Supplementary Card - Article No. 1019

Supplementary Card

سپلیمنٹری کارڈ - تحریر نمبر 1019

ساجد سلمان اپنے بڑے سے آراستہ دفتر میں پوری رعونت سے میز پر ٹانگیں رکھے بینک کے کریڈٹ کارڈ سیلز ایگزیکٹو کی بتائی ہوئی تفصیلات انتہائی بے اعتنائی سے سن رہاتھا۔

جمعہ 4 مارچ 2016

عمار مسعود:
ساجد سلمان اپنے بڑے سے آراستہ دفتر میں پوری رعونت سے میز پر ٹانگیں رکھے بینک کے کریڈٹ کارڈ سیلز ایگزیکٹو کی بتائی ہوئی تفصیلات انتہائی بے اعتنائی سے سن رہاتھا۔ Zara's کا سوٹ، Harrods کی ٹائی، Bally کے جوتے، CK کا پرفیوم اور اس کے ہاتھ میں سلگتا Cohiba-6 کا سگار ہی بینک کے ملازم کو مرعوب کرنے کے لیے کافی تھا۔
اس کے باوجود وہ اپنے بلندآہنگ سے سامنے بیٹھے نوجوان کو مزید نروس کیے جارہا تھا۔ گھبرایا سا وہ نوجوان اب جلدی جلدی کارڈ کی تفصیلات بتانے لگا۔ یوں لگتا تھا کہ اب وہ اپنے دس فیصد کمیشن کے بارے میں نہیں سوچ رہا بلکہ تذلیل کے اس لمحے سے جلد از جلد گزرجانا چاہتا تھا۔ وہ بے چارہ کریڈٹ کار ڈ کے استعمال کی حد بتانے کے بعد کہنے لگا ” سر ہر(Parent Card)پیرنٹ کارڈ کا سپلیمنٹری کارڈ بن سکتا ہے۔

(جاری ہے)

دونوں کی حیثیت برابر ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پیرنٹ کارڈ سے ہی سپلیمنٹری کارڈ کی حد کا فیصلہ ہوتا ہے۔ اگر آپ پسند کریں تو ہم آپ کے کارڈ کے ساتھ آپ کی وائف کا سپلیمنٹری کارڈ بھی بنا سکتے ہیں۔ “ سیلز ایگزیکٹو نے اپنے رٹے رٹائے سبق کو جلدی سے دہرا دیا۔ آخری جملہ بولتے ہوئے دس فیصد کمیشن کی روشنی پھر اس کی آنکھوں میں جگمگا اٹھی تھی۔
اس کے جملے کے اختتام سے ذراپہلے ساجد سلمان نے پاؤں کے اشارے سے نوجوان کی تقریر کو روکا اور پھر چٹکی بجا کر کہنے لگا ” کارڈ بھجوادینااور باقی تفصیل میری سیکرٹری سے لے لو۔ اور ہاں مجھے اپنی وائف کے لیے سپلیمنٹری کارڈ بھی چاہئیے، اب جاؤ“۔ وہ دھاڑا۔بینک کا ملازم اپنی اس کامیابی پر اس کا بہت شکریہ اداکرنا چاہتا تھا۔ مگر جس لہجے میں اسے جانے کا حکم ملا اس کے بعد اُس میں ایک لفظ بھی کہنے کا حوصلہ نہیں تھا۔
وہ کمرے سے ایسے نکلا جیسے تذلیل کے اس لمحے سے چھٹکارہ پانا ہی اس کی آخری خواہش ہو۔ اس کے جانے کے بعد ساجد سلمان اٹالین فرنیچر سے سجے کمرے میں دیر تک چٹکیاں بجاتا رہا۔
اس نے زندگی کے تمام فیصلے چٹکی بجاتے میں کیے تھے۔ اس کے وجیہہ سراپے، آکسفورڈ کی تعلیم، امیر باپ کی فیکٹری سے حاصل ہونے والے وافر مالی فوائدپردسترس کے فخر نے اسے وہ اعتماد بخشا تھا کہ اس کی بات ہمیشہ حتمی اور آخری ہوتی تھی۔
وہ گفتگو کے عین درمیان اپنا فیصلہ سنا دیا کرتا تھا۔ بحث کرنا اسے پسند نہیں تھا۔ وہ لوگوں سے الجھتا نہیں تھا۔ انہیں قائل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتا تھا۔ وہ تو بس کسی حکمران کی طرح ایک دم حتمی بات کہہ دیتا تھا۔
اس کی ساری زندگی میں صرف ایک بار اس کا یہ اعتماد کچھ دیر کے لیے ڈگمگایا تھا۔ پہلی دفعہ ایسا ہوا تھا کہ فیصلہ سنانے کے بعد تعمیل نہیں ہوئی تھی۔
شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ اس بار اس کے سامنے باپ کی فیکٹری کے ملازم نہیں بلکہ آکسفورڈ سے اینتھروپالوجی میں ماسٹرز کرنے والی نوشی حسن تھی۔ وہ تو خود متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ متاثر ہوتی نہیں تھی۔ گھنی زلفوں، سیاہ آنکھوں، شہابی رنگت والی، برٹش انگلش لہجے، مشرقی رقص اور دھیرے سے بات کرنے کا سلیقہ بھی خوب جانتی تھی۔ اس کے سراپے اور بے باکی میں اپنے باپ کے مرتبے کی جھلک بہت واضح تھی۔
آکسفورڈ میں اسے پہلی نظر دیکھ لینے کے بعد ساجد سلمان فیصلہ کرچکا تھا کہ کانچ کی اس گڑیا کا حصول صرف اسی کا حق ہے۔ اس کے دائرہٴ اختیار میں یہ وجود بہت سجے گا۔ اگر نوشی فوراً ہی اس کی بات مان لیتی، اس کی شخصیت اورمردانہ وجاہت پر ریجھ جاتی تو چند دن کے استعمال کے بعد اس کی کوئی وقعت نہ رہ جاتی۔اس نے پہلے تو ساجد سلمان کو خوب دوڑایا، بھگایااورخود ایک چھلاوے کی طرح اس کی دسترس سے نکلتی رہی اور پھر جب وہ اس بھاگ دوڑ سے تھک کر ہانپتے ہانپتے بیٹھ گیا تب نوشی ترس کھا کر خود اس کے پاس آگئی۔
یہی وہ لمحہ تھا جب اُن کے بیاہ کی کنڈلی مل چکی تھی۔ اس دن ساجد سلمان کو شادی کی درخواست کرنا ہی پڑی۔ نوشی جانتی تھی کہ معرکے میں یہ فتح کا لمحہ ہے۔ یہی قبولیت کا وقت ہے۔ یہی فیصلے کی گھڑی ہے۔ دونوں اپنی اپنی فتح پر مسرور جلد شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ نوشی اس کی زندگی اور بزنس پارٹنر بن گئی۔
نوشی کے باپ کے مرتبے نے ساجد سلمان کے کاروبار کو اس کی توقع سے زیادہ فائدہ پہنچایا تھا۔
اس کی فیکٹریاں ہر سال بچے دینے لگیں۔ ہُن اس طرح برسا کوئی شمار نہ رہا۔وہ اس سارے واقعے کو رفتہ رفتہ اپنی ذہانت کی دلیل بتاتے بتاتے اب خود اس پر یقین کرنے لگا تھا۔ قسمت اس پر اس طرح مہربان تھی کہ سبھی فیصلے درست ہونے لگے تھے۔ دولت سے بہت کچھ خریدا جاسکتا ہے یہ وہ بچپن سے جانتا تھا۔ مگر اس سے قسمت کی دیوی کو بھی رام کیا جاسکتا ہے اس کا سبق اسے شادی کے بعد ملا تھا۔

شادی کے شروع میں تونوشی وہی شوخ اورکھلنڈری سی یونیورسٹی کی لڑکی ہی رہی۔ مگر جب اس نے بیوی کا روپ دھارا تو ساجد سلمان کا جی کچھ الجھنے لگا۔ اس کے مرمریں وجود سے اب اسے وحشت سی ہونے لگی۔ وہ ہر روز ایک ہی کھانا کھانے کا عادی نہیں تھا۔ ایک رنگ کا کپڑا بھی نہیں پہنتا تھا۔ حتیٰ کہ ایک ہی ساتھی کے ساتھ زیادہ عرصے تک رقص بھی نہیں کرتا تھا۔
وہ اب ”روز “کے جمود سے گھبرا گیا تھا۔ پھر نوشی جب عام بیویوں کی طرح اس سے تفتیشی انداز میں سوال کرتی تو اس کا جی ڈوبنے لگتا۔ وہ کسی لڑکی سے ملا؟ رات کتنی شراب پی ؟ کون کون اس کے دفتر آیا؟ وہ کہاں کہاں گیا ؟ تمام عمر کسی کو اس سے یہ سوال پوچھنے کی جرأت نہیں ہوئی تھی۔ مگر وہ جو اس کی زندگی اور بزنس پارٹنر تھی اب بے دھڑک سوال کرتی تھی۔
وہ جانتا تھا کہ وہ نوشی کی ناراضگی افورڈ نہیں کرسکتا۔ اس اختلاف کا اثر اس کے بزنس پر بھی پڑسکتا تھا۔ سارا محل گرسکتا تھا۔ شروع شروع میں اس صورت ِحال سے نکلنے کی کوئی صورت نظرنہیں آتی تھی۔ مگر وہ ہرمشکل صورت ِحال سے اپنے مطلب کا حل نکالنے کا ہنر خوب جانتا تھا۔
وہ شادی شدہ اور غیر شادی شدہ عورتوں کی نفسیات کو لڑکپن سے جانتا تھا۔
وہ اوائل عمری سے ہی ہر طرح کی عورت کے ساتھ رہ کر ازدواجی زندگی کے بہت سے راز جان چکاتھا۔ وہ جانتا تھا کہ شادی شدہ عورت کو صرف یقین دہانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسے ہر روز اظہارِ محبت درکار ہوتا ہے۔ پھولوں کے تحفے، ریسٹورنٹ میں کینڈل لائٹ ڈنراور شوہر کے ساتھ شاپنگ ہی اس کی معراج ہوتی ہے۔ دکانوں میں سے چیزیں پسند نا پسند کرتے شوہر کو شاپنگ بیگ تھمائے جب وہ کار کی جانب بڑھتی ہے تو اپنے آپ کو کسی نودریافت شدہ سلطنت کی ملکہ تصور کرتی ہے۔
وہ شوہر کے ساتھ یورپ میں چھٹیاں منانے کا پروگرام بناتی ہے کہ سب کو بتا سکے کہ سکہ کس کا چلتا ہے ؟حکومت کس کی رہتی ہے؟۔
نوشی بھی سب شادی شدہ عورتوں کی طرح تھی۔ اس کی ذات میں اب کچھ مختلف نہیں رہا۔ اسے بھی اب ہر لمحے اظہار کے تمام لفظ درکار تھے۔ملکیت کا اسے بھی دعویٰ تھا۔ شروع شروع میں تو وہ بہت جھنجھلایا اور بھاگنے کی ہر ممکن کوشش کی۔
مگر کوشش کی ہر لگام کا سرا جب اس کی نئی فیکٹری کے گیٹ پر رکتا تو وہ چپ ہوجاتا۔ چپ رہنا اس کی عادت نہیں تھی۔ زندگی کے اس مرحلے پر اس نے بہت سوچ سمجھ کر اپنے آپ کو دو حصو ں میں تقسیم کرلیا تھا۔ وہ نوشی کی ہر خواہش پوری کرتا۔موقع بہ موقع اسے پھول پیش کرتا۔ دونوں اکثر رات گئے لانگ ڈرائیو کرتے ہوئے کسی نیم تاریک سے ریسٹورنٹ میں جاتے، وہ اس کی سالگرہ کا دن یاد رکھتا، اس کے پسندیدہ رنگ کے لباس پہنتا۔
ہر نئے اکاؤنٹ کے پیرنٹ کارڈ کا سپلیمنٹری کارڈ اس کے لیے بنواتا۔ اس کے پکائے ہوئے کھانوں کی خوب تعریف کرتا۔ اظہار کے ہر معیار پر پورااترتا۔
شخصیت کا دوسرا رُخ اس کو اب بھی شکار پر مجبور کرتا۔ شکار کرنا اس کی عادت تھی مگر اب وہ یہ شکار بہت سنبھل کر اوردیکھ بھال کرکرتا تھا۔ بہت سی عورتیں اب بھی اس کے حلقہٴ دام میں تھیں۔ وہ ان سے حظ اٹھاتا تھا۔
مگر اب اس کا طریقہٴ کار بہت محتاط ہوگیا تھا۔ کسی گمنام گیسٹ ہاؤس یا پھر شہر سے باہر کسی فائیو سٹار ہوٹل میں جب وہ حسن کے کسی مجسّمے کا خراج ادا کرتا تھاتو واپسی سے پہلے کالر پر سے لپ اسٹک کے نشان، اجنبی پرفیوم کی خوشبو اور لباس کی شکنیں سب مٹا دیاکرتا۔گھر جاتے ہوئے نوشی کے لیے سرخ گلابوں کا گُل دستہ اس کے ہاتھ میں ضرور رہتا تھا۔ اب اس کی زندگی ایک مطمئن ڈگر پر چلنے لگی تھی۔
توازن کے اس مرحلے میں پورا اترنے کے لیے جو ذہانت درکا رتھی وہ ساجد سلمان میں بدرجہ ٴ اتم موجود تھی۔
دفتر سے روانگی سے چند لمحے پہلے حسبِ معمول آج بھی خاکی رنگ کے سفاری سوٹ میں ملبوس سپروائزر جمیل سرخ پھولوں کا دستہ لئے خاموشی سے اس کے کمرے میں داخل ہوا۔ میز پر گُل دستہ رکھنے کے بعدوہ ہاتھ باندھے ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ اس کے چہرے پر وہی مسکین مسکراہٹ تھی جس سے نامردی، خوشامد اور غلامی کے اقرار کا تاثر ملتا تھا۔
اس نے اپنی جیب سے ہزار ہزار کے دو نوٹ نکالے اور جمیل کی طرف پھینک دئیے۔ یہ اس بات کا عندیہ تھا کہ اب وہ اپنی مسکراہٹ سمیت اس کمرے سے جاسکتا تھا۔
جمیل جیسے کرداروں کو وہ اچھی طرح جانتا تھا۔ ایسے لوگ ترقی کی خواہش، افسران کی قربت اور معمولی سے فائدے کے لیے سب کچھ کرسکتے تھے۔ جمیل کی خوبی یہ تھی کہ وہ اپنے مقام کو اچھی طرح جانتا تھا۔
وہ وقت پڑنے پر ساجد سلمان کے جوتے صاف کرسکتا تھا۔ ناخن کاٹ سکتا تھا۔ گھر کا سودا لاسکتا تھا۔ اس کے تمام گناہ اپنے سر لے سکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ معمولی تعلیم کے باوجود جلد ہی وہ کلرک سے سپروائزر کے عہدے پر ترقی پاچکاتھا۔ ساجد سلمان کی زندگی کے دوسرے رُخ کا راز دار صرف جمیل تھا۔ اس کی گرل فرینڈز کے فون نمبر، شبینہ وارداتوں کی داستان اور مجروں میں لٹائے گئے پیسوں تک ہرچیزکا حساب جمیل کے پاس رہتا تھا۔
اس کو سارا انعام خاموشی کا ملتا تھا۔ جمیل اس کے ہر راز سے واقف تھا۔ مگر شاید ابھی تک اسے زاہدہ اور اس کے تعلقات کا علم نہیں ہوا تھا۔
جمیل کی بیوی زاہدہ پہلی بار اس سے ملی۔ تو اُسے لان کے باریک سوٹ میں ملبوس اس جسم کی بھوک کا اندازہ ہوگیاتھا۔ عورت مرد کی سوچ سے پہلے مرد کے ارادے کو بھانپ لیتی ہے۔ پہلی ملاقات میں زاہدہ نے جس بے طرح جمیل کو نظر انداز کرکے اس سے التفات برتا تھا۔
وہ اس ایک ایک حرکت کے معنی جانتا تھا۔ اس عورت کے جسم میں جسمانی آسودگی پہنچانے کے وفور کو وہ پہلی نظر میں پہچان گیا تھا۔ اس ملاقات میں ساجد سلمان نے کئی دفعہ کن انکھیوں سے جمیل کو دیکھا۔ مگر وہ اپنے باس کی سب وارداتوں سے واقف ہونے کے باوجود اس سارے منظر کو انتہائی معصومیت سے دیکھ رہا تھا۔
زاہدہ سے اُس کا رابطہ ہوئے اسے چند ماہ ہوگئے تھے۔
اس دوران قربت کے کچھ مواقع بھی ملے مگر ابھی تک وہ مکمل طور پر اس کے بدن کا خراج نہیں دے سکا تھا۔ زاہدہ،جمیل کے گھر سے نکلنے کے بعد روز اسے فون کیا کرتی۔ فون پر بھی یوں لگتا کہ جیسے وہ خود کچھ نہیں کہہ رہی صرف اُس کا بدن بول رہا ہے۔ ساجد سلمان جلد ہی اب کتاب کا آخری صفحہ پلٹنا چاہتا تھا۔ یہ مہم اس لیے خطرناک تھی کہ اسے جمیل اور نوشی دونوں سے خفیہ رکھنا تھاجو اس شہر میں ممکن نظر نہیں آتا تھا۔

اس دفعہ سارا انتظام اسے خود ہی کرنا تھا۔ اس نے خود ہی دفتر میں اپنے ملتان جانے کا ذکر کیا اور لاہور کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں بکنگ کروالی۔ فون پر احتیاطاً اس نے زاہدہ کو بھی ملتان کا ہی بتایا تھا۔ زاہدہ نے جانے جمیل کو کیا بتایا مگر سارا پلان سننے کے بعد اس کے لہجے میں انکارکا شائبہ تک نہ تھا۔
نوشی بہت دنوں سے اپنی امریکہ سے آئی ہوئی سہیلی کے گھر جانا چاہتی تھی۔
اس نے بتایا کہ وہ پرسوں ملتان جارہا ہے۔ اس کے بعد وہ اپنی سہیلی کے ہاں جاسکتی ہے۔ اس صبح جب وہ دفتر سے نکلا تو اس کے جسم میں عجیب ہیجان برپا تھا۔ خواہش اس کے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔ زاہدہ کا بدن تمام رات اس کے سامنے رقص کرتا رہا۔ جب اس نے اپنی بڑی سی گاڑی کو زاہدہ کے گھر کے سامنے روکا تو وہ پرس جھلاتی مزے سے آکر گاڑی میں بیٹھ گئی۔ یوں لگتا تھا کہ کوئی تشویش یا پریشانی اسے لاحق ہی نہیں۔
موٹر وے پر لاہور تک کے سفر میں بارہا اس کا ہاتھ زاہدہ کے جسم سے ٹکرایا۔ کئی بار چنگاریاں نکلیں،پٹاخے چلے۔ راستے میں بار بار نوشی کا فون اس کے موبائل پر آتا رہا۔ بظاہر تو وہ اس کی خیریت پوچھ رہی تھی مگر ساجد سلمان اس کے لہجے میں تفتیش کوسمجھ رہا تھا۔ وہ ہر بات کا جواب بہت سنبھل کر اور اعتماد سے دیتا رہا۔ ہوٹل کے قریب پہنچ کر اس نے زاہدہ کو کچھ فاصلے پر اتار دیا۔
ایک شریف شادی شدہ شخص کے لیے ہر طرح کی احتیاط لازم تھی۔ جب اس نے کمرے میں چیک ان کیا تو کچھ دیر بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ اس کی ساری مشقت کا ثمر اب ملنے والا تھا۔ اس نے احتیاط سے دروازہ بند کرکے زاہدہ کو دبوچ لیا۔ پھر اچانک اسے کمرے کے پردے برابر کرنے کا خیال آیا۔ پردے برابر کرتے کرتے اس کی نظر ہوٹل کی ریسپشن پر پڑی جہاں جمیل نوشی کی کمر میں ہاتھ ڈالے کھڑا تھا۔
اس کے چہرے سے وہ مسکراہٹ غائب تھی جس سے نامردی، خوشامد اور غلامی کا اقرار ملتا تھا۔ سب کچھ اتنا واضح تھا کہ اس کو وہ سپلیمنٹری کارڈتک بھی نظرآرہا تھا جسے اپنے نازک سے پرس میں سے نکال کر نوشی نے ہوٹل کی پے منٹ کی تھی۔
وہ کچھ دیر پتھر بنا پردے سے باہر دیکھتا رہا اور پھر پشیمان سا پسینے میں شرابور بڑے صوفے پر بیٹھ گیا۔جانے کیوں اسے اس وقت یوں لگا کہ میاں بیوی بھی کریڈٹ کارڈ کی طرح ہوتے ہیں۔ پیرنٹ کارڈ اور سپلیمنٹری کارڈ دونوں کی حیثیت برابر ہوتی ہے۔ فرق صرف اتنا ہوتا ہے کہ پیرنٹ کارڈ سے ہی سپلیمنٹری کارڈ کی حد کا تعین ہوتا ہے۔

Browse More Urdu Literature Articles