میں جاکے مار کٹائی سے بچا جاسکے،کبھی کبھار ہماری دعا قبول ہو جایا کرتی تھی اور اسمبلی لمبی ہوجاتی تھی،لائق تو ہم پہلے دن سے تھے،مگر ریاضی میں نہیں بلکہ اردو اور ڈرائنگ میں،ڈرائنگ کا پریڈ شروع ہوتے ہی ہم خربوزوں تربوزوں اور پتہ نہیں کن کن پھلوں پے خوب رنگ بھرا کرتے تھے ایک دن مالٹے پرہم نے کالا رنگ کردیا تو اُستانی نے ہماری خوب درغت بنائی۔

(جاری ہے)

پھر اس کے بعد آج تک مالٹے کو ہم نے ہاتھ تک نہیں لگایا،قصور مالٹے کا نہیں ہمارا اپنا تھا مگر مار مالٹے کی وجہ سے پڑی تھی،تفریح کے وقت ہم زیادہ تر کرکٹ کھیلا کرتے تھے چھوٹاسا صحن تھا جس کے سامنے چند کلاس رومز تھے ایک طرف لیٹرین تھی اور ساتھ ہی پانی پینے کے لیے نیلا ڈرم رکھا ہوا ہوتا تھا نیلے ڈرم سے یاد آیا اسمبلی کے بعد اس ڈرم میں برف ڈالی جاتی تھی،اور ہماری یہ کوشش ہوتی تھی کہ برف لینے ہم جائیں تاکہ کچھ وقت برباد ہوسکے،اس غرض سے ہم اسمبلی کے بعد ڈرم کے پاس کھڑے رہتے تھے تاکہ پرنسپل ہمیں کچھ روپے دیں اور ہم یہ فریضہ سرانجام دیں،سکول کے دنوں میں سردیاں ہمیں بہت منحوس لگتی تھی وہ اس لیے کے کہ سردیوں میں اسمبلی نہیں ہوا کرتی تھی اور کلا س میں زیادہ وقت گزارنا پڑتا تھا سردیاں منحوس کیوں لگتی تھی اس کی ایک اور وجہ بھی ہے مگر ہم وہ آپ کو آگے چل کر بتائے گے آخر ہماری بھی کوئی عزت ہے۔
جب تفریح کا وقت ختم ہونے لگتا تو ہم جان بوجھ کے گیند سکول کی چھت پر پھینک دیتے اور جب استانی آکے کہتی:”چلو کلاس میں تم بھی“ہم کہتے میڈم گیند چھت پر چلے گئی ہے بس ہم وہ آتار کر آتے ہیں۔اس طرح دس پندرہ منٹ اور ضائع ہوجاتے اور ہم اپنے نیک ارادوں میں کامیاب رہتے،تفریح کے بعد صرف ایک آدھ مضمون ہوتا جو ہم پسینہ خشک کرتے کرتے گزاردیتے۔
اچھی استانی تھی مگر وہ اتنی اچھی بھی نہ تھی جو بچہ روتا صرف اسے چاکلیٹ دیا کرتی تھی آگے آپ خود سمجھدار ہیں ہم کتنی چاکلیٹ کھایا کرتے تھے کیا کمال کا دن تھا وہ جب ہمارے ادھر خوب بارش ہوئی اور ہماری کلاس کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا۔پرنسپل صاحب کے کہنے پر کلاس کے بچوں کو ساتھ والی کلاس میں منتقل کردیا گیا مگر قیامت دیکھیے ادھربھی پانی ٹپکنے لگا اور پھر وقت سے دو گھنٹے قبل ہمیں چھٹی ہوگئی۔
جب گھر پہنچے تو والدہ نے کہا:”تم جلدی کیوں آگئے ہو“؟ہم بولے پرنسپل صاحب نے ہمیں چھٹی دے دی ہے بارش کا پانی کمروں میں آٹپکا تھا۔“اچھا کون سا مضمون پڑھا آج؟ہم نے خوشی سے بتایا ریاضی کے علاوہ باقی سب کچھ۔سکول کے دنوں میں اکثر ہم پر قیامتیں ٹوٹا کرتی تھی مگر اصل قیامت تب ٹوٹی جب ایک دن پرنسپل صاحب ہمارے کمرے میں آئے اور چند لڑکوں کو ایک طرف کردیا۔
اب ہمیں لڑکے یاد نہیں کیونکہ خدا جانتا ہے تب ہم بچے تھے اور اب ہم پچیس کے ہوگئے ہیں سب کچھ یاد نہیں۔ہاں یہ ضرور یاد ہے کہ پرنسپل نے استانی سے کہا ۔”یہ بچے اب لڑکیوں کے سکول میں نہیں رہیں گے اب یہ ساتھ والے سکول لڑکوں کے ساتھ پڑھیں گے۔ان دنوں ہم چھوٹے بچے تھے ہمیں پیار بھی نہیں ہوا تھا ورنہ ہم لڑکی کی خاطر پرنسپل سے بھی الجھ جاتے کہ ہمیں ادھر رہنے دیا جائے سو ہم ادھر چلے گئے۔
لڑکیوں اور لڑکوں کے سکول میں واضح فرق صرف لڑکوں کا ادھر موجود ہونا تھا باقی سب کچھ نیلا کولر،لیٹرین اورکمرے اسی طرز کے تھے پرنسپل نے والدین کی رضامندی سے چند لڑکوں کو چھٹیب کے بعد ڈائریکٹ آٹھویں میں کردیا تھا اوران چند لڑکوں میں ہم بھی شامل تھے اب ہمارا وردی کا رنگ بھی بدل گیاتھا۔نیلی شرٹ اور کالی پینٹ جبکہ ادھر ہم سفید شرٹ اور کالی پینٹ میں ہوتے تھے اور پیارے لگتے تھے،آٹھویں میں تو ہمارے بُرے وقت کا اصل آغاز ہوگیا تھا عربی اردو،اسلامیات مطالعہ پاکستان،انگلش،اور آخر میں منحوس ریاضی یہ سب ہمارے مضمون تھے ،سب سے پہلے عربی کے استاد آیا کرتے تھے اور ہمیں قرآن کی تعلیم دیتے استاد اچھے تھے وہ اس لیے کہ وہ دور سے سائیکل پر آیا کرتے تھے اور اکثر سائیکل پنگچر ہوجانے کی وجہ سے ان کا پریڈ رہ جاتا تھااردو میں آپ کو معلوم ہے ہم میر درد سے بھی آگے تھے اگرچہ وہ غالب سے پیچھے تھے مگر ہم درد سے آگے تھے۔
اسلامیات ہمیں اس لیے آتی تھی کیونکہ مسجد میں کلمے،نمازیں اور دعائیں ہمیں پہلے سے یاد کروادی گئیں تھیں،جہاں تک مطالعہ پاکستان کا تعلق ہے تو خدا جانتا ہے آج سے پندرہ سال پہلے بھی پاکستان 14 اگست1947 کو بنا تھا اور آج بھی اگر ہم تاریخ کی کتابیں اٹھائیں تو ادھر درج ہوگا کہ ”پاکستان 14 اگست 1947 کو بنا ہے۔“انگریزی ہمیں تھوڑی بہت آتی تھی اب آگئی باری ریاضی کی اللہ جانتا ہے اس مضمون سے ہمیں شدید نفرت تھی اور تنہائی میں ہم اسے خوب گالیاں دیا کرتے تھے اس کمبخت نے ہمیں بہت رولایا مگر پھر بھی پلے نہ پڑی۔
ہمارے ریاضی کے استاد اکثر اس لیے ٹیسٹ لیا کرتے تھے کہ شاید اس بار کے ٹیسٹ سے انہیں ہماری جانب سے کوئی اچھا جواب مل جائے گا۔مگر نہیں۔اب ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ سردیاں ہمیں کیوں زیادہ منحوس لگتی تھیں،ہائے ہائے کیا بتائیں بانس کی لمبی اور ہماری پشت گھنٹوں گھنٹوں سرخ نشان ہی نہ جاتے تھے مگر ان کو ذرا ترس نہ آتا تھا مارے چلے جاتے تھے۔ایک بار تو اتنا مارا کہ ہمارے ہاتھ سے خون بہنے لگ گیا۔
پھر اس کے بعد اللہ کے کرم سے ایک ماہ تک ہم مار سے محفوظ رہے اور روز نئی پٹی کروا کر سکول جایا کرتے تھے۔ہماری کلاس کا ایک نونہار لڑکا جس کا نام تھا زوار،وہ ریاضی میں بہت اچھا تھا،ہر سوال کا جواب منٹوں میں حل کرکے استاد کے پاس پہنچ جایا کرتا تھا۔ہمیں اس پر بڑھی تپ چڑھتی تھی۔ایک بار تو ہم نے بشارت کے ساتھ مل کر چھٹی کے بعد اسے مارنے کا منصوبہ بنایا تھا،ریاض ہمارا ساتھی ہوا کرتا تھا اور ریاضی سے ایسے بھاگتا تھا جیسے چوہا بلی کو دیکھ کر بھاگتا ہے ویسے آج کل کی بلی چوہے کو دیکھ کر بھاگتی ہیں چلیں چھوڑ دیں زوار کی قسمت دیکھے کہ جس دن اسے مارنے کا منصوبہ تھا اس دن وہ چھٹی پر تھا اوراگلے روز بشارت کی ہمارے ساتھ کلاس میں زیادہ آگے بیٹھنے پر لڑائی ہوگئی ادھر ہم بھی خوب کرکٹ کھیلا کرتے تھے چھکے تو ہم مارا کرتے تھے مگر سکور نہ گنا کرتے تھے۔
سکول گرمیوں میں 7:30 پر لگتا اور سردیوں میں پورے آٹھ بجے سکول کا دروازہ پار کرتے ہی انتہائی دائیں جانب پرنسپل کا دفتر ہوا کرتا تھ جب کبھی ہم تاخیر سے پہنچتے تو پہلے چوری چھپے انہیں دیکھتے،جوں ہی ان کا منہ دوسری طرف ہوتا ہم جلدی سے اندر دوڑ جاتے آٹھویں میں ہم پاس پڑے تو پہلے دو ماہ توگھر والوں کو یقین ہی نہ آیا کہ ہم پاس ہوگئے ہیں۔پھر ایک دن والد محترم خود سکول آگئے اور پرنسپل کی جانب سے ہمارے پاس ہوجانے کی مبارکباد وصول کرتے ہی وہ مان گئے۔
آٹھویں کے بعد ہمیں وہ سکول چھوڑنا پڑا اور پھر ہم شہر سے ایک کلومیٹر دور واقع گورنمنٹ سکول میں چلے گئے مقدر دیکھیں ریاضی بے ادب ہم سے پہلے وہاں پہنچی گئی۔استاد محترم بڑے دھیمے مزاج کے تھے بس وہ ہمیں ہی مارا کرتے تھے پر وہ حق پر تھے۔ہم نے جب قسم اٹھا رکھی تھی کہ ریاضی کو ہاتھ نہیں لگانا تو وہ کیا کرتے،اللہ زندگی ہو نویں جماعت میں ریاضی کے پرچے پر آئے نگران کی جس نے ہمیں خوب نقل کرنے دی اور ہم پاس ہوگئے جی ہاں پاس ہوگئے۔
ہے نہ بریکنگ نیوز؟چلتے ہیں دسویں جماعت کی جانب دسویں کی ریاضی کی کتاب ہم نے پرچوں کے دنوں میں خریدی تھی،اس سال ہم خوب ڈنڈے برسے تھے۔ایک روز استاد محترم نے ہم سے کہا تم کل اپنے والد کو ساتھ لے کر آنا۔“ہم بولے۔جی بہتر۔پھر کیا بتائیں سارا دن دل کی دھڑکن تیز رہی اور گنے کا رس پینے کے باوجود رفتار میں کوئی خاطر خواہ کمی واقع نہ ہوئی۔
ہم گھر پہنچے تو ابا حضور کھانا کھارہے تھے ۔ہم نے مناسب نہ سمجھا کہ انہیں تنگ کرتے سوہم پاس بیٹھ گئے اور ان کے ہمراہ کھانا کھانے لگ گئے۔ہمیں یاد ہے اس روز ماں جی نے حلوہ بنایا تھا۔یہ حلوہ بھی گڑ والا۔ہم نے خوب کھایا اور شام ہوتے ہی ہمیں پیچس لگ گئے،ہم ابا جی کے ساتھ شام میں دوائی لے آئے۔استاد جی کا پیغام ابا جی کو بتانا نہایت ضروری تھا اور ہم نتیجے سے بھی بخوبی آگاہ تھے۔
ہم نے ڈاکٹر سے واپس آتے ہی دعا لی اور ابا والے کمرے میں چلے گئے۔ابا جی تب اخروٹ کھارہے تھے ہم نے سوچا چلو پاس چلتے ہیں ہم ان کے قریب پڑے دیوان پر بیٹھ گئے۔تھوڑی دیر بعد وہ بولے۔اخروٹ کھالو تم بھی۔یہ کہتے انہوں نے تین اخروٹ ہماری ہتھیلی میں رکھ دیے ہم نے انہیں قمیض کی جیب میں ڈالا اور بولے۔”ابا استاد نے آپ کو کل بلایا ہے۔“یہ سنتے ہی انہوں نے ہماری جانب دیکھا اور بولے خیریت تو ہے ناں؟کوئی شکایت تونہیں تمہاری؟”نہیں ابا“وہ بولے چلو کل جاؤں گا میں۔
“ہم وہاں سے اٹھیں اور ساری رات دعائیں کرتے رہے کہ ابا کو رات والی بات بھول جائے اور وہ سکول نہ جائیں۔مگر پچھلی رات والے اخروٹ انہیں کہاں بھولنے دیتے تھے۔صبح ٹھیک گیارہ بجے وہ سکول آگئے۔پوری جماعت باہر بڑے گراؤنڈ میں بیٹھی ریاضی کے سوال حل کررہی تھی ہم آرام آرام سے سوال لکھ رہے تھے کیونکہ ہم جانتے تھے کہ تھوڑی دیر بعد یہ قلم جواب نہ لکھ پائے گا تو پھر کیوں نہ اسے عمدگی اور شائستگی سے استعمال کیا جائے،اس دن ابا نے سفید شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور اوپر کالے رنگ کی واسکٹ جو انہوں نے چند دن قبل بھارت کے شہر احمد آبادسے منگوائی تھی۔
پاؤں میں کالے بوٹ تھے جن کی ایڑی بہت اونچی تھے۔استاد محترم نے انہیں دور سے آتے دیکھا تو اٹھ کھڑے ہوئے سلام دعا کے بعد دونوں لکڑی کی کرسیوں پر بیٹھ گئے اور باتیں کرنے لگے ہم استاد کی کرسی کے انتہائی دائیں جانب بیٹھا کرتے تھے کیونکہ ان کی نظر ادھر بہت کم پڑتی تھے۔چند باتوں کے بعد استاد بولے:آپ کا یہ شہزادہ ریاضی میں بہت کمزورہے۔“ویسے تو ہم صحت سے بھی کمزور تھے مگر ادھر صرف ریاضی میں بتایا گیا۔
ابا بولے اچھا تو باقی مضامین کیسا ہے۔؟تب ہمارے دل کی دھڑکن کم ہوئی کیونکہ ریاضی سے بات دوسرے مضمونوں کی طرف جاچکی تھی۔جی ان میں اچھا ہے۔مگر ریاضی میں یہ مشکل سے ہی پاس ہوگا دوبارہ ریاضی پر بات آتے ہی ہم سہم گئے۔ابا حضور بولے پاس بھی ناں ہو پائے گا؟استاد نے کہا ،دیکھیں مشکل ہی ہے باقی اگر ہوجائے تو اس کا کوئی کمال نہ ہوگا۔اب آپ کے سامنے یہ فضول بیٹھا سوال لکھ رہا ہے۔
جبکہ باقی جو ابات تحریر کرنے میں مصروف ہیں۔“کچھ دیر بعد ابا وہاں سے اٹھے اور گھر واپس چلے گئے۔اس دن چھٹی کے بعد ہمیں گھر جاتے سہمے بہت ڈر لگا مگر کیا کرتے جانا تو تھا گھر گئے تو ابا نے کھانا کھانے کی مہلت دی اور کچھ ہی دیر بعد ہم پر خوب برسے۔ پھر کیا تھا کہ لاتیں ،مکے تھپڑ اور اسی برادری کی کچھ اور چیزیں پندرہ منٹ تک ہم پر چلتی رہی پندرہ منٹ بہت وقت ہوتا ہے نہیں یقین توکبھی پندرہ منٹ مار کھاکر دیکھیں۔
اس مار کے بعد ہم نے یہ سوچ رکھ تھا کہ اب ریاضی میں ٹاپ کرنا ہے۔جلد ہی ہم نے اپنی جذباتی سوچ پر قابوپالیا اورپھر ریاضی سے نفرت کرنے لگے پیپروں کے قریب ہم نے پہلے باب کی تین مشقیں مکمل حل کرلیں تھیں اور وہ ہمیں پانی کی طرح یاد تھیں۔ہم نے یہ سوچا کہ پیپر سیٹر جتنا بھی سفاک ہوا پہلی تین مشقوں میں سے ایک یا دوسوال ضرور دے گا۔کیا کہنے ہماری نیوٹن جیسی اس سوچ کے پرچے والے دن پہلی تین مشقوں میں سے دو سوال پیپر میں آگئے اور ہم نے وہ خود سے حل کرلیے۔
کچھ جوابات ہم نے بوٹی کی مدد سے حل کیے اور ہم دسویں میں بھی پاس ہوگئے۔ابا جی نے رزلٹ والے دن ہمیں پورے سو روپے دئیے اورہم خوب کھاتے پیتے رہے۔میٹرک کے بعد ہم لاہور چلے آئے،ادھر ہم نے ریاضی کو جو تے کی نوک پر رکھا اور آرٹس کے مضامین چن لیے۔گھر کے دور ہمیں پڑھنے کا خوب شوق چڑھا تھا اور ہم خوب محنت کیا کرتے تھے،ایف اے میں ہم نے کالج میں ٹاپ کیا توابا جی گھر سے ہمارے لیے گاجر کا حلوہ اور نئے کپڑے دینے خود لاہور چلے آئے۔
ایف اے کے بعد ہم نے چار سالہ ڈگری کے حصول کے لیے ایف سی کالج میں داخلہ لیا ۔ادھر امریکن ماحول تھا ۔لڑکے لڑکیاں اکٹھے کلاس میں گروپس میں رہتے تھے۔اپنی مرضی کے مضمون رکھتے اور مرضی کے اساتذہ چنتے تھے ہم ادھر صحافت میں محنت کرنے لگے۔ایف سی کالج میں ہمارے اساتذہ بڑے کمال کے تھے ویسے تو پہلے اساتذہ بھی کمال کے تھے مگر ادھر اور ہی بات تھی۔چار سالہ ڈگری کے آخری سمیسٹر میں ادھر بھی ریاضی سے پالا پڑا اور ادھر ہم انتہائی کم محنت سے پاس ہوگئے۔اب کہ ہم نے سوچ رکھا ہے مزید تعلیم کے لیے اسی کالج میں داخلہ لیں گے جدھر ریاضی سے نفرت کرنے والے لوگ کثیر تعداد میں موجود ہوئے یا اس نام کا کوئی مضمون نہ ہوا۔

Browse More Urdu Literature Articles