Shaukat Bobi Ke Guru Gee - Article No. 1990

Shaukat Bobi Ke Guru Gee

شو کت بو بی کے گُرو جی۔۔تحریر:جا وید جی - تحریر نمبر 1990

"دفعہ ہو جا ؤ ۔پتہ نہیں کیو ں پیدا ہو گئے تم"۔میری ما ں کا لہجہ اتنا سفا ک تھا کہ میرے آنسو میری آنکھو ں میں ہی خشک ہو گئے اور میں چا ہ کر بھی رو نہیں سکا

پیر 1 اپریل 2019

چلیے ہم فر ض کر لیتے ہیں کہ اس کا نا م شو کت بو بی ہے ویسے بھی اس مخلو ق کے نا مو ں میں کیا رکھا ہے؟۔نا م بھی انہی کی طر ح مذکر اور مو نث کا مر کب ہو تے ہیں۔امجد ناز،راحیل بجلی اور اسی طر ح شو کت بو بی۔اس کی عمریہی کو ئی بیس کے آس پا س ہو گی ۔ایف ۔اے پا س تھا ۔آگے پڑھ سکتا تھا مگر گھر وا لو ں نے با زو سے پکڑ کر علیحدہ کر دیا۔وہ بہت چیخا چلا یا کہ وہ انہی کا ما ں جا یا ہے لیکن یہاں اس کے گھر والے کنفیوزڈ تھے کہ ان کا یہ ما ں جا یا ،رشتے میں ان کا کیا لگتا ہے۔
لگتا ہے یا لگتی ہے وہ اسے بھائی سمجھیں یا بہن کہیں ۔شوکت بو بی کا کہنا تھا کہ جب تک اس کا باپ زند ہ رہا اس وقت تک اس کے گھر میں یہ سوا لا ت کبھی زیر ِبحث نہیں آئے ۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ اس کا با پ ایک بہا در آدمی تھا۔

(جاری ہے)

لیکن " شر مندہ بہا در آدمی"۔وہ ہمیشہ شو کت کے وجود کی وجہ سے شر مندہ رہتا لیکن شر مندگی کے با وجو د زما نے کا کو ئی وار شو کت تک نہیں آنے دیتا تھا ۔

اپنی ما ں کے با ر ے میں شو کت کہتا ہے کہ "وہ تھی مگر ایسے جیسے نہیں تھی"۔ما ں کی محبت اور شفقت کو تر ستا ہوا شو کت ہمیشہ اپنی ما ں سے چھپتا پھر تا۔ ''میری ماں بہت اچھی تھی،ان ما ؤں کی طرح جن کے بارے میں سنا تھا کہ وہ اپنے بچو ں پر جا ن وار دیتی ہیں۔میری ما ں بھی جا ن وارنے والی عو رت تھی۔لیکن مجھ پر نہیں ،میں تو جیسے اسکا بچہ ہی نہیں تھا ۔
میری ما ں کی سا ری محبت اور چا ہت میرے بہن بھا ئیوں کے لیے تھی۔اس لیے میں نہیں جا نتا کہ ما ں کی محبت کیا ہو تی ہے۔شو کت نے ایک لمحے کے لیے رک کر سا نس لیا۔ "کھا نے کے وقت میں دور کھڑا ،تر سی ہو ئی نظروں سے اپنے بہن بھا ئیوں کو دیکھتا جو ما ں کے گر د دائر ہ بنا کر بیٹھ جا تے ۔ ماں کبھی ایک کو رو ٹی دیتی ،کبھی دو سرے کی کٹوری میں سا لن ڈالتی اور کبھی پیا ر سے میری بہن کے منہ میں نو ا لہ ڈالتی جو مجھ سے ایک سا ل بڑی تھی ۔
ایسے میں کبھی کبھارمیرا با پ جو "شر مندہ بہا در"تھا میری مدد کو آتا ۔وہ مجھے اٹھا تا اور رو ٹی کھا تے ہو ئے سا تھ بٹھا لیتا ۔ میرے بہن بھا ئیوں کو مجھ سے دور رکھا جا تا ۔میرا دل بہت چا ہتا کہ ان کے سا تھ کھیلو ں ، با تیں کروں لیکن میں نے جب بھی کو شش کی میرے بھا ئی مجھے دھتکا ر دیتے ۔بہن بھی انکی دیکھا دیکھی مجھ سے دور رہتی۔ایک دن ہمت کر کے میں نے اپنی بہن سے پو چھ ہی لیا کہ میں بھی تمھا را بھا ئی ہو ں مگر تم میرے سا تھ کیو ں نہیں کھیلتی۔
اس سو ال کا جو ا ب میری بہن سے پہلے میری ما ں کے تھپڑ نے دیا ۔ "دفعہ ہو جا ؤ ۔پتہ نہیں کیو ں پیدا ہو گئے تم"۔میری ما ں کا لہجہ اتنا سفا ک تھا کہ میرے آنسو میری آنکھو ں میں ہی خشک ہو گئے اور میں چا ہ کر بھی رو نہیں سکا۔اس دن کے بعد میں نے کسی سے بھی، کبھی نہیں پو چھا کہ تم میر ے سا تھ کیو ں نہیں کھیلتے"۔ "شو کت تم نے ایف ۔اے کیسے کر لیا؟"۔"بس صا حب ہو گیا ۔
مجھے سکو ل جا نے کی اجا زت تو نہیں تھی ۔البتہ میرے با پ نے مجھے گھر پر ٹیو ٹر لگو ا دیا تھا ۔وہ مجھے پڑھا جا تا اور میرا با پ مجھے پرا ئیویٹ امتحا ن دلو ا دیتا ۔اسی طر ح میں نے ایف۔اے کر لیا'' ۔''اور پھر تم جیل تک کیسے پہنچے''؟میرے سوال کے جو اب میں شو کت بو بی نے ایک لمبی سا نس لی اور گو یا ہو ا ۔ "صا حب!بی۔اے کا داخلہ جا نے سے پہلے میرے با پ کا انتقا ل ہو گیااور بھا ئیوں نے دھکے دے کر مجھے گھر سے با ہر نکا ل دیا ۔
بہن تین میں تھی،نہ تیرہ میں ۔رہ گئی ما ں تو اس کے نزدیک میں پہلے ہی اس پر بو جھ تھا اس لیے بے حس نظروں سے خو شی خو شی اپنا بو جھ کم ہو تے دیکھتی رہی۔گھر سے نکل کر میں کہا ں جا تا ۔کبھی گھر سے با ہر تو نکلا نہیں تھا۔شا م تک ادھر اُدھر بھٹکتا رہا۔ را ت ہو ئی تو وا پس گھر کا دروا زہ کھٹکھٹا یا مگر میری آوا ز سن کر کسی نے دروا زہ نہیں کھو لا ۔
را ت گہری ہو نے کے سا تھ ٹھنڈ بھی بہت بڑھ گئی تھی۔میں دروا زے کے سا تھ لگا ٹھٹھر تا رہا ۔لیکن کہتے ہیں کہ نیند سو لی پر بھی آجا تی ہے سو میری آنکھ بھی لگ گئی ۔سردی سے جسم اکڑنے لگا تو آنکھ کھل گئی۔اسی طر ح وہ ٹھٹھرتی ہوئی را ت جیسے تیسے گزر ہی گئی۔کچھ روز ایسے ہی گزرے۔دن میں کچرے کے ڈھیر سے کچھ کھا لیتا اور را ت سر دی میں ٹھٹھرتے ہو ئے ،دروازے کے سا تھ لگ کر گزر جا تی۔
مجھے نہیں معلو م کہ کب اور کیسے ،ادھر اُدھر پھرتے ہو ئے میں کسی کی نظر میں آگیا ،ایک را ت میں دروازے کے سا تھ لگا سو رہا تھا ۔جب کسی نے مجھے پکارا۔وہ عجیب سا بندہ تھا میری طر ح نزا کت سے بھر پو ر، نہ مرد نہ عورت،با لکل میری طرح "ڈب کھڑبا"۔لیکن اس کی عمر زیا دہ تھی۔اس نے مجھے سینے سے لگا یا ۔مجھے پیا ر کیا ۔کھا نا کھلا یااور بڑی محبت سے بہلا تے ہو ئے اپنے ٹھکا نے پر لے آیا ،جہا ں میرے جیسے کئی تھے۔
ہم سب اس بندے کو گرو جی کہتے تھے۔ "میرے گرو جی"۔شو کت نے آنکھیں بند کر کے اور تھو ڑا سر جھکا کر اپنے گرو جی کو عقید ت سے یا د کیا ۔"انہیں کے طفیل مجھے اپنی شنا خت ملی اور میں شو کت سہیل سے شو کت بو بی ہو گیا۔ گرو جی کے سا تھ گذارے ہو ئے دن میری زندگی کے سنہرے دن تھے۔گرو جی امیر نہیں تھے لیکن ان کا دل بہت بڑا تھا۔ یو ں سمجھو، ما ں کے دل سے زیا دہ نرم اور با پ کے دل سے زیا دہ وسیع۔
وہ بہت بہا در تھے لیکن ان کی بہا دری میں میرے با پ کی طر ح شر مندگی کا عنصر نہیں تھا ۔انہوں نے پو رے ما ن سے اور پو رے فخر سے ہمیں اپنا یا۔مگر میری خو شی زیا دہ د ن بر قرا ر نہیں رہ سکی۔ایک دن پو لیس نے چھا پہ ما را ۔ہما رے گرو جی پر الزا م تھا کہ انہو ں نے اکبر شا ہ کے ڈیر ے پر چو ری کی ہے۔پو لیس کا کہناتھا کہ اکبر شا ہ نے ایف آئی آر میں گرو جی کا نا م لکھو ا یا ہے۔
گرو جی کے سا تھ پو لیس نے ہمیں بھی دھر لیا ۔گرو جی کو پو لیس نے بہت ما را لیکن کچھ اگلوا نہیں سکے۔ ایک دن اکبر شا ہ خود آیا ۔گرو جی کے سا تھ مجھے بھی اس کے حضور پیش کیا گیا ۔اس روز مجھے پتہ چلا کہ گرو جی کا کو ئی قصور نہیں تھا۔پو لیس کے چھا پے سے ایک ہفتہ قبل ہم نے اکبر شا ہ کے ڈیر ے پر،اس کے بیٹے کی پیدا ئش کی خو شی میں نا چ گا نا کیا تھا۔
وہا ں اکبر شا ہ کے ایک دوست کا دل مجھ پر آگیا تھا ۔وہ دوست اکبر شا ہ کو بہت عز یز تھا۔اکبر شا ہ نے گر و جی کو میرے عو ض منہ ما نگے دا م آفر کیے تھے لیکن گرو جی نے یہ کہہ کر انکا ر کر دیا تھا کہ "شا ہ جی!میں اپنے بچو ں کا سو دا نہیں کر سکتا "گرو جی کا اصل قصور ان کا انکار تھا۔جو اکبر شا ہ کو ہضم نہیں ہو ئی تھی۔ گرو جی کا جسم زخمو ں سے چو ر تھا ۔
ان سے کھڑا بھی نہیں ہو ا جا رہا تھا۔ان کا حال دیکھ کر میں نے اس شر ط پر خود کو اکبر شا ہ کے حوا لے کر دیا کہ گرو جی اور میرے با قی سا تھیو ں کو چھو ڑ دیا جا ئے۔اکبر شا ہ نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ نہ صر ف گرو جی کو رہا کروائے گا بلکہ انکے لیے بہترین علا ج معا لجے کابندوبست بھی کر ے گا ۔لیکن یہ بڑے لو گ بہت کینہ پرور ہو تے ہیں ۔اکبر شا ہ نے گرو جی کی نا فر ما نی کو معا ف نہیں کیا ،انہیں اسی طر ح جیل میں اذیتیں دی جا تیں رہیں اور وہ خو ن تھو کتے تھو کتے ایک دن گذر گئے''۔
شو کت بو بی کے لہجے میں نمی آگئی۔"اکبر شا ہ نے اپنے اس دوست کے ڈیر ے پر آکر ،جو اب میرا ما لک تھا ،بڑے پر غرور انداز میں مجھے گرو جی کی مو ت کی خبر دی۔اس وقت وہ شرا ب کے نشے میں چو ر تھا ۔اس دن مجھے پہلی با ر لگا کہ میر ے سر سے سا ئبا ن اٹھ گیا ہے۔گرو جی میری ما ں تھے اور گرو جی ہی میرے با پ تھے،ایسا با پ جو مجھے اپنا نے کے فیصلے پر کبھی شر مندہ نہیں ہوا ۔
پتہ نہیں کہاں سے میر ے وجو د میں اتنی طا قت آگئی کہ میں نے اکبر شا ہ کے ہا تھ سے شرا ب کی بو تل چھینی اور اس کے سر پر دے ما ری ۔بو تل ٹوٹ گئی اور میں نے وہی ٹو ٹی بو تل اکبر شا ہ کے سینے میں گھو نپ دی۔۔۔۔۔۔۔صا حب جی! آپ نے پو چھا تھا کبھی مجھے میری ما ں کی یا د نہیں آئی ۔صا حب جی! میری ما ں میرے گرو جی تھے ۔مجھے ان کی بہت یا د آتی ہے۔کہیں سے انکو وا پس لا دیں ۔
اب تو جج صا حب نے سزا ئے مو ت کو بھی عمر قید میں بدل دیا ہے۔اتنی لمبی زندگی گرو جی کے بغیر کیسے گزرے گی''۔ شو کت بو بی جس کے لہجے میں اپنی ما ں کے لیے کو ئی جذ بہ اور کو ئی گدا ز نہیں تھا اپنے گرو جی کو یا د کر تے ہو ئے رو رہا تھا ۔اس کی چیخیں بر دا شت نہیں ہو رہی تھیں ۔میں بو جھل دل سے اٹھا ،میں نے شو کت بو بی کا شا نہ تھپتھپا یا اور سست روی سے چلتا ہو ا جیل سے با ہر آگیا جہا ں میری دنیا میری منتظر تھی۔و ہی دنیا جس میں شو کت بو بی جیسے'' ڈب کھڑبو ں'' کے لیے کو ئی جگہ نہیں ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles