Tanha Raahain - Article No. 970

Tanha Raahain

تنہا راہیں - تحریر نمبر 970

دیکھو نیلم! ہر شادی شدہ مرد و عورت کو بچوں کی خواہش ہوتی ہے۔ تم احمد کی اس فطری خواہش کو کیوں کچلنا چاہتی ہو؟

جمعرات 15 اکتوبر 2015

خدیجہ مغل:
دیکھو نیلم!ہر شادی شدہ مر و عورت کو بچوں کی خواہش ہوتی ہے۔تم احمد کی اس فطری خواہش کو کیوں کچلنا چاہتی ہو؟
اگر آپکے بیٹے میں کوئی کمی ہوتی تو کیا تب بھی آپ مجھے دوسری شادی کا مشورہ دیتیں؟نیلم غصے سے بولی۔
ہاں!رفعت بیگم نے پیار سے کہا اور نیلم نے سر جھٹکا۔
اگر میرے بیٹے میں کوئی کمی ہوتی تو میں خود اس سے طلاق دلوا کر تمھاری شادی کرواتی۔
ایسی صورت میں تمھیں دوسری شادی کا حق ہے میں بھلا تمھارا حق کیوں چھینتی؟نیلم سے رہا نہ گیا تو کڑوے لہجے میں بولی یہ سب منہ کی باتیں ہیں ۔کوئی عورت کو اسکا حق نہیں دیتا خیر مجھے ان سب باتوں سے کیا لینا دینا مجھے طلاق چاہیے۔میں احمد کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔
نیلم بیٹا !بات تو سنو میری۔

(جاری ہے)

اولاد نہ ہونے کی صورت میں اسلام مرد کو دوسری شادی کی اجازت دیتا ہے۔

اس لیے میں تمھیں کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔
بس۔۔۔بہت ہو گیا نیلم ہتھے سے اکھڑگئی ۔آپ مجھے سمجھائیں گئی کہ زندگی کیسے گزارنی ہے یہ میری زندگی ہے میں جیسے مرضی بسر کروں آپ کون ہوتی ہیں مجھے روکنے والی کہہ کر وہ کمرے سے باہر جاچکی تھی اور رفعت بیگم مایوسی سے اُسے جاتا دیکھتی رہ گئیں۔۔کیا ہو گیا ہے اسے؟
نیلم کی بے رُخی اور بد لحاظی کا عالم یہ ہوگیا تھا کہ احمد خود پریشان تھے کہ وہ نیلم کو کیسے سمجھائیں۔
۔
انہوں نے اسے منانے کی بے حد کوشش کی ۔انہوں نے سمجھایا کہ دوسری بیوی کے آجانے سے اسکے حقوق میں کوئی کمی نہیں آئے گئی۔مگر وہ ماننے کو تیار ہی نہ تھی اور بالآخر اُن کو ہی ہار ماننی پڑی اور نیلم اپنے گھر واپس آگئی۔جہاں اسکی امی تھیں اور وہ تھی۔۔گھر میں بور رہنے سے تنگ آکراس نے شہر کی مشہور ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب اسٹارٹ کر لی تھی۔
صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک وہ وہیں ہوتی اور اُسے اپنی غلطی کا ذرابھی ملال نہ تھا۔
وہ اپنی تنہائی کا قصور وار صرف اور صرف احمد کو ٹہراتی تھی۔مگر وہ اسکے پاس نہ تھا اور اب وہ اسکے پاس کیسے آسکتا تھا اس نے خود اپنے آپکو اس سے الگ کیا ۔رات کو سوتے وقت اسے احمد کی بے پناہ یاد آئی مگر تنہائی کے سوا اسکا کوئی ساتھی نہ تھا۔
#۔۔۔۔
#
نازیہ سے شادی کے بعد ان کی زندگی بہت خوشگوار سی ہوگئی تھی۔نازیہ بہت خیال رکھنے والی بیوی ثابت ہوئی تھی ۔ہر کام وہ سلیقے سے کرتی تھی اس نے اپنی ساس کو کبھی بھی شکایت کا موقع نہ دیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ رفعت بیگم بھی خوش تھیں لیکن کبھی کبھی انہیں نیلم کے یوں چلے جانے کا بہت غم ہوتا تھا۔ایسے میں احمد انہیں سمجھا دیا کرتا تھا کہ اس پر ان کا زور تو تھا نہیں ۔
جو خدا کی مرضی۔۔۔
ٓآج شام احمد جلدی گھر آگئے تھے ان کا پروگرام تھا کہ آج وہ باہر سے کھانا کھائیں گئے مگر گھر آتے ہی بریانی کی خوشبو نے ان کا پلان ختم کر دیا۔
ارے آپ۔۔۔نازیہ جو بریانی کو دم لگانے ہی والی تھی کہ احمد کو کچن میں دیکھ کر رُک گئی۔
کیوں ۔۔۔ہماری یہاں نو انٹری ہے کیا؟
ہم نے منع بھی تو نہیں کیا ۔۔اس نے اپنا کام جاری رکھا
پاس میں آذرا ہونٹ ملا
میرے نال توں۔
۔۔گنگناتے ہوئے انہوں نے اُسے اپنی بانہوں میں لے لیا۔نازیہ جو ایسے ردِعمل کے لیے تیار نہ تھی شرم سے پانی پانی ہو رہی تھی کہ کچن میں ایسا۔چھوڑیں نہ کوئی آجائے گا۔۔۔
جہاں ہم تم ہوں وہاں کون آسکتا ہے جانِ من۔اسے اپنے پاس کرتے ہوئے بولے۔اس نے بچنے کی بہت کو شش کی مگر وہ اپنے آپکو بچا نہ پائی۔
#۔۔۔۔#
آفس کا تھکا دینے والا کام مکمل کر کے وہ جونہی پارکنگ ایریا میں آئی تو پاس ہی اسفن بھی کھڑا تھا۔
اسے نظر انداز کرتے ہوئے وہ آگے بڑھ گئی۔
ہائے۔۔وہ آواز سُنتے ہی چونکی اور پیچھے مڑ کر دیکھا تو اسفن اسکے پاس آچکا تھا۔
جی کہیے۔۔
کیسی ہیں آپ؟وہ جانتا تھا وہ اسکی بات نہیں مانے گئی مگر پھر بھی ایک بار ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے؟
شکر الله کا ۔۔آپ کے کیا حال ہیں؟
میں بھی ٹھیک ٹھاک ہوں۔کیا میں آپ سے کچھ بات کر سکتا ہوں؟اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا
جی کہیے کیا بات ہے؟
کیا آپ اپنا کچھ وقت میرے ساتھ گزرانا پسند کریں گئیں؟
کیا مطلب۔
۔۔؟نیلم نے نہ سمجھے انداز میں کہا
مطلب کیا ہ ایک کپ کافی پی سکتے ہیں ۔اگر آپکو بُرا نہ لگے تو۔۔۔
آئی ایم سوری ۔میں لیٹ ہو رہی ہوں ہم پھر کبھی چلیں گئے۔۔گاڑی کا لاک اوپن کرتے ہوئے بولی۔
اٹس اوکے۔۔۔وہ وہاں سے ہٹ گیا تھا۔اور نیلم اپنی گاڑی میں بیٹھ کر پارکنگ ایریا کراس کر چکی تھی۔
گھر پہنچتے پہنچتے اسے شدید بھوک کا احساس ہو رہا تھا۔
اس نے جلدی سے چینج کیا اور کچن کی جانب بڑھ گئی۔
کھانا بناتے ہوئے اسے احمد کی یاد ستا رہی تھی ۔چپکے سے آنسو پلکوں کی باڑ سے آزاد ہو کر گالوں پہ پھسل گئے۔اس نے بمشکل ہی کھانا کھایا تھا اور اپنے روم میں آگئی۔۔
کوئی کہہ ہی نہیں سکتا تھا کہ اس گھر میں کوئی نفوس رہتا تھا ہر دم خاموشی ۔۔۔مگر ایک فرد تھا جو اس گھر کا مالک تھا تنہائی کا مسافر تھا جو اپنی اگلی منزل نہیں جانتا تھا ۔
اس دنیا سے بے نیاز و بے خبر۔۔۔
اچانک ہی اسے اسفن کا چہرہ یاد آیا ۔۔جو اسکے ساتھ کام کرتا ہے اور اس سے ہلکی پھلکی بات چیت ہو جایا کر تی ہے ۔اس نے آنکھیں بند کردیں ۔اور کروٹ بدل کر سونے لگی۔۔
اسے کسی کے بارے میں نہیں سوچنا ۔۔اور اگر وہ سوچے گئی بھی تو سوچنا بے فضول سا ہے۔
اگلی صبح نہایت خوشگوار تھی رات کا سارا غم وہ بھول چکی تھی ۔
۔اور روز کی طرح آج بھی پورے ٹائم پہ اپنے کیبن میں موجود تھی ۔
کام کرتے کرتے کب گھڑی نے شام کے شام بجا دیے وہ حیران تھی۔وہ ابھی کام مکمل کرکے اُٹھنے ہی والی تھی کہ اُسے اسفن کی کال آگئی اور اُسے مجبورا وہاں رُکنا پڑا ۔۔۔
تقریبا شام کے چھ بج رہے تھے جب وہ اسفن کے ساتھ آفس سے باہر آئی۔اس کا خیال تھا کہ آٹھ بجے تک وہ گھر پہنچ جائے گئی ۔
مگر اسفن نے کافی کے ساتھ ساتھ کھانا بھی منگوا لیا تھا۔وہ اسے منع بھی کرتی رہی مگر اس نے اپنی ہی مانی اور اُسے کھانا کھانے میں بہت مزہ آیا۔
آج وہ اتنے عرصے بعد کسی کے ساتھ کھانا کھا رہی تھی ۔اسفن بھی اس سے ہلکی پھلکی باتیں کرتا رہا تھا۔
اسے اسفن کا یہ انداز اچھا لگا تھا ۔آج وہ اتنے عرصے بعد مسکرا رہی تھی۔
اسفن اسکا دل دُکھانا نہیں چاہتا تھا وہ چا ہتا تھا کہ وہ اپنے دل کی بات اُسے بتائے اور وہ بُرا نہ مانے ۔
مگر کیسے ؟وہ یہی سوچ رہا تھا کہ مما کی کال آگئی۔۔۔
وہ ایکسکیوز کرکے وہاں سے دُور ہٹ گیا۔اور نیلم وہیں بیٹھی رہی۔اس نے گھڑی کی جانب نظر دوڑائی تو ساڑھے آٹھ بج رہے تھے۔۔اتنی دیر ہو گئی ہے ہمیں یہاں آئے ہوئے؟؟اس نے حیرانگی سے کہا
اب ہمیں چلنا چاہیے ۔اسفن کے آتے ہی اس نے کہا ۔
اوکے چلتے ہیں۔۔وہ ہوٹل سے باہر آگئے تھے سردی کے موسم میں رات کے وقت خنک ہوامیں اور اضافہ ہوگیا تھا۔
وہ باہر آتے آتے سردی میں ٹھٹر چکی تھی ۔اور جلدی سے گاڑی کی جانب بڑھی ۔
ایک بات پوچھوں بُرا تو نہیں مانیں گئیں۔۔گاڑی ڈرائیو کرتے ہو ئے اسکی طرف دیکھتے ہوئے بولا تو نیلم نے نفی میں سر ہلا دیا۔۔۔
آج آپکو کیسا لگا ؟
کھانا اچھا تھا ۔۔اینڈ آپ کا تھینکس آپ نے مجھے یاد رکھا۔
آپ تو ہمیشہ ہی یاد رہیں گئیں۔اگر میں آپکو کوئی چیز گفٹ دوں تو کیا آپ لے لیں گئیں؟انکار تو نہیں کریں گئیں۔
وہ بات کرتے کرتے ہچکچا رہا تھا۔
گفٹ کی کیا ضرورت ہے ۔ہم نے ساتھ میں کھانا کھا لیا ہے یہی کافی ہے۔
لیکن میں آپکو گفٹ دینا چاہتا ہوں۔
اتنا بھی کیا ضروری ہے۔۔؟
میری زندگی میں آپکی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔تو آپکے لیے گفٹ بنتا ہے ۔آپ انکار مت کرنا۔
اوکے۔۔نیلم جانتی تھی کہ وہ گفٹ کیا ہے مگر پھر بھی وہ چُپ کر گئی اور گفٹ لے لیا۔
۔۔رات کے ساڑھے نو بجے وہ گھر پہنچی تو تھک چکی تھی اس نے چینج کیا اور اپنے روم میں آگئی۔۔بالوں میں برش کرتے ہوئے اچانک اسکی نظر اسفن کے دیے ہوئے گفٹ پہ پڑی اس نے برش کرکے گفٹ تھاما اور بیڈ پہ آگئی۔۔۔
کیا چیز ہو سکتی ہے؟وہ سوچنے لگی۔کھولنے سے ہی پتہ لگے گا کہ کیا چیز ہے؟اس نے گفٹ کا ریپر اُتارا اور سامنے کامنظر کچھ اور ہی منظر تھا۔
۔
یہ سب۔۔۔؟اس نے سوچا نہیں تھا اسفن اسکے بارے میں ایسے خیالات رکھتا ہے ۔وہ جہاں تھی وہیں کی وہیں ساکت رہ گئی تھی۔
ابھی پہلے والا غم اسکا ہلکا ہوا نہیں تھا اور اب یہ۔۔۔۔
نہیں ۔۔مجھے یہ سب نہیں کرنا ۔۔میں اپنے ساتھ کسی اور کی زندگی برباد نہیں کرسکتی۔ایک بار مجھے گھر سے بے گھر کیا گیا ہے تو کیا معلوم دوسری بار بھی میرے ساتھ ایسا کیا جائے ۔
اور مجھ میں یہ سب سہنے کی ہمت نہیں ۔۔
ساری رات اس نے یہی سوچتے ہوئے گزار دی۔اور صبح ہوتے ہی اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ جلد ہی کسی اور کمپنی میں جاب ڈھونڈ لے گی ۔
اور اصل بات تویہ ہے کہ وہ اسفن کو کیا جواب دے گی؟آفس میں کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ اسکی شادی ختم ہو چکی ہے۔اس نے کبھی کسی سے اتنی بات ہی نہ کی تھی اورنہ ہی کسی سے اتنا فری ہوئی تھی ۔
یہی وجہ تھی کہ کوئی بھی اس سے زیادہ فری نہ تھا ۔
کمپنی کے سُپر وائزر بھی اس کی کارکردگی سے متاثر ہوتے تھے۔لیکن اسے یہ کامیابی کی ضرورت نہیں تھی۔اصل کامیابی کو وہ خو د ہار میں بدل آئی تھی۔جس کا احساس اُسے اب ہو رہا تھا۔
وہ احمد اور رفعت آپا کی بات مان لیتی تو آج وہ اتنی اکیلی نہ ہوتی اور نہ اتنی تنہائی ہوتی۔۔۔
وہ تنہائی میں گم سی ہو گئی تھی ،اسفن کو رد کرنے کے بعد وہ چُپ چُپ سی رہا کرتی تھی۔
اور پھر جلد ہی وہ دوسری کمپنی میں شفٹ ہو گئی تھی۔
رات کے وقت وہ ہوتی اور اسکی تنہائی ۔۔۔اسے اب اپنے حلیے کا بھی خاص خیال نہ رہتا تھا۔ہر وقت اُداس اور غمگین سی رہتی تھی۔۔۔
آج کافی عرصے بعد اس نے شاپنگ کرنے کا ارادہ کیا اور آفس سے واپسی پہ اس نے شاپنگ مال کا رُخ کیا۔۔۔
شاپنگ کرنے میں بھی اسکا دل نہیں لگ رہا تھا۔بے دلی سے وہ سارا مال گھوم چکی تھی اور تین چار چیزیں ہی خریدیں تھیں۔

مال سے باہر آتے ہوئے کافی رش تھا ۔
ایک بچہ جو اپنے والدین کو ڈھونڈ رہا تھا۔وہ رو رہا تھا۔۔نیلم کے دل کو کچھ ہوا۔اس کے والدین بھی شاید اسکو ہی ڈھونڈ رہے ہونگے ،وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ ایک عورت جلدی سے اسکی طرف آئی جو شاید اس بچے کی ماں تھی اسے اپنے حصا ر میں لے لیا ۔بچے کو اپنی آغوش میں بھر لیااور بچہ ماں کی آغوش میں آکر چپ ہو گیا۔
کاش ایسی اولاد میری بھی ہوتی۔۔وہ وہاں سے ہٹ گئی۔۔۔
وہ اسی احساسِ کمتری میں شکار تھی کہ اسمیں بُرائی ہے۔اولاد تو الله تعالیٰ نے دینی ہوتی ہے ۔اس پہ کسی اور کا زور نہیں ہے۔
مگروہ یہی سمجھتی تھی کہ اسمیں بُرائی ہے۔اسی وجہ سے اس نے اسفن کو رد کر دیا اور سب سے بڑھ کر اس نے اپنے پیارے احمد کو چھوڑ دیا ۔
وقت بھی کبھی کبھی بہت درد دیتا ہے انسان بہت کچھ حاصل کرکے بھی بہت تنہا رہ جاتا ہے اور یہ تنہائی اُسے اور تنہا کر دیتی ہے۔

گاڑی دھیرے دھیرے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی اور وہ اس شام میں خود کو بے حدتنہا محسوس کر رہی تھی کاش اسکا بھی کوئی ساتھی ہوتا جو اسکے درد کو سمجھ سکتا اُسے اپنا بناتا۔۔
گاڑی کی اسپیڈ تیز ہوتی جارہی تھی اسکے دماغ میں احمد کے ساتھ گزارے گئے لمحات تھے۔۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ وہ کہاں جارہی ہے؟اندھیری راہ میں وہ بھٹک گئی تھی اور وہ نہیں جانتی تھی کہ یہ تنہائی اورتنہا راہیں اسکا مقدر ہیں۔

#۔۔۔۔#
آج آپ نے کچھ زیادہ ہی شاپنگ نہیں کروا دی۔مال سے باہر آتے ہوئے نازی نے خوشی سے چہکتے ہوئے کہا
ارے یہ تو کچھ نہیں ۔۔اگلی بار تو اس سے بھی زیادہ ہو گی۔احمد نے گاڑی کا لاک اوپن کرتے ہوئے کہا اور دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے۔۔۔
امی کی دوا لینی ہے یاد سے۔۔۔نازی نے یاد کروایا جو اید احمد بھول جاتے
جی جانِم یاد ہے۔۔احمد نے مسکراتے ہوئے کہا تو نازی بھی شرمیلی سی ہنسی ہنس دی۔
۔
دوا لینے کے بعد ان کا رُخ اب گھر کی طرف تھا۔شام کے چھ بجنے کو تھے۔مگر آگے روڈ بلاک تھا۔۔شِٹ۔۔۔میں جب بھی جلدی میں ہوتا ہوں تب ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟احمد نے اسٹیرنگ پہ ہاتھ ماراتو نازی مسکرا اٹھی۔۔
ڈونٹ وری امی کھانا کھا لیں گئیں میں نے کہہ دیا تھا اگر ہم لیٹ ہوئے تو وہ کھانا کھا لیں ،نازی نے اسے تسلی دی تو وہ چپ کر گیا۔۔
ویسے یہاں ہو اکیا ہے؟اتنا رش تو پہلے کبھی نہیں ہوا یہاں۔
میں دیکھ کر آتا ہوں ۔وہ باہر آگیا آگے آتے ہی وہ ساکت رہ گیا نیلم کا چہرہ اسکے سامنے تھا۔۔ جسے وہ ڈھونڈ رہا تھا۔مگر اس حالت میں کیوں۔۔۔؟وہ جلدی سے آگے بڑھا کیونکہ اسٹیچرکو اایمبولینس میں ڈال دیا گیا تھا ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟کیا وہ آج بھی تنہا ہے۔۔۔؟وہ سوچنے لگا اور جلدی سے آگے بڑھا ۔
رات گہری ہوتی جارہی تھی نازی کابھوک سے بُراحال تھا اُس نے کبھی بھی احمد کے بغیر کھانا نہیں کھایا تھا ۔
آج اچانک ہی احمد کو نہ جانے کیا ہو گیا تھا بہت جلدی جلدی میں اُسے گھر چھوڑ کر واپس چلے گئے اور اب تو گھڑی رات کے گیارہ بجا رہی تھی۔۔
خدا خیر کرے۔۔احمد ٹھیک ہوں۔وہ دل ہی دل میں ان کے لیے دُعائیں کر رہی تھیں۔امی جان جو کب سے سو چکی تھیں وہ صحن میں لگی کرسیوں پہ بیٹھی گیٹ کی جانب ہی دیکھ رہی تھی کہ کب احمد آئیں اور وہ سوئے۔
کتنا ہی وقت بیت گیا نہ کوئی دستک اور نہ احمد۔
۔۔اس نے اُنہیں کال کی اُن کا نمبر مسلسل آف جارہا تھا۔ایسے میں وہ کیا کرتی؟اُسے سمجھ نہیں آرہا تھا بس دل ہی دل میں احمد کی سلامتی کی دُعائیں مانگ رہی تھی۔اب تو اُسے نید بھی آنے لگی تھی اور وہ سونا نہیں چاہتی تھی۔
آج پہلی بار احمد گھر سے اتنی لیٹ باہر تھے اور وہ پریشان تھی نہ جانے کس حال میں ہو نگے ۔مجھے کچھ بتا کر تو جاتے ۔کب تک لوٹیں گئے؟کیا کرنے جارہے ہیں؟بس یہی کہہ کر وہ چلے گئے تھے کہ اُنہیں کوئی ایمرجنسی کام ہے۔
نید سے اُسکی آنکھیں بند ہونے کو تھیں اور وہ گہری نید میں ڈوبتی گئی جبکہ احمد دروازے پہ دستک دے رہے تھے۔
#۔۔۔#
دیکھیں مریضہ کا خون بہت بہہ چکا ہے ہم آپکوابھی کچھ کہہ نہیں سکتے فی الحال آپ انتظار کریں۔وہ بے بس ہو کر ایک سائیڈ پہ ہوگیا ۔
وہ اُسے اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا ۔کبھی بھی نہیں۔وہ رو رو کر اپنے پروردگار سے دُعائیں مانگ رہا تھا اسکی زندگی کے لیے ۔
اُسے اسکی زندگی چاہیے تھی اُسے نیلم چاہیے تھی ۔وہ جانتا تھا اس کا اسکے ساتھ کوئی رشتہ نہیں رہا مگر انسانیت کے ناطے ہی وہ اسکی مدد تو کر سکتا تھا نہ۔۔
دو گھنٹہ بعد ڈاکٹر اسکے پاس آئے اور بولے۔
ان کی طبیعت پہلے سے بہتر ہے ،خد اکا شکر ہے اُنہیں ہوش آگیا ہے ورنہ اُنہیں برین ٹیومر بھی ہو سکتا تھا کیونکہ ان کے دماغ کی حالت کچھ ٹھیک نہیں ۔
خدا بہتری کر ے گا میں ان کا چھی طرح سے علاج کرونگا ۔آپ پریشان مت ہوں۔
تھینکس ڈاکٹر ۔وہ خوش ہو گیا کہ اس کے پردردگا رنے اسکی دُعا سن لی ہے۔نیلم ٹھیک ہے۔۔
اٹس اوکے۔۔ڈاکٹر جا چکا تھا اور اب وہ کمرے کی جانب بڑھا تھا۔وہ جانتا تھا نیلم اس سے نہیں بولے گی مگر وہ اس سے ملنا چاہتا تھا اسے اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔وہ نہیں چاہتا تھا کہ نیلم کے ساتھ بُرا ہو ۔
۔
وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا نیلم کے پاس آگیا ۔۔۔نیلم۔۔۔نیلم۔۔آنکھیں کھولو ۔۔اس نے اُسے پیار سے پکارا۔
نیلم۔۔۔آپ ٹھیک ہیں؟نیلم کے آنکھیں نہ کھولنے سے وہ تھوڑا پریشان سا ہوا۔۔
نیلم پلیز۔۔آنکھیں کھولو۔۔وہ اسکے قریب ہوا۔۔۔
نیلم اپنے ہوش وہواس میں نہ تھی ۔۔اس نے اپنی آنکھیں کھول نے کی کوشش کی مگر کوئی طاقت تھی جو اسے روک رہی تھی ایسا کرنے سے اور وہ سر میں ہونے والی درد تھی ۔
۔اس نے بھر پور زور سے اپنی آنکھیں کھولیں تو ایک پل کے لیے وہ بھول گئی کہ وہ کہاں ہے؟اور اسکے سامنے کون ہے؟
میں ۔۔۔میں کہاں ہوں۔۔؟اس نے احمد کی جانب دیکھتے ہوئے کہا
ایک پل کے لیے احمد بھی گھبرا گیا کہ نیلم کو کیا ہو گیا ہے؟
نیلم آپ ہاسپٹل میں ہیں۔۔۔اس کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔۔۔
ہاسپٹل۔۔۔وہ کچھ سوچنے لگی۔
یاد آنے پر اس نے چونک کر احمد کی جانب دیکھا تو جیسے شاکٹ سی رہ گئی۔
۔۔
احمد آپ۔۔۔
آج اتنے عرصہ بعد احمد اسکے سامنے تھے۔اسکا دل زور زور سے دھڑکنے لگا
احمد آپ۔۔۔کہا ں تھے آپ۔۔۔۔؟وہ رونے کو تھی
احمد نے اُسے دلاسا دیا مگر وہ بے قابو سی ہو رہی تھی۔۔۔
دل انجانے ہی خدشوں سے دھڑک رہا تھا ۔میں۔۔۔میں نے آپکو بہت ڈھونڈا ۔۔۔کہاں تھے آپ۔۔۔؟وہ رو رہی تھی اور احمد کسی مجرم کی طرح اسکے سامنے کھڑا تھا ۔

وہ کیسے بتاتا کہ جب راستے اس نے خود الگ کیے تھے تو وہ کیسے نظر آتا۔۔۔؟وہ چپ سا رہا وہ کیا بولتا؟جو ہونا تھا ہو گیا۔۔اب بس وہ نیلم کو خوش دیکھنا چاہتا تھا اور کچھ نہیں ۔اب کی دفعہ نیلم مانے یا نہ مانے وہ اب نیلم کی نہیں سُنے گا ۔۔۔جیسے نیلم کی خوشی ہوئی وہ ویسے ہی کرے گا ۔مگر وہ نیلم کو خوش ضرور کرے گا ،اس نے اپنے آپ سے عہد کر لیا تھا۔
۔
نیلم کا سانس اکھڑ رہا تھا۔۔اسکی حالت ٹھیک نہیں تھی۔
میری بس ایک ہی ۔۔۔خواہش تھی احمد۔۔۔جب میں اس دنیا سے جاؤں ۔۔۔آپ کے سامنے میرا دم ٹوٹ ۔۔۔ جائے۔۔۔
اور۔۔۔آج ۔۔۔آج ۔۔۔میں ۔۔۔
نہیں ۔۔۔نیلم کچھ نہیں ہو گا تمھیں۔۔۔تم بہت جلدی ٹھیک ہو جاؤ گئی۔۔۔
اب مجھے سکون کی نید آئے گی۔۔۔مجھے بس آپکا ساتھ چاہیے تھا۔۔۔نیلم کی آنکھیں بند ہونے کو تھیں اور سانس اکھڑ چکا تھا۔
کچھ نہیں ہو گا نیلم میں ہوں نہ۔۔
اسکی طبعیت بالکل بھی ٹھیک نہ تھی آج پہلی بار اسے اس حالت میں دیکھ رہا تھا وہ خود بھی رو پڑا تھا اس سے رہا نہ گیا اسکے ساتھ لپٹ گیا ۔۔آنسو تھے جو رکنے کو نہ تھے۔اسکے ہاتھ میں نیلم کا ہاتھ بے جان ہو چکا تھا مشینوں سے آنے والی ٹون ٹون کی آواز نے اسے اسکے سحر سے آزاد کیا۔وہ یہ سب دیکھ کرخود سے بیگانہ ہو چکا تھا۔
ایسا نہیں ہو سکتا۔۔۔اس نے نیلم کی جانب دیکھا جو سکون کی نید سو چکی تھی۔
نیلم آنکھیں کھولو۔۔۔وہ مجبور ہو چکا تھا ،اسکی محبت اسکے سامنے دم توڑ چکی تھی اور وہ کچھ نہیں کر سکا تھا۔اسکا سانس بند سا ہو رہا تھا جیسے وہ بہت بڑی ہار کا سامنا کررہا ہو۔۔
یہ ہار ہی تو تھی جو اب اُسے جینے نہیں دے گی ۔قسمت نے اسکے ساتھ بہت بُرا کیا تھا اُس نے ہمیشہ نیلم کی بھلائی کا سوچا تھا اور اب جب نیلم نے اسکا ساتھ مانگا تو وہ خود اسے تنہا چھوڑ گئی۔
۔۔
جن راہوں پہ وہ خود تنہاچلی تھی آج سے وہ راستہ احمد کو دے گئی تھی۔
نرسزز روم میں آچکی تھیں اور وہ دم سادھے ایک طرف کھڑے ہو کر سب کچھ دیکھ رہا تھا۔۔اسمیں اب ہمت نہ تھی کہ وہ کچھ بولے ۔
اُسے کمرے سے لے جایا چکا تھا اور اب اس کمرے میں وہ تھااور اسکی دہشت زدہ تنہائی۔۔۔
ختم شد!

Browse More Urdu Literature Articles